... loading ...
حمیداللہ بھٹی
بھارتی رہنما عرصہ سے ایک عالمی طاقت کی قیادت کہلوانے کو بے چین ہیں۔ مگرکوشش کے باوجود اُن کی آرزو پوری نہیں ہو رہی تھی۔ اُن کی خوش قسمتی اور جنوبی ایشیا کی بدقسمتی یہ ہے کہ امریکہ نے بھارت کو خطے میں چہیتا اتحادی بنالیاہے جس سے کسی حدتک بھارتی قیادت کی آرزو پوری ہونے کا امکان ہے۔ حالانکہ تنازعات بڑھانے سے سُپر طاقت کا درجہ نہیں ملتا بلکہ طاقت کا بے جااظہار کمزور بناتا ہے۔ روس مداخلت کرنے اور مملکتوں کو مطیع و فرمانبردار بنانے کی پالیسی سے ٹوٹ گیااور وسطی ایشیائی ریاستیںآزادی ہوئیں ۔اسی طرح امریکہ نے ماردھاڑ سے دنیاکے معدنی وسائل لوٹے۔ آج اُس کی معیشت بھی زوال پزیر ہے جس طرح بھاری بھرکم اور جدید ہتھیاروں سے لیس روسی فوج ملک کو متحد رکھنے میں کامیاب نہ ہوسکی ۔اُسی طرح جدید اور مہلک ترین ہتھیاروں کے باوجود امریکی ا فواج ملکی معیشت کو چین کے مقابلے میں ہوتی شکست کوبے بسی سے دیکھنے پر مجبور ہیں۔ تاریخ کا سبق ہے کہ کوئی سیکھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ طاقت ملتے ہی دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کرتا ہے ۔بھارت بھی آج کل اسی ڈگر پر گامزن ہے۔
امریکی تائیدو حمایت حاصل ہونے اور آسیان کے بعد جی 20 جیسی تنظیموں کے سہارے بھارتی کوشش ہے کہ عالمی طاقت تسلیم کرتے ہوئے اُسے حیثیت کے مطابق کردار دیا جائے ۔بھارت رقبے کے حوالے سے جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا ملک اور آبادی ڈیڑھ ارب کے قریب ہے۔ اُس کی معیشت دنیا میں پانچویں نمبرپر ہے۔ جی ڈی پی کا حجم 3500 ارب ڈالر جبکہ زرِ مبادلہ کے ذخائرسات سوارب ڈالر ہیں۔علاوہ ازیں خطے کی بڑی بری ،بحری اور فضائی طاقت ہے، اُس کے پاس دنیا بھر سے خریدے ہتھیار وں کا بڑا ذخیرہ ہے لیکن ایک اور تلخ سچ یہ ہے کہ تمام ہمسایہ ممالک ناخوش ہیں۔ بنگلہ دیش سے پانی کا مسلہ حل طلب ہے۔ نیپال اور بھوٹان جیسے چھوٹے ممالک سے بھی سرحدی اور آبی مسائل ہیں۔ سری لنکا باربار مداخلت سے خفا ہے۔ چین سے تو وقتاً فوقتاً جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ پاکستان سے تعلقات میں سخت کشیدگی ہے۔ مزیدیہ کہ بھارت میں دودرجن سے زائد علیحدگی کی تحریکیں سرگرم ہیں۔ اِس کے باوجود عالمی طاقت کہلوانے کے لیے بھارتی بے چینی ایسے ہی ہے، جیسے کالے اور بھدے نقوش پر میک اَپ تھوپ کر خوبصورت تسلیم کرنے کا مطالبہ کرنا ،بھارت کو آگے بڑھنا ہے تو اہداف کے تعین میں اعتدال اور حقیقت پسندی سے کام لیناہوگا۔
