وجود

... loading ...

وجود

ماضی کی حکومتوں کے مہنگی بجلی معاہدے

منگل 05 ستمبر 2023 ماضی کی حکومتوں کے مہنگی بجلی معاہدے

ریاض احمدچودھری

پرائیویٹ پاور اینڈ انفرا اسٹرکچر بورڈ (پی پی آئی بی) کے مطابق آئی پی پیز کہلائے جانے والے یہ نجی پاور پلانٹس ملک کی کل بجلی کی پیدوار کا 50 فیصد سے بھی زائد حصہ پیدا کرتے ہیں۔ بجلی مہنگی ہونے میں ان کا کوئی براہ راست کوئی کردار تو نہیں مگر چند بنیادی عناصر ایسے ہیں جن کے باعث ان پلانٹس کی پیدا کردہ بجلی مہنگی پڑتی ہے۔اگرپی پی پی، ن لیگ اور پی ٹی آئی ہنگامی بنیادوں پر پانی کوئلے ونڈ اور سولر بجلی کی پیداوار کے منصوبوں کو آگے بڑھاتے تو عوام کو آئی پی پیز کے ظالمانہ معاہدوں سے نجات مل چکی ہوتی اور عوام بجلی کے بلوں کے لیے ذلیل وخوار نہ ہوتے۔ افسوس کوئی لیڈر عوام کو آئی پی پیز کے ظالمانہ معاہدوں کے شکنجے سے آزاد نہ کرا سکا۔ عوام کی حقیقی آزادی معاشی آزادی ہوتی ہے۔ پاکستان کے عوام طویل عرصے سے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے معاشی غلام ہیں۔عوام کا جائز مطالبہ ہے کہ بجلی کا ایک ہی ریٹ ہونا چاہیے اور سلیب سسٹم ختم کیا جائے اور بجلی کے بلوں پر عائد مختلف نوعیت بلا جواز ٹیکس ختم کیے جائیں۔
1990ء کی دہائی میں حکومت پاکستان نے آئی پی پیز کے ساتھ بجلی پیدا کرنے کے معاہدات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک آئی پی پیز کے ساتھ بیسیوں معاہدے کیے گئے۔ حکومت کا یہ فیصلہ وقت کی ضرورت تھا کیونکہ ملکی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی تھی اور بڑھتی ہوئی بجلی کی مانگ پوری کرنے کے لیے آئی پی پیز کے ذریعے بجلی بنوانا دانشمندانہ اقدام تھا۔تاہم ان معاہدات میں پلانٹس کی پیداواری صلاحیت کی قیمت بھی شامل تھی۔ اس ادائیگی کو پلانٹ کا کرایہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ یعنی اگر ایک پلانٹ 100 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور حکومت نے اس سے ایک ماہ کے دوران صرف 20 میگا واٹ بجلی پیدا کروائی تو اسے ماہانہ ادائیگی 100 میگا واٹ کی صلاحیت کے حساب سے ہی کی جائیگی۔ البتہ ماہانہ ادا کی جانے والی اس ادائیگی میں 20 میگا واٹ بجلی کی قیمت بھی شامل ہوگی جو حکومت نے اس سے ایک ماہ کے دوران پیدا کرائی۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ صلاحیت کی مد میں آئی پی پیز کو کی جانے والی ماہانہ ادائیگیاں بجلی مہنگی کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
حکومت آئی پی پیز کو کرایہ یا ان کی پیداواری صلاحیت کی قیمت ادا کرنے کے علاوہ ان سے بنوائی جانے والی بجلی کی قیمت بھی ادا کرتی ہے۔ یہ ساری ادائیگیاں ماہانہ بنیادوں پر کی جاتی ہیں۔ اب یہ پلانٹس بجلی پیدا کرنے کے مہنگے طریقے استعمال کرتے ہیں۔ پی پی آئی بی کے مطابق یہ پلانٹس کل 27 ہزار 7سو 71 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس میں سے تھرمل طریقے سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 21 ہزار ایک سو 21 میگا واٹ ہے اور یہ بجلی پیدا کرنے کے مہنگے ترین طریقوں میں سے ایک ہے۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ آئی پی پیز اپنی پیداواری صلاحیت کی قیمت اور مہنگی بجلی پیدا کرنے کی وجہ سے پاکستان میں بجلی مہنگی ہونے کا باعث بنتی ہے۔جناب سراج الحق امیرجماعت اسلامی نے بجلی بلوں میں اضافہ واپس نہ لینے کے حکومتی فیصلہ کیخلاف گورنرہاؤسز کے باہر دھرنوں کا اعلان کیا ہے جبکہ بجلی بلوں، پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ اور ہوش ربا مہنگائی کے خلاف احتجاجی تحریک کے اگلے مرحلے میں ملک گیر پہیہ جام ہوگا۔
سراج الحق صاحب نے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی طرف سے آئی پی پیز سے معاہدوں کو قومی مفادات کے خلاف قرار دیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان مہنگے معاہدوں پر فوری نظرثانی کی جائے۔ آئی پی پیز معاہدے عوام کو پن بجلی، شمسی توانائی اور دیگر سستے ذرائع سے محروم رکھنے کی سازش تھے جن کا سو فیصد فائدہ حکمران اشرافیہ اور سو فیصد نقصان عوام کو ہوا۔حالیہ ہڑتال سے حکومت کو معاہدوں پرنظرثانی کا جواز بھی مل گیا ہے، تمام کمپنیوں سے کہا جاسکتا ہے کہ عوام ان معاہدوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت جماعت اسلامی آئی پی پیز معاہدوں کی تفصیلات حاصل کرکے انہیں سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی اور توانائی سیکٹر پر وائٹ پیپر جاری کیا جائے گا۔امیر جماعت اسلامی نے ملک گیر کامیاب ہڑتال پر تاجرتنظیموں، علما، وکلا، مزدور یونینز، ٹرانسپورٹرز، دیگر طبقہ ہائے فکر اور پوری قوم کا شکریہ ادا کیا اور نگران حکومت سے مطالبہ کیا کہ عوام کی آواز سنے اور سابقہ حکومتوں کے فیصلوں کو آگے نہ بڑھائے۔ نگران وزیراعظم آئی ایم ایف کی بجائے عوام کے مفادات کے ترجمان بنیں اور الیکشن کروا کے اقتدار منتخب نمائندوں کے سپرد کرے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ نگران وزیراعظم کا مہنگائی سے متعلق بیان عوام کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔نگران حکومت الیکشن کے علاوہ ہرمسئلہ پر بات کرتی ہے۔
مہنگی بجلی کی بجائے ایک ہزار ارب سالانہ کی بجلی چوری، لائن لاسز اور دوسوارب کی سرکاری بیوروکریسی اور حکمران طبقہ کو مفت بجلی کی فراہمی کی سہولت ختم کی جائے بجلی کمپنی کو بل کی عدم ادائیگی کی صورت میں میٹر اتار کر لے جانے کا قانونی حق نہیں۔ عوام نے بجلی اور گیس کے میٹرز کی قیمت ادا کرکے خریدے ہیں، یہ عوام کی پراپرٹی ہیں، ان پر ماہانہ کرایہ بھی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ اگر کوئی حکومتی کارندہ کسی شخص کا میٹر اتارے توصارف جماعت اسلامی کو اطلاع کرے، ہم اس کے میٹر کی حفاظت یقینی بنائیں گے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر