... loading ...
عطا اللہ ذکی ابڑو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
76 برس بیت گئے، بد قسمتی سے انگریزوں سے آزادی کے بعد بھی غلامانہ سوچ اور رویوں نے ہماری جان نہیں چھوڑی۔ جب بھی کوئی بڑا قومی فیصلہ لینا ہوتا ہے ہم اکثراپنے بیرونی آقا (آئی ایم ایف) کے اشاروں کی طرف دیکھتے رہتے ہیں یا پھراس فیصلے کے ساتھ خوف، ڈر اور لالچ کو اس قدرمنسلک کر لیتے ہیں کہ وہ فیصلہ ہمارے لیے وبال جان بن جاتا ہے اور اکثریہ بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنے خلاف ناگزیرفیصلوں کو رد کرنے میں اتنی تاخیر کرچکے ہوتے ہیں کہ اس کی وجہ سے ہمارا بے پناہ نقصان ہوچکا ہوتا ہے۔ ہمارے ساتھ بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے یہی ہورہا ہے ۔ہماری گھٹی میں یہ بات شامل کرادی گئی ہے کہ ہم آزاد تو ہیں مگرصرف نام کے؟ ہمارا آقا (آئی ایم ایف) باہربیٹھ کرہمارے مستقبل کے فیصلے کرتا ہے؟ جب تک ہمارا ایک ایک بچہ اس کا قرض نہیں اتاردیتا جو ہم نے کبھی لیا ہی نہیں؟ ہم کبھی اس کے چنگل سے آزاد نہیں ہوسکتے؟ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہمیں ہمارے ملک کیلیے کیا جانے والا آئی ایم ایف کا ہر فیصلہ کسی پھانسی کے پھندے کی صورت ہمارے گلے کا طوق بنتا جارہا ہے؟ ہماری مثال پریہ کہاوت صادق آتی ہے کہ ”آپ ایک پانی سے بھرے برتن میں ایک زندہ مینڈک کو ڈال دیں اور پانی کو بوائل کرنا شروع کریں جیسے ہی پانی کا درجہ حرارت بڑھنا شروع ہو گا،مینڈک بھی اپنی باڈی کا ٹمپریچر پانی کے مطابق ڈھالنا شروع کردے گا اور اسوقت تک ایسا کرتا رہے گا جب تک پانی کا درجہ حرارت ”بوائلنگ پوائنٹ” تک نہیں آجاتا؟ جیسے ہی پانی کا ٹمپریچربوائلنگ پوائنٹ تک پہنچے گا مینڈک اپنی باڈی کا ٹمپریچر پانی کے ٹمپریچر کے مطابق ایڈجسٹ نہیں کر پائے گا اور برتن سے باہر نکلنے کی کوشش کرے گا لیکن مینڈک ایسا کر نہیں پائے گا؟ کیونکہ تب تک وہ اپنی ساری توانائی خود کو ماحول کے مطابق ڈھالنے میں صرف کر چکا ہو گا بہت جلد مینڈک مر جائے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ کونسی چیز ہے جس نے مینڈک کو مارا؟ سوچئے! میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے اکثر یہ کہیں گے کہ مینڈک کو مارنے والی چیز وہ انسان ہے جس نے مینڈک کو پانی میں ڈالا؟ یا پھر کچھ یہ کہیں گے کہ مینڈک اُبلتے ہوئے پانی کی وجہ سے مرا؟ لیکن سچ یہ ہے کہ مینڈک صرف اس وجہ سے مرا کیونکہ وہ وقت پر جمپ کرنے کا فیصلہ نہ کر سکا اور خود کو ماحول کے مطابق ڈھالنے میں لگا رہا؟”۔
پاکستانی قوم کا بھی یہی حال ہے ہربندہ پریشان ہے؟ تبدیلی کے نام پرآنے والی حکومتوں سے؟ اقتدار میں آنے والے چور، لٹیرے حکمرانوں سے؟ مہنگائی کرنے والے ذخیرہ اندوزوں سے؟ بجلی بلوں سے؟ روز مرہ کی بڑھتی اشیا سے؟ اس کے باوجود سب خاموش ہیں بس گردن جھکا کر انتظار میں ہیں کہ ہمارا باڈی ٹمپریچرجب تک برداشت کرتا ہے کرتے رہو کیونکہ ہمارا بوائلنگ پوائنٹ ڈیڈ لیول پرآچکا ہے ہم چاہ کر بھی اس سے باہرنہیں نکل سکتے؟ ہم نے اپنی ساری توانائی اس مینڈک کی طرح سسٹم کے مطابق ڈھلنے میں لگادی ہے۔ یہ بات ہم سب جانتے ہیں مگر ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ ملک کو کھوکھلا، کنگال کرنے والے سیاستدان آج کل بڑے زوروں کی الیکشن مہم پر نکلے ہیں اور یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ملک کاسب سے بڑا مسئلہ آرمی چیف، صدرمملکت یا وزیراعظم کی تعیناتی ہے؟ کبھی ہمیں لگتا ہے کہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس،ججز کی تعیناتی ہے تو کبھی کہتے ہیں کہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ مردم شماری ہے۔ آج کل یہ بتایا جارہا ہے کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ صاف اور شفاف عام انتخابات اور بجلی کے بلوں کا ہے ۔ان سارے مسائل کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کے لیے بننے والی نگراں حکومت کے وزیز خزانہ ہمیں بتاتے ہیں کہ آئی ایم ایف کو بجلی ریلیف پلان میں بتایا گیا تھا کہ بجلی کے بلوں میں ریلیف سے ساڑھے 6 ارب روپے سے کم کا اثرپڑے گا جس پر آئی ایم ایف نے پلان مسترد کرتے ہوئے 15 ارب روپے سے زائد کا اثر بتایا، آئی ایم ایف نے 15 ارب کی مالیاتی گنجائش پوری کرنے کا پلان بھی مانگا ہے۔ پانچ ستمبر کو خبر گرم تھی کہ وزارت خزانہ نے ڈرافٹ میں ترمیم کرکے بجلی کے بلوں میں ریلیف کا نیا پلان عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کو ارسال کر دیا ہے جس میں صارف سے بلوں کو 4 ماہ میں وصول کرنے کی درخواست کی گئی ہے، آئی پی پیز کے لیے مختص اضافی رقم کو بجلی کے بلوں میں ریلیف دینے کے لیے ایڈجسٹ کیا جاسکتا ہے، بل سے اقساط وصول ہونے پر 15 ارب سے زائد کی یہ رقم واپس آئی پی پیز کے لیے مختص کی جائے گی۔ آئی ایم ایف سے فیصلہ آنا ابھی باقی تھا کہ نگراں حکومت نے کراچی کے لیے بجلی مزید 10 روپے 32 پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی درخواست کردی ہے، نیپرا کی جانب سے حکومتی درخواست پر 11 ستمبر یعنی دو روز بعد فیصلہ ہونا ہے ان زیادتیوں کیخلاف 18 ستمبرکو جماعت اسلامی نے ایک بار پھر ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان کردیا ہے؟ آئے روز بجلی،گیس اور اشیائے خور و نوش کے دام سرچڑھ کر بول رہے ہیں ہر شخص نے غریب کی جیب سے روپیہ نکالنے کو آئی ایم ایف سے نتھی کررکھا ہے؟ نگران وزیر توانائی محمد علی توانائی اصلاحات دینے کے بجائے واشگاف الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ جب تک بجلی چوری ختم نہیں ہوتی اور لوگ بل ادا نہیں کرتے اس وقت تک عوام کو سستی بجلی نہیں ملے گی شاید وہ اس بات سے نابلد ہیں کہ بل سے بلبلاتے عوام بجلی کے ہر ماہ بڑھتے ٹیرف باقاعدگی سے نہ صرف ادا کر رہے ہیں بلکہ اپنے زیور بیچ کر بھی اسے فریضہ سمجھ کر قسطیں پوری کررہے ہیں۔ ایک غلامانہ ذہنیت جو آپ نے ان کی گھٹی میں شامل کردی ہے ،یہ اب آسانی سے نہیں جانے والی؟ وزیرموصوف صاحب یہ بھی بخوبی جانتے ہی ہوں گے کہ اس وقت ملک میں 589 ارب روپے کی بجلی چوری ہو رہی ہے، سیکڑوں بجلی چوروں کے خلاف پرچے بھی کٹ چکے ہیں ،یہ کوئی عام شخص نہیں اس میں ایم این ایز اور ایم پی ایز شامل ہیں ،ان کیخلاف ایکشن کون لے گا؟ انہیں روکنا کس کا کام ہے ؟اپنے اداروں پر بھی ایک نظر ڈالیں جو اس چوری میں ملوث ہیں آج کل لوگ لاکھوں روپے بل بھرنے کے بجائے واپڈا یا کے الیکٹرک کا بندہ پکڑ کر لے آتے ہیں جو انہیں نہ صرف کنڈا لگاکردیتا ہے بلکہ چھاپے سے ایک گھنٹہ قبل ہوشیار بھی کردیتا ہے؟ دن بھرکا تھکا ہارا مزدوری کرکے جب گھر پہنچتا ہے تو لائٹ چلی جاتی ہے جب نہانے جاتا ہے تو نل میں پانی نہیں ہوتا؟پانی کا انتظار کرتا ہے تو گیس چلی جاتی ہے،بیزاری کے عالم میں باہر ہوٹل پر چائے پینے بیٹھتا ہے تو اس کا موبائل چھن جاتا ہے؟ ہوٹل مالکان چینی مہنگی ہونے سے 60 روپے والا چائے کا کپ 70 روپے اور کٹ چائے یعنی (آدھاکپ) 50 روپے کے بجائے 60 روپے میں فروخت کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود ہوٹلوں پر آپ کو روز لوگوں کا رش دکھائی دے گا جو چائے کی چسکیاں لے کر مہنگائی کا رونا رو رہے ہوں گے؟ اگر آپ ہوٹل پر بیٹھ کر چائے پینا نہیں چھوڑ سکتے تو اتنا تو کرسکتے ہیں کہ چائے میں چینی کے بجائے گڑاستعمال کرنا شروع کردیں۔ آپ کا یہ پیسہ پندرہ شوگر ملز مافیا کے خاندانوں کے بجائے پچاس لاکھ کسانوں کے پاس چلا جائے گا؟مگر ہم ایسا سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اقتدار کی رسہ کشی کے لیے غریب کو استعمال کرنے والے حکمرانوں کے علاوہ کوئی کسی جاگیردار، ذخیری اندوزوں، لینڈمافیاز اور عوام کا استحصال کرنے والوں کے خلاف سڑکوں پر آنے کو تیار نہیں؟ ان کے خلاف موثر آواز اٹھانے کو تیارنہیں ہے؟ ہم اپنے اوپر بھی ہراس ظلم کو اور تشدد کو شاید اس لیے برداشت کر لیتے ہیں کہ ہمیں یہ بتادیا گیا ہے کہ ہمارا بچہ بچہ آئی ایم ایف کا مقروض ہے؟ ایک اورمثال چارستمبر کو کراچی کے علاقے گلشن حدید کے ایک نجی اسکول میں پیش آنے والے شرمناک واقعے کو ہی لے لیں۔ ایک سی سی ٹی وی الیکٹریکشن کی جانب سے پولیس کو لیک کی جاتی ہے اور اس فوٹیج میں اس معاشرے کا درس و تدریس سے وابستہ ایک بھیانک کردار سامنے آتا ہے جس نے تعلیم جیسے مقدس پیشے کو بھی داغدار کرکے رکھا دیا،عرفان میمن نامی اسکول پرنسپل جو ایک ان رجسٹرڈ پرائیوٹ اسکول کا مالک ہے، وہ کئی ماہ تک خواتین کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتا رہا اور وڈیو بھی بناتا رہا؟ کسی خاتون نے چار ماہ تک اس کے خلاف اپنی زبان کھولنا گوارا نہ کیا؟ راز تب کھلا جب سیکیورٹی کیمرہ انسٹال کرنے والے شخص نے اپنے موبائل میں موجود پچاس سے زائد ویڈیوز پولیس کے حوالے کردیں کہ وہ اس معاملے کو روکیں؟ سوال یہ ہے کہ ان ویڈیوز کو سیکورٹی کیمرا والے شخص نے پہلے کیوں نہیں دیا؟ کیا وہ ان ویڈیوزسے پہلے اس ٹیچرز کو بھی بلیک میل کرکے پیسے وصول کرتا رہا؟ اور آپ ان خواتین کی مجبوری کا اندازہ کریں جو چند ہزار کی نوکری کے لیے اس مکروہ فعل کرنیو الے شخص کو بے نقاب نہ کرسکیں؟ اور پتہ نہیں کتنے اور ایسے دفاتر اور اسکولوں میں اس طرح کے مکروہ دھندے میں جکڑے جنسی بھیڑیوں کے سامنے ان گنت کیسزہمارے بے حس معاشرے میں سسکیاں لے رہے ہوں گے جو آج تک رپورٹ نہیں ہُوسکے؟ ہمارے زوال کی سب سے بڑی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اوپر سے لے کر نیچے تک ہرشخص اپنے حصے کی بے ایمانی پوری ایمانداری سے کر رہا ہے ۔ کیا ہم اپنے ساتھ ہونی والی ان زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے بھی کسی لیڈر کے منتظر ہیں؟ جو آکر ان سے ہمیں نجات دلائے گا یا پھر ہمیں اس بات کا انتظارہے کہ یہ معاشرہ خود بخود صحیح ہوکرصراط مستقیم پرچل پڑے گا؟ ہم چاہ کربھی اپنے دائرہ سے بابرنکلنا چاہیں تو نہیں نکل سکتے کیونکہ ہم خود پرہونے والے ہرظلم اورزیادتی کو اس وجہ سے قبول کررہے ہیں کہ شاید ہمارا بوائلنگ پوائنٹ بھی اس مینڈک کی طرح ڈیڈ لیول پرآچکا ہے۔