وجود

... loading ...

وجود

سیاستدانوں کا سسرال

پیر 11 ستمبر 2023 سیاستدانوں کا سسرال

میری بات/روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری جیلیں خوف اور دہشت کی علامت تو ہیں ہی ساتھ میں جرائم کی یونیورسٹیاں بھی ہیں ۔جنہیں سیاستدان اپنا سسرال بھی کہتے ہیں۔ جہاں سیاستدان کچھ عرصہ رہ کر ایسے کاریگر بن کر باہر آتے ہیں کہ پھر جیسے ہی انہیں ملک وقوم کی خدمت کا موقع ملتا ہے تو وہ اپنی پرانی رہ جانے والی کسریں بھی نکال لیتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے جن جن سیاستدانوں نے کروڑوں اور اربوں روپے کی کرپشن میںجیل کاٹی جب باہر آئے تو پھرموقع ملتے ہی انہوں نے قومی خزانے کی بندر بانٹ بڑے کھلے دل سے کی ۔ ابھی آئی ایم ایف سے منتیں کرکرکے قرضہ لیا جسے پی ڈی ایم حکومت نے بڑی فراخدلی سے بانٹ لیا۔ اوکاڑہ سے سے آزاد ایم پی اے جیتنے والی بہادر خاتون جگنو محسن نے اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھا دیا لیکن ہوا کیا کچھ بھی نہیں۔ سب نے یہ بات ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دی۔ بالکل اسی طرح جیسے صدر پاکستان نے کہا تھا کہ میں نے قانون سازی کے لیے آنے والے بلز پر دستخط ہی نہیں کیے لیکن وہ قانون بھی بن گیا اور کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
ابھی نیب ترامیم کا کیس بھی عدلیہ میں زیر سماعت ہے اور زیادہ فائدہ شہباز شریف کو ہواتھا۔نیب نے شہباز شریف کے کیسز کی تفصیلات دیتے ہوئے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا تھاکہ لال سوہانرا نیشنل پارک کے قریب 1400 کنال سرکاری اراضی کی غیر قانونی الاٹمنٹ سے متعلق کیس بھی حالیہ ترمیم سے متاثر ہواکیونکہ یہ مبینہ فراڈ500 ملین روپے سے کم ہے۔ اسی طرح سابق وزیراعظم اور دیگر کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال سے متعلق رمضان شوگر مل کیس بھی متاثر ہوا کیونکہ اس مبینہ سکینڈل میں ملوث رقم بھی 500 ملین روپے سے کم ہے۔ 2014 سے 2018 تک وزیر اعظم کے طیارے کے غیر قانونی استعمال کے حوالے سے شہباز شریف اور دیگر کے خلاف انکوائری بھی متاثر ہوئی۔ نیب رپورٹ کے مطابق حالیہ نیب ترمیم سے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف باقی کیسز کے علاوہ نیشنلائزیشن ایکٹ 1974 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ZTBL کے سی ای او کی غیر قانونی تقرری سے متعلق تحقیقات متاثر ہوئیں اور سابق وفاقی وزیر ریلوے کے خلاف بھی انکوائری بند ہو گئی ۔جبکہ حالیہ ترامیم سے پی ٹی آئی چھوڑنے والے سابق وفاقی وزیر خسرو بختیار، مخدوم ہاشم جواں بخت اور خاندان کے دیگر افراد کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کی انکوائری بھی متاثر ہوئی استحکام پاکستان پارٹی کے صدر علیم خان کے خلاف پارک ویو کیس بھی نیب نے بند کر دیا۔
