... loading ...
ریاض احمدچودھری
پرائیویٹ پاور اینڈ انفرا اسٹرکچر بورڈ (پی پی آئی بی) کے مطابق آئی پی پیز کہلائے جانے والے یہ نجی پاور پلانٹس ملک کی کل بجلی کی پیدوار کا 50 فیصد سے بھی زائد حصہ پیدا کرتے ہیں۔ بجلی مہنگی ہونے میں ان کا کوئی براہ راست کوئی کردار تو نہیں مگر چند بنیادی عناصر ایسے ہیں جن کے باعث ان پلانٹس کی پیدا کردہ بجلی مہنگی پڑتی ہے۔اگرپی پی پی، ن لیگ اور پی ٹی آئی ہنگامی بنیادوں پر پانی کوئلے ونڈ اور سولر بجلی کی پیداوار کے منصوبوں کو آگے بڑھاتے تو عوام کو آئی پی پیز کے ظالمانہ معاہدوں سے نجات مل چکی ہوتی اور عوام بجلی کے بلوں کے لیے ذلیل وخوار نہ ہوتے۔ افسوس کوئی لیڈر عوام کو آئی پی پیز کے ظالمانہ معاہدوں کے شکنجے سے آزاد نہ کرا سکا۔ عوام کی حقیقی آزادی معاشی آزادی ہوتی ہے۔ پاکستان کے عوام طویل عرصے سے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے معاشی غلام ہیں۔عوام کا جائز مطالبہ ہے کہ بجلی کا ایک ہی ریٹ ہونا چاہیے اور سلیب سسٹم ختم کیا جائے اور بجلی کے بلوں پر عائد مختلف نوعیت بلا جواز ٹیکس ختم کیے جائیں۔
1990ء کی دہائی میں حکومت پاکستان نے آئی پی پیز کے ساتھ بجلی پیدا کرنے کے معاہدات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک آئی پی پیز کے ساتھ بیسیوں معاہدے کیے گئے۔ حکومت کا یہ فیصلہ وقت کی ضرورت تھا کیونکہ ملکی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی تھی اور بڑھتی ہوئی بجلی کی مانگ پوری کرنے کے لیے آئی پی پیز کے ذریعے بجلی بنوانا دانشمندانہ اقدام تھا۔تاہم ان معاہدات میں پلانٹس کی پیداواری صلاحیت کی قیمت بھی شامل تھی۔ اس ادائیگی کو پلانٹ کا کرایہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ یعنی اگر ایک پلانٹ 100 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور حکومت نے اس سے ایک ماہ کے دوران صرف 20 میگا واٹ بجلی پیدا کروائی تو اسے ماہانہ ادائیگی 100 میگا واٹ کی صلاحیت کے حساب سے ہی کی جائیگی۔ البتہ ماہانہ ادا کی جانے والی اس ادائیگی میں 20 میگا واٹ بجلی کی قیمت بھی شامل ہوگی جو حکومت نے اس سے ایک ماہ کے دوران پیدا کرائی۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ صلاحیت کی مد میں آئی پی پیز کو کی جانے والی ماہانہ ادائیگیاں بجلی مہنگی کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
حکومت آئی پی پیز کو کرایہ یا ان کی پیداواری صلاحیت کی قیمت ادا کرنے کے علاوہ ان سے بنوائی جانے والی بجلی کی قیمت بھی ادا کرتی ہے۔ یہ ساری ادائیگیاں ماہانہ بنیادوں پر کی جاتی ہیں۔ اب یہ پلانٹس بجلی پیدا کرنے کے مہنگے طریقے استعمال کرتے ہیں۔ پی پی آئی بی کے مطابق یہ پلانٹس کل 27 ہزار 7سو 71 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس میں سے تھرمل طریقے سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 21 ہزار ایک سو 21 میگا واٹ ہے اور یہ بجلی پیدا کرنے کے مہنگے ترین طریقوں میں سے ایک ہے۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ آئی پی پیز اپنی پیداواری صلاحیت کی قیمت اور مہنگی بجلی پیدا کرنے کی وجہ سے پاکستان میں بجلی مہنگی ہونے کا باعث بنتی ہے۔جناب سراج الحق امیرجماعت اسلامی نے بجلی بلوں میں اضافہ واپس نہ لینے کے حکومتی فیصلہ کیخلاف گورنرہاؤسز کے باہر دھرنوں کا اعلان کیا ہے جبکہ بجلی بلوں، پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ اور ہوش ربا مہنگائی کے خلاف احتجاجی تحریک کے اگلے مرحلے میں ملک گیر پہیہ جام ہوگا۔
سراج الحق صاحب نے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی طرف سے آئی پی پیز سے معاہدوں کو قومی مفادات کے خلاف قرار دیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان مہنگے معاہدوں پر فوری نظرثانی کی جائے۔ آئی پی پیز معاہدے عوام کو پن بجلی، شمسی توانائی اور دیگر سستے ذرائع سے محروم رکھنے کی سازش تھے جن کا سو فیصد فائدہ حکمران اشرافیہ اور سو فیصد نقصان عوام کو ہوا۔حالیہ ہڑتال سے حکومت کو معاہدوں پرنظرثانی کا جواز بھی مل گیا ہے، تمام کمپنیوں سے کہا جاسکتا ہے کہ عوام ان معاہدوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت جماعت اسلامی آئی پی پیز معاہدوں کی تفصیلات حاصل کرکے انہیں سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی اور توانائی سیکٹر پر وائٹ پیپر جاری کیا جائے گا۔امیر جماعت اسلامی نے ملک گیر کامیاب ہڑتال پر تاجرتنظیموں، علما، وکلا، مزدور یونینز، ٹرانسپورٹرز، دیگر طبقہ ہائے فکر اور پوری قوