وجود

... loading ...

وجود

بُرے احتجاج کا بُرا نتیجہ۔۔۔!

جمعرات 07 ستمبر 2023 بُرے احتجاج کا بُرا نتیجہ۔۔۔!

راؤ محمد شاہد اقبال

مارٹن لوتھر نے ایک بار کہا تھا کہ ” ہروقت ہتھوڑی ہاتھ میں ہوتو ہر مسئلہ کیل نظر آتاہے”۔سچ پوچھئے تو یہ جملہ پاکستانی قوم پر پوری طرح سے صادق آتاہے ۔ کیونکہ پاکستانی عوام ہو ں یاپھر خواص ،اُن کے ہاتھ میں ہر وقت احتجاج کی ہتھوڑی نہیں بلکہ ایک بھاری بھرکم ہتھوڑا رہتاہے اور وہ ملک میں رونما ہونے والی ہر خرابی کو احتجاج کا ہتھوڑا مار کر ہی ٹھونکنا یعنی اپنی دانست میں ٹھیک کرنا چاہتے ہیں ۔ مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ آج تک احتجاج کا ہتھوڑامارکر ہم کسی بھی خرابی یا نقص کو کبھی درست نہیں کرسکیں ہیں ۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ احتجاج کا ہتھوڑا ہر خرابی کو مزید خراب کرنے کا سبب بن جاتا ہے تو ایسا کہنا عین قرین قیاس ہوگا۔ آج ہمارا ملک جس نوعیت کے بھی سنگین سیاسی ، مذہبی ،تہذیبی ، ثقافتی اور معاشی بحرانrوں کی زد میںگھرا ہوا ہے تو اِس کا بنیادی سبب احتجاجی ہتھوڑے کا بلاوجہ ،بے دریغ اور مسلسل استعمال ہی تو ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ساری دنیا ایمان کی آخری حد تک مانتی ہے کہ کسی بھی ملک، خطہ یا علاقہ کے سیاسی و معاشی مسائل کو اُس وقت تک حل ہی نہیں کیا جاسکتا، جب تک وہاں کامل استحکام نہ پایاجاتا ہو ۔جبکہ من حیث القوم ہم اِس خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ صرف احتجاج کے بطن سے ہی استحکام جنم لیتاہے اور یوں ہم ہر احتجاج کا آغاز ہی یہ سوچ کر کرتے ہیں کہ اگر ہمارا یہ احتجاج ایک بار کامیابی سے ہمکنار ہوگیا تو وطنِ عزیز پاکستان میں ہر سمت اور ہر شعبے میں استحکام آجائے گا۔ لیکن ہر بار ہر قسم کے معمولی یا غیر معمولی احتجاج کی کامیابی سے ہمارا ملک مزید عدم استحکام کی گہری گھائی میں جاگرتاہے۔ یعنی سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ ہم گزشتہ 76 سال سے تخریب کی دلدل میں تعمیر کے قیمتی موتی تلاش کررہے ہیں اور تشدد کی بنجر زمین پر محبت ویگانگت کی فصل کاشت کرنے میں جُتے ہوئے ہیں ۔ کبھی کبھار تو ایسا لگتا ہے ہمارے ہاںسیاسی ،مذہبی، کاروباری اور فلاحی جماعتیں بنائی ہی فقط اِس نیت سے جاتی ہیں کہ اِن کے ذریعے عام سادہ لوح لوگوں میں احتجاج کے تخریبی جذبہ کوپرورش کیا جاسکے ۔ کیا ساری دنیا میں سیاسی جماعتوں ، کاروباری تنظیموں اور مذہبی اداروں کی یہ ہی کوشش ،خواہش اور بنیادی وظیفہ ہوتا ہے کہ اُن کے روز بروز کے احتجاج سے حکومت عضو ِ معطل بنی رہے اور اَمن وامان کی صورت حال اَبتر رہنے کی وجہ سے اُن کا ملک مسلسل عدم استحکام کا شکار رہے ؟
ملک بھر کی تاجرتنظیموں کی جانب سے بجلی کے بلوں میں اضافے کے خلاف اگر صرف ایک دن کے لیے ملک گیر ہڑتال کرنے کا اسٹیج ڈرامہ اِس لیے رچایاگیا تھا کہ نگران حکومت پر دباؤ ڈال کر بجلی کے بھاری بھرکم نرخ کم کروائے جائیں گے تو نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ماضی میں مہنگائی کے خلاف کیے جانے والے تاجر برادری کے ہر ناکام و نامراد احتجاج کی طرح مذکورہ احتجاجی تحریک بھی بس رائیگاں ہی گئی ۔ کیونکہ نگراں حکومت نے اُن کی ایک روزہ ہڑتال سے متاثر ہوکر بجلی کی قیمت کو کم کرنے کے بجائے اُلٹا مزید بڑھانے کا عندیہ دے دیا ہے۔ نیز تاجر برادری نے فیس بُک، ٹوئٹر اور انسٹاگرام کی پوسٹوں پر لگانے کے لیے بجلی کے جو بل نذرِ آتش کیے تھے ، اُن کے بقایا جات بھی معاف کرنے سے یکسر انکار کرتے ہوئے نگران حکومت کے ترجمان نے حکم صادر فرمایا ہے کہ ” بجلی کے تمام واجب الادا بجلی کے بل بشمول لیٹ پیمنٹ چارجز کے وصول کیے جائیں گے”۔ہاں!نگراں حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ اِس حوالے سے سلسلہ جنبانی ضرور جاری ہے کہ کسی طرح بجلی صارفین کے لیے اتنی رعایت بہرکیف ضرور حاصل کرلی جائے کہ وہ اپنے بجلی کے بھاری بھرکم بل یکمشت ادائیگی کے بجائے تین ، چار اقساط میں جمع کروا سکیں ۔لیکن اگر آئی ایم ایف نے انکار کردیا تو پھر یہ رعایت بھی کسی کو نہیں دی جائے گی۔