نیب ترامیم کی وجہ سے پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان کے خلاف انکوائری کو بند کردیا گیا کیونکہ کیس میں ملزم کے نام پر جائیداد بے نامی تھی اور نئے ترمیمی ایکٹ میں بے نامی قانون بھی تبدیل کیا گیا ہے۔ نیب ترامیم کے خلاف کیس میں جمع کروائی گئی نیب رپورٹ کے مطابق آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کی انکوائری قومی احتساب ایکٹ 2022 کے سیکشن 4(2a) کے تحت متاثر ہوئی جبکہ ترامیم کے بعد عدالتی دائرہ اختیار نہ ہونے پر زرداری خاندان اور ان کے فرنٹ مینوں کیخلاف جعلی اکاؤنٹس کے 4 ریفرنسز نیب کو واپس کیے ۔ نیب ترامیم سے سابق وزیر دفاع خواجہ آصف کے خلاف کینٹ ہاؤسنگ سوسائٹی کی منظوری اور پرائیویٹ افراد کی زمینیں حاصل کرنے اور لوگوں کو دھوکہ دینے کے الزام پر انکوائری متاثر ہوئی۔ نواز شریف اور مریم نواز سمیت شریف خاندان کی ملکیت چوہدری شوگر ملز کے خلاف بھی انکوائری متاثر ہوئی اور ابھی مزید نواز شریف کے خلاف کل چھ مقدمات متاثر ہوں گے۔ حالیہ نیب ترامیم سے سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں، بے نامی داروں کے نام پر 95 ملین روپے کے غیر قانونی اثاثوں اور 100 ملین روپے کے غیرقانونی منافع کی انکوائری بھی متاثر ہوئی۔ نیب کی حالیہ ترامیم سے موجودہ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ بھی مستفید ہوئے۔ جبکہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل آف پاکستان کے چیئرمین سید عادل گیلانی کے خلاف بھی انکوائری متاثر ہوئی۔ کل ملا کر نیب ترامیم سے سابق وزیراعظم شہباز شریف، پی ڈی ایم حکومت کے سینئر وفاقی وزرائ، پی ڈی ایم قائدین میں میاں نواز شریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان، مریم نواز، فریال تالپور، اسحاق ڈار، خواجہ محمد آصف، خواجہ سعد رفیق، رانا ثناء اللہ، جاوید لطیف، مخدوم خسرو بختیار، عامر محمود کیانی، اکرم درانی، سلیم مانڈوی والا، نور عالم خان، نواب اسلم رئیسانی، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، نواب ثناء اللہ زہری، برجیس طاہر، نواب علی وسان، شرجیل انعام میمن، انوار الحق کاکڑ، لیاقت جتوئی، امیر مقام، گورم بگٹی، جعفر خان مندوخیل، گورنر جی بی سید مہدی شاہ مستفید ہوئے ان میں سے اکثر لوگ اب بھی اعلی عہدوں پر موجود ہیں اور ملک و قوم کی خدمت میں دن رات مصروف ہیں۔ باقی جو بڑے گرو تھے وہ سب ملک چھوڑ کر واپس اپنے اپنے ٹھکانوں میں پہنچ چکے ہیں۔ اگر کسی وقت حالات ساز گار ہوئے تو پھر ان لوگوں کو عوام کی خدمت کے لیے مسلط کیا جاسکتا ہے جن عوامی خدمتگاروں کے نام اوپر آپ نے پڑھے ہیں، ان کی اکثریت جیلوں میںرہ چکی ہے ۔
پنجاب کی جیلیں تو ویسے بھی بڑے لوگوں کے لیے امن و سکون کا گھر ہے ،جہاں انہیں دنیا کی آسائشیں میسر ہیں جبکہ غریب اور مسکین لوگوں کے لیے یہ جیل بن جاتی ہے۔ عمران خان بھی اٹک جیل میں بند ہیں جو حقیقی معنوں میںجیل کی زندگی گزر رہے ہیں اور انکے مقابلہ میں ن لیگی رہنما ڈسٹرکٹ جیل لاہور کے عارضی رہائش رہے ہیںوہ پوری موج مستی میںرہے تھے اور ان کے مقابلہ میں عمران خان کو کیسے رکھا ہوا ہے؟


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر