... loading ...
۔
عماد بزدار
۔۔۔۔۔۔۔
رؤف کلاسرا صاحب ہمارے سینئر کالم نگار اینکر اور دانشور ہیں۔معیشت، معاشرت، سیاست کرپشن پر ایکسپلوسوا سٹوریز کے ساتھ ساتھ
تاریخ پر بھی لکھتے رہتے ہیں۔ کچھ سال قبل کلاسرا صاحب نے”کشمیر کہانی” کے عنوان سے پچیس اقساط پر مبنی ایک سیریز لکھی تھی۔ وہ سیریز پڑھ کر میرا خیال تھا کلاسرا صاحب ایک آدھ کتاب پڑھ کر قطعیت کے ساتھ رائے قائم کرتے ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ مجھے اندازہ ہوا یہ بات بھی مشکوک ہے کہ ضروری نہیں جن کتابوں کا حوالہ اپنے کالمز میں کلاسرا صاحب دے رہے ہوتے ہیں، وہ مکمل پڑھی بھی ہیں کہ نہیں (اس کی وضاحت میں آگے جا کر کروں گا)۔
اپنی اس کشمیر سیریز میں کلاسرا صاحب نے ماؤنٹ بیٹن کو عظمت کا قطب مینار بنا کر پیش کرتے ہوئے حقائق کا گلا بے دردی سے گھونٹا۔
ظاہر ہے پچیس اقساط کا جواب لکھنے کے لئے پوری کتاب لکھنے کی ضرورت ہوگی۔ یہاں میں چند ایک آدھ غیر مستند بات کو جس طرح کلاسرا صاحب نے حقیقت بنا کر پیش کیا اس پر بات کرونگا۔
تقسیم کا پلان جس طرح بد دیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماؤنٹ بیٹن نے نہرو کو دکھایا، اس پر کلاسرا صاحب لکھتے ہیں ”ماؤنٹ بیٹن کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ وہ وہ یہ پلان نہرو کو دکھادیں۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن عمر بھر اپنی اندرونی وجدان پر بھروسہ کرتا آیا تھا ، اور
اس کے خدشات ہمیشہ درست نکلتے تھے”۔
حقیقت یہ ہے کہ اس میں کوئی وجدان نامی چیز کارفرما نہیں تھی یہ ایک سوچی سمجھی رائے اور صریح بد دیانتی تھی ۔ برطانوی سامراج کانگریس کی دیوی کو ہر حال میں خوش کرنا چاہتی تھی۔ تقسیم کے حوالے سے اب اتنا مواد سامنے آچکا کہ تشہیر کے شوقین اس استعماری چھچھورے کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی اور ہمارے کلاسرا صاحب ہیں کہ اس بددیانتی کو وجدان کا چولا پہنا کر ماؤنٹ بیٹن کو عظیم دکھانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ جب تقسیم کے ابتدائی پلان پر نہرو نے ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسترد کیا تو اس پر کلاسرا صاحب لکھتے ہیں ”لیکن لارڈ مائونٹ بیٹن ایک عام انسان نہ تھا جو نہرو کے اس سخت خط کے بعد شدید مایوسی کا شکار ہو جاتا”۔
کلاسرا صاحب کے اس”غیر معمولی انسان” کے بارے میں مہاراشٹر کے ایڈوکیٹ جنرل ایچ ایم سیروائی لکھتے ہیں کہ ”سرکاری دستاویزات اور شائع شدہ ریکارڈ جسے ٹرانسفر آف پاور کے عنوان سے کئی جلدوں میں شائع کیا گیا ان کے مطالعے سے بلاشبہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب ماؤنٹ بیٹن نے تقسیم کے لیے منصوبہ بندی کرنی شروع کی تو اس نے انصاف کا وہ لبادہ اتار دیا جو اس نے اب تک مسلم لیگ اور کانگریس کے ضمن میں اوڑھ رکھا تھا۔ اس کے اس دعوے کا بھانڈا پھوٹ گیا کہ وہ مسلم لیگ اور کانگریس سے یکساں سلوک کر رہا ہے ۔وہ حق دوستی ادا کرنے کے لیے اہم دستاویزات نہرو کو دکھاتا رہا۔ اس سے تجاویز لے کر ان دستاویزات میں تبدیلیاں کرتا رہا، لیکن اس نے جناح اور مسلم لیگ کو اندھیرے میں رکھا اور ان کا رد عمل جاننے کی کبھی زحمت گوارا نہ کی”۔
ہندوستانی مسلمان منصور احمد ،رضا خان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ”وائسرائے کی دراصل بڑی خواہش تھی کہ پنڈت نہرو کی تائید ان کے پلان کو پہلے ہی حاصل ہو جائے، سچ تو یہ ہے کہ وائسرائے اپنی اس خواہش کو چھپا نہیں سکے کہ وہ کانگریس کو مطمئن اور خوش دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ اگر لیگ کوئی عذر کھڑا کریں گے تو انہیں اس بات کا خوف دلایا جائے گا کہ اختیارات کانگریس کے ہاتھوں ایک واحد مرکزی حکومت کی شکل میں سونپ دیے جایئں گے”۔
پروفیسر مہدی حسن کے مطابق کلاسرا کا یہ ”غیر معمولی” نہرو اور پٹیل کی محفل میں جناح صاحب کا نام تک لینا گوارا نہیں کرتے تھے
بلکہ”میڈ مین” کہہ کر مذاق اڑایا کرتے تھے ۔نفسیاتی کے الفاظ توٹرانسفر آف پاؤر میں بھی موجود ہیں۔ لیری کولنز ہی کے مطابق اس
”غیر معمولی انسان”نے جناح صاحب کو شیطانی ذہانت کا مالک کہا،ساتھ گالی بھی دی۔حقیقت یہ ہے کشمیر کا فیصلہ بھی اسی وقت ہوچکا تھا جب شملہ میںبیٹھ کر نہرو اور ماؤنٹ بیٹن کی مرضی سے وی پی مینن نے تقسیم کا منصوبہ لکھا جسے کلاسرا صاحب نے وجدان کے غلاف میں لپیٹ کر ماؤنٹ بیٹن کی عظمت ثابت کرنے کی کوشش کی۔ کلاسرا صاحب ریڈ کلف کے سیکریٹری کرسٹوفر بیوماؤنٹ کا اعتراف ہی پڑھتے تو
شاید کشمیر کہانی کے نام پر اپنا اور پڑھنے والوں کا اتنا وقت ضائع نہ کرتے ۔
کلاسرا صاحب کے مطابق کشمیر سیریز لکھنے کے لئے دوسری کتابوں کے ساتھ اس نے لیری کولنز کی کتاب ”فریڈم ایٹ مڈنائٹ”سے بھی مدد لی۔ لیکن جو کچھ انہوں نے اپنے 05 اپریل 2023کے کالم ”کنویں سے اب کون نکالے”میں لکھا اس سے نہیں لگتا کہ کلاسرا صاحب نے یہ پوری کتاب پڑھی ہے ۔ کیا لکھتے ہیں؟”ہندوستان کے وائسرائے نے جب اعلان کیا کہ چودہ اور پندرہ اگست
کی درمیانی رات برطانوی راج کا خاتمہ ہوگا اور اقتدار لوکل لیڈروں کو سونپ دیا جائے گا اور وہ ہندوستان اور پاکستان کی قیادت کریں گے
تو سب پنڈت اسی وقت زائچہ بنانے بیٹھ گئے تھے کہ اس دن ان دو ملکوں کا آزاد ہونا کیسا ہوگا۔ کیا یہ مناسب تاریخ ہوگی؟ اس روز جنم
لینے والے ممالک کا مستقبل کیا ہوگا؟
اس پنڈت نے دونوں ملکوں کا زائچہ بنایا تو اس کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھیل گئیں۔ اس کے حساب میں وہ نحس دن تھا اور اگر اس دن تقسیم پلان پر عمل کیا گیا تو بڑے پیمانے پر تباہی ہوگی۔ اس پنڈت کو کچھ سمجھ نہ آیا تو اس نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو خط لکھنے کا
فیصلہ کیا کہ اسے خبردار کرسکے کہ وہ اس تاریخ کو چند دن آگے پیچھے کرے کیونکہ اس روز آسمان پر ستاروں کی چال بہت خطرناک ہوگی جس کے نتائج اچھے نہیں نکلیں گے ۔
اس خط کا تذکرہ تقسیم ہندوستان پر لکھی گئی بہت خوبصورت کتاب ”فریڈم ایٹ مڈ نائٹ” میں تفصیل سے دیا گیا۔ اب یہ نہیں پتہ وہ خط ماؤنٹ بیٹن تک پہنچا یا نہیں لیکن برسوں بعد اس کتاب کے دو مصنفین نے اس خط کی تفصیلات ڈھوند نکالیں۔
ویسے اگر یہ خط زائچے سمیت لارڈ ماؤنٹ بیٹن تک پہنچ بھی جاتا تو اس نے کون سا اسے سنجیدہ لے کر تاریخ بدلنی تھی۔ سات سمندر پار سے جنگ عظیم دوم میں برطانیہ کی طرف سے لڑنے والا ماؤنٹ بیٹن ان باتوں پر بھلا کب یقین کرتا۔ وہ ایک عملی اور جدید دنیا کا بندہ تھا۔ جہاں ان چیزوں کی گنجائش نہیں کہ ایک مندر کا پنڈت بتائے کہ اس نے کس تاریخ کو برطانیہ کا تاج ہندوستان کے سر پر رکھنا ہے”۔
اب ” فریڈم ایٹ مڈ نائٹ”کے صفحہ 246 میں جو تفصیل لکھی ہے وہ کچھ اس طرح ہے
۔
Most vexing problem of all was that posed by
Mountbatten”s impetuous selection of 15 August as
the date for Indian independence. A congeries of
astrologers finally advised India’s politicians that,
though 15 August was a wholly inauspicious day on
which to begin their nation”s modern history, 14
August represented a considerably more favourable
conjuncture of the stars. A relieved Viceroy accepted
the compromise the India politicians proposed to
propitiate the celestial bodies: India and Pakistan
would become independent dominions on the stroke
of midnight, 14 August 1947.
(ماؤنٹ بیٹن کا ہندوستان کی آزادی کے لئے پندرہ اگست کی تاریخ کا جلد بازی میں کیا گیا اعلان
سب سے زیادہ پریشان کن مسئلہ تھا۔بالآخر جوتشیوں نے ہندوستانی سیاستدانوں کو مشورہ دیا کہ اگرچہ پندرہ
تاریخ ہندوستان کے نئے آغاز کے لیے انتہائی منحوس ہے مگرچودہ اگست کو ستاروں کی چال ہندوستان کے
لیے خوش بختی کا پتہ دے رہی ہے ۔وائسرائے نے ہندوستانی سیاست دانوں کی تاریخ کی اس تبدیلی کی تجویز
کو خوشدلی سے قبول کرلیا جو انہوں نے آسمانی طاقتوں کو مطمئن کر نے کے لئے پیش کی تھی ۔اس کے نتیجے میں
بھارت اور پاکستان 14 اگست کو آدھی رات کے وقت دو خودمختار ریاستیں بن کردنیا کے نقشے میں ابھریں )۔
بلکہ اس سے آگے بڑھ کر کلاسرا صاحب کے جنگ عظیم دوم لڑنے والے عملی اور جدید دنیا کے ماؤنٹ بیٹن نے اپنے پریس اتاشی کیمبل جونسن کو ایک نئی ذمہ داری بھی سونپ دی۔ وہ کیا؟ فریدم ایٹ مڈ نائٹ سے ہی پڑھتے ہیں:۔
he assigned his able young press attache, Alan
Campbell Johnson, the additional responsibilities of
viceregal astrologer
ان تمام باتوں کی روشنی میں کلاسرا صاحب کی خدمت میں دست بستہ گزارش ہے تاریخ جیسے حساس موضوع کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے بہتر ہے اپنے صلاحیتوں کو ”دیوتا ”ٹائپ سیریز لکھنے میں صرف کریں تو ان کا اس قوم پر احسان ہوگا۔