... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری جیلیں خوف اور دہشت کی علامت تو ہیں ہی ساتھ میں جرائم کی یونیورسٹیاں بھی ہیں ۔جنہیں سیاستدان اپنا سسرال بھی کہتے ہیں۔ جہاں سیاستدان کچھ عرصہ رہ کر ایسے کاریگر بن کر باہر آتے ہیں کہ پھر جیسے ہی انہیں ملک وقوم کی خدمت کا موقع ملتا ہے تو وہ اپنی پرانی رہ جانے والی کسریں بھی نکال لیتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے جن جن سیاستدانوں نے کروڑوں اور اربوں روپے کی کرپشن میںجیل کاٹی جب باہر آئے تو پھرموقع ملتے ہی انہوں نے قومی خزانے کی بندر بانٹ بڑے کھلے دل سے کی ۔ ابھی آئی ایم ایف سے منتیں کرکرکے قرضہ لیا جسے پی ڈی ایم حکومت نے بڑی فراخدلی سے بانٹ لیا۔ اوکاڑہ سے سے آزاد ایم پی اے جیتنے والی بہادر خاتون جگنو محسن نے اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھا دیا لیکن ہوا کیا کچھ بھی نہیں۔ سب نے یہ بات ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دی۔ بالکل اسی طرح جیسے صدر پاکستان نے کہا تھا کہ میں نے قانون سازی کے لیے آنے والے بلز پر دستخط ہی نہیں کیے لیکن وہ قانون بھی بن گیا اور کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
ابھی نیب ترامیم کا کیس بھی عدلیہ میں زیر سماعت ہے اور زیادہ فائدہ شہباز شریف کو ہواتھا۔نیب نے شہباز شریف کے کیسز کی تفصیلات دیتے ہوئے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا تھاکہ لال سوہانرا نیشنل پارک کے قریب 1400 کنال سرکاری اراضی کی غیر قانونی الاٹمنٹ سے متعلق کیس بھی حالیہ ترمیم سے متاثر ہواکیونکہ یہ مبینہ فراڈ500 ملین روپے سے کم ہے۔ اسی طرح سابق وزیراعظم اور دیگر کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال سے متعلق رمضان شوگر مل کیس بھی متاثر ہوا کیونکہ اس مبینہ سکینڈل میں ملوث رقم بھی 500 ملین روپے سے کم ہے۔ 2014 سے 2018 تک وزیر اعظم کے طیارے کے غیر قانونی استعمال کے حوالے سے شہباز شریف اور دیگر کے خلاف انکوائری بھی متاثر ہوئی۔ نیب رپورٹ کے مطابق حالیہ نیب ترمیم سے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف باقی کیسز کے علاوہ نیشنلائزیشن ایکٹ 1974 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ZTBL کے سی ای او کی غیر قانونی تقرری سے متعلق تحقیقات متاثر ہوئیں اور سابق وفاقی وزیر ریلوے کے خلاف بھی انکوائری بند ہو گئی ۔جبکہ حالیہ ترامیم سے پی ٹی آئی چھوڑنے والے سابق وفاقی وزیر خسرو بختیار، مخدوم ہاشم جواں بخت اور خاندان کے دیگر افراد کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کی انکوائری بھی متاثر ہوئی استحکام پاکستان پارٹی کے صدر علیم خان کے خلاف پارک ویو کیس بھی نیب نے بند کر دیا۔
نیب ترامیم کی وجہ سے پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان کے خلاف انکوائری کو بند کردیا گیا کیونکہ کیس میں ملزم کے نام پر جائیداد بے نامی تھی اور نئے ترمیمی ایکٹ میں بے نامی قانون بھی تبدیل کیا گیا ہے۔ نیب ترامیم کے خلاف کیس میں جمع کروائی گئی نیب رپورٹ کے مطابق آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کی انکوائری قومی احتساب ایکٹ 2022 کے سیکشن 4(2a) کے تحت متاثر ہوئی جبکہ ترامیم کے بعد عدالتی دائرہ اختیار نہ ہونے پر زرداری خاندان اور ان کے فرنٹ مینوں کیخلاف جعلی اکاؤنٹس کے 4 ریفرنسز نیب کو واپس کیے ۔ نیب ترامیم سے سابق وزیر دفاع خواجہ آصف کے خلاف کینٹ ہاؤسنگ سوسائٹی کی منظوری اور پرائیویٹ افراد کی زمینیں حاصل کرنے اور لوگوں کو دھوکہ دینے کے الزام پر انکوائری متاثر ہوئی۔ نواز شریف اور مریم نواز سمیت شریف خاندان کی ملکیت چوہدری شوگر ملز کے خلاف بھی انکوائری متاثر ہوئی اور ابھی مزید نواز شریف کے خلاف کل چھ مقدمات متاثر ہوں گے۔ حالیہ نیب ترامیم سے سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں، بے نامی داروں کے نام پر 95 ملین روپے کے غیر قانونی اثاثوں اور 100 ملین روپے کے غیرقانونی منافع کی انکوائری بھی متاثر ہوئی۔ نیب کی حالیہ ترامیم سے موجودہ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ بھی مستفید ہوئے۔ جبکہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل آف پاکستان کے چیئرمین سید عادل گیلانی کے خلاف بھی انکوائری متاثر ہوئی۔ کل ملا کر نیب ترامیم سے سابق وزیراعظم شہباز شریف، پی ڈی ایم حکومت کے سینئر وفاقی وزرائ، پی ڈی ایم قائدین میں میاں نواز شریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان، مریم نواز، فریال تالپور، اسحاق ڈار، خواجہ محمد آصف، خواجہ سعد رفیق، رانا ثناء اللہ، جاوید لطیف، مخدوم خسرو بختیار، عامر محمود کیانی، اکرم درانی، سلیم مانڈوی والا، نور عالم خان، نواب اسلم رئیسانی، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، نواب ثناء اللہ زہری، برجیس طاہر، نواب علی وسان، شرجیل انعام میمن، انوار الحق کاکڑ، لیاقت جتوئی، امیر مقام، گورم بگٹی، جعفر خان مندوخیل، گورنر جی بی سید مہدی شاہ مستفید ہوئے ان میں سے اکثر لوگ اب بھی اعلی عہدوں پر موجود ہیں اور ملک و قوم کی خدمت میں دن رات مصروف ہیں۔ باقی جو بڑے گرو تھے وہ سب ملک چھوڑ کر واپس اپنے اپنے ٹھکانوں میں پہنچ چکے ہیں۔ اگر کسی وقت حالات ساز گار ہوئے تو پھر ان لوگوں کو عوام کی خدمت کے لیے مسلط کیا جاسکتا ہے جن عوامی خدمتگاروں کے نام اوپر آپ نے پڑھے ہیں، ان کی اکثریت جیلوں میںرہ چکی ہے ۔
پنجاب کی جیلیں تو ویسے بھی بڑے لوگوں کے لیے امن و سکون کا گھر ہے ،جہاں انہیں دنیا کی آسائشیں میسر ہیں جبکہ غریب اور مسکین لوگوں کے لیے یہ جیل بن جاتی ہے۔ عمران خان بھی اٹک جیل میں بند ہیں جو حقیقی معنوں میںجیل کی زندگی گزر رہے ہیں اور انکے مقابلہ میں ن لیگی رہنما ڈسٹرکٹ جیل لاہور کے عارضی رہائش رہے ہیںوہ پوری موج مستی میںرہے تھے اور ان کے مقابلہ میں عمران خان کو کیسے رکھا ہوا ہے؟