دوروزہ جی20 سربراہی اجلاس 9اور10ستمبر کو نئی دہلی میں ہورہا ہے جس کے لیے فول پروف انتظامات کرنے کے علاوہ مہمانوں سے غربت و افلاس چھپانے کے لیے نئی دہلی میں موجود کچی آبادیاں خالی کرالی گئی ہیں شاہراہوں کی لیپا پوتی سے شہر کی ناگفتہ بہ حالت کووقتی طورپر ڈھانپ دیا گیا ہے جس طرح صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ سے قبل ائیرپورٹ کے راستوں میں آنے والی کچی آبادیوں کے آگے دیواریں بنا کر چھپا دیا گیاتھا مگر سربراہی اجلاس سے قبل منی پورمیں جاری ہندو عیسائی فسادات میں ہونے والی اموات ،کشمیر اور مشرقی پنجاب میں جاری ظلم و ستم،جنوب مشرقی سات ریاستوں کی بے چینی کو دنیا سے چھپانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ امریکہ چین اقتصادی مخاصمت سے بھارتی اہمیت میں اضافہ ہوا مگر جب تک بھارت خطے پر رُعب جماکر طاقتورکہلوانے اور تنازعات سے بڑھانے کی روش ترک نہیں کرتا، اسے لاحق خطرات میں کمی نہیں آسکتی تنازعات سے دامن بچانے اور چین کی طرح تجارتی پالیسی اپنانے سے ہی علاقائی ممالک کا اعتمادحاصل ہو سکتاہے۔
روس اور چین کی طرف سے واضح اعلانات سامنے آچکے ہیں کہ اُن کے صدور ولادیمیرپوٹن اور شی جن پنگ نئی دہلی میں ہونے والے جی 20سربراہی اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے روس کی نمائندگی وزیرِ خارجہ سرگئی لاروف جبکہ چین کی وزیرِ اعظم لی کیانگ کریں گے ۔دو بڑے ممالک کے سربراہوں کی عدم شرکت سے جی20سربراہی اجلاس کی اہمیت کم ہوئی ہے۔ بظاہر پوٹن نے روس و یوکرین جنگ سے بننے والے ماحول کی وجہ سے نئی دہلی آنے سے اجتناب کیا ہے۔ حالانکہ روسی تیل اور ہتھیاروں کا دنیا میں سب سے بڑا خریدار بھارت ہے مگر چین سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اُسے غیر اہم بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ اسی لیے صدر شی نے آنے سے گریز کیاہے۔ کچھ حلقے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ روسی صدر نے بھی دراصل چینی خوشنودی کے لیے اپنادورہ منسوخ کیا کیونکہ چین کی حمایت اور تجارت اُس کی معیشت کے لیے بھارت سے زیادہ اہم ہے ۔بات یہاں تک ہی محدود نہیں بلکہ بھارت کو پے درپے دھچکے لگ رہے ہیں ۔سربراہی اجلاس سے قبل برطانوی وزیرِ اعظم رشی سونک نے مودی حکومت سے مکمل طورپر مایوسی کااظہارکرتے ہوئے کسی فوری تجارتی معاہدے کو خارج ازامکان قرار دیا ہے۔ کینیڈا کی طرف سے سربراہی اجلاس سے قبل تجارتی معاہدے کے لیے جاری بات چیت روکنے کا علان ہوچکا۔ اِس کا مطلب ہے کہ جنونی بھارتی قیادت خطے سمیت ایک عالمی طاقت ہونے کی دعویدار ضرورہے، مگر عالمی ماحول اِس کے لیے سازگارنہیں ۔
ظاہرہے امریکہ کی طرح بھارت ساری دنیا کے لیے اہم ترین نہیں ۔ گوبھارت ہرجگہ ٹانگ اڑانے کی کوشش میں ہے اور آجکل یونان پرکافی مہربان ہے۔ مگر بھارت و ترکیہ دوطرفہ تجارت کا دس بلین ڈالرسے تجاوز کرنا ثابت کرتا ہے کہ یہ دونوں بھی ایک دوسرے کے لیے ناگزیر ہیں۔ شاید اسی لیے پاکستان سے دوستی کے دعویدار طیب اردوان اِس کے باوجود سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے خاص طورپر نئی دہلی آرہے ہیں ،جب ایک ہفتہ قبل مودی یونان کے دورے کے دوران جامع دفاعی شراکت داری کا اعلان کرچکے ہیں بحیرہ روم میں موجود تیل و گیس کے ذخائر ترکیہ کی دسترس سے دوررکھنے کی کوششوں پر یونان ،یونانی قبرص اور اسرائیل میں کامل اتفاق تھا ۔ایسی کوششوں میںبھارتی شمولیت ترکیہ سے تجارت پراثر اندازہوسکتی ہے۔ بحیرہ روم جیسے اہم ترین حصے کی چھیالیس ہزار طویل پٹی پر 22 ممالک ہیں۔ ترکیہ کو محدود کرنے کی کوششوں کا حصہ بن کر بھارت یہاں بحری افواج رکھنے کا فیصلہ کرتا ہے، مودی کے دورے سے قبل یونان کے ساتھ مشترکہ فضائی اور بحری مشقیں بحیرہ روم میں دلچسپی کی آئینہ دارہی توہیں تونہ صرف بھارت ترکیہ تعلقات پرمنفی اثرہوگا بلکہ اِس ساحلی پٹی پر آباداکثر ممالک چین کی طرف جانے کا امکان بڑھ جائے گا ۔
بھارتی کوشش ہے کہ معاشی مفادات کا تحفظ فوجی طاقت سے یقینی بنایا جائے، وہ بحیرہ ہندسے لیکر بحیرہ روم تک ایک ایساحصارقائم کرنا چاہتا ہے جس کی بدولت ہر قسم کی مداخلت سے بے نیاز ہوجائے یہی وجہ یونان اور اسرائیل سے قریب آنے کی ہے کیونکہ ایک سرے پر یونان تو دوسرے پر اسرائیل جیسا طاقتور ملک موجود ہے۔ خراب معیشت کے باوجود یونانی فضائیہ دنیا میں سولہویں جبکہ یورپی یونین میں شامل ممالک میں تیسرے نمبر پر ہے جبکہ مضبوط بحیری بیڑااُس کی دفاعی اہمیت کو مزیداہم کرتا ہے لیکن یورپ جانے والی سمندری گزرگاہوں پر اجارہ داری قائم کرنے کی بھارتی کوششوں کو کیا چین نظر انداز کردے گا ؟ ایسا کسی صورت ممکن نہیں کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں چین کا (بی آرآئی )بیلٹ اینڈ روڈ اِنی شیٹومتاثر ہو سکتا ہے۔ بندرگاہیں حاصل کرنے کی بھارتی کوششوں پر بھی چین کی نظر ہے، اسی لیے صدر شی نے بھارت کی میزبانی میں ہونے والے جی20 جیسے اہم اجلاس میں شرکت نہیں کی تاکہ بھارت کو غیر اہم ہونے کا پیغام جائے ۔ رواں ماہ گیارہ ستمبرکو سعودی ولی عہد محمد بن سلیمان بھی بھارت آرہے ہیں ۔یہ گزشتہ چار برس میں اُن کا دوسرا دورہ ہے۔ ممکن ہے 2000ء میں بل کلنٹن کی طرح چند گھنٹوں کے لیے وہ پاکستانیوں کو بھی اپنی صورت دکھادیں لیکن اُن کی نظر بھارت پرہے ۔دراصل ولی عہد اپنے ویژن2030 کے مطابق سعودی معیشت کا نحصار تیل کی پیداوارپرکم کرناچاہتے ہیں کیونکہ سعودیہ کے پاس تیل کے ذخائر محض 266ارب بیرل رہ گئے ہیں اور موجودہ رفتار سے پیداوارکی صورت میں یہ ذخائر ستربرس میںختم ہو جائیں گے۔ بھارت ہر ملک کو متاثر کرنے اور اپنی معیشت میں سرمایہ کاری پر راغب کرنے کی کوشش میں ہے۔ اُس کی نظریں سعودیہ کے ایک کھرب ڈالر سے زائد سرمایہ کاری فنڈز پر ہے مگر سعودیہ اور ایران معاہدہ کرانے کی چال چل کر چین نے جو پہل کی ہے سرمایہ کاری حاصل کرنے کے باوجود اُس کے اثرات کم نہیں کیے جا سکتے اِس تناظر میںطاقت کے توازن پرجی 20سربراہی اجلاس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا ۔
٭٭٭