دراصل احتجاج ہے ہی ایسی منحوس اور ناقابل اعتبار شئے کہ جس کا نقصان صرف اِسے کرنے والوں کو پہنچتا ہے اور فائدہ وہ اُٹھالیتے ہیں ،جن کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے ۔مثال کے طور پر تازہ ترین مثال ہی لے لیں کہ سوشل میڈیا پر واپڈا ملازمین کو ملنے والے مفت بجلی یونٹس کی سہولت کے خلاف احتجاجی مہم چلانے کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ نگراں حکومت کی جانب سے واپڈا کے ملازمین کیلئے خصوصی واپڈا الاؤنس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔جس کے بعد اَب واپڈا کے گریڈ ون کے ملازم کو 8ہزار گریڈ دو کو 8500 گریڈ 16 کو25000گریڈ17 کو 32000 گریڈ18 کو 40000گریڈ19 کو 53000 اور گریڈ20 کو60000روپے ماہانہ مفت بجلی یونٹس کی مد میں سکہ رائج الوقت نقد میں ملیں گے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ واپڈا کے 18 ہزار ملازمین کو یہ مفت بجلی الاؤنس یکم جولائی 2023 سے دیا جائے گا۔ نیز ملک بھر میں بجلی کی ترسیل کی ذمہ دار دس ڈسکوزکے علاوہ نیشنل ٹرانسمیشن ڈسپیچ کمپنی ، پاور انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنی اورجینکوز کے ایک لاکھ 69ہزار ملازمین کو بھی مذکورہ فارمولا کے مطابق مفت بجلی یونٹس کے متبادل کے طور پر یہ خاص الاؤنس مہیا کیا جائے گا۔ یعنی پہلے جنہیں مفت بجلی کے یونٹس ملتے تھے ،اَب اُنہیں نقد رقم ملا کرے گی۔ قوی امکان ہے کہ واپڈا ملازمین اپنے خلاف احتجاجی مہم چلانے والوں کو جھولیاں جھولیاں اُٹھا اُٹھا کر دعائیں دے رہے ہوں گے کہ جن کی وجہ سے اُن کو ملنے والے مفت بجلی کے یونٹس پیسوں میں تبدیل ہوگئے ہیں ۔
یاد رہے کہ چند ہفتے قبل سوشل میڈیا پر یہ احتجاجی مہم بھی چلائی گئی تھی کہ بجلی کی ریڈنگ لینے والا میٹر ریڈر اگر مقررہ تاریخ کے بعد ریڈنگ لینے آتا ہے تو اُس کے ساتھ علاقہ مکین انتہائی سختی کے ساتھ نپٹیںگے۔ مذکورہ تخریبی مہم سے ہلہ شیری پا کر چند عاقبت نااندیش صارفین نے میٹر ریڈنگ لینے کے لیے آنے والے میٹر ریڈر تشدد کا نشانہ بنا کر اپنا احتجاج سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ویڈیوز کی صورت میں پوسٹ کردیا۔ سوشل میڈیا پروائرل ہونے والے اِس پرتشدد احتجاج کا حتمی نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ میٹرریڈر ز کو تشدد کا نشانہ بنانے والے تمام صارفین کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے اُنہیں طویل عرصہ کے لیے حوالہ زنداں کردیا گیا ہے ۔ جبکہ حفاظتی نقطہ نگاہ کے پیش نظر ہر میٹر ریڈر کے ساتھ پولیس اہلکار کو تعینات کرنے کی تجویز پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جارہا ہے۔ یعنی اَب میٹر ریڈرز پولیس کے حفاظتی دستے کے جلو میں پورے پروٹوکول کے ساتھ بجلی کی ریڈنگ لینے کے لیے علاقوں کا وزٹ کرنے آیا کریں گے۔ ذرا ایک لمحہ کے لیے تسلی کے ساتھ سوچئے کہ اِس احتجاج نے واپڈا ملازمین کو زیادہ فائدہ پہنچایا یا پھر بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو؟کاش ! احتجاج کرنے والے کبھی یہ بھی سوچنے کی زحمت گوارا کریں کہ اُن کے کامیاب احتجاج آخر کیوں ہر مرتبہ ملک و قوم کے لیے بُرے نتیجے کا ہی سبب بنتے ہیں ؟
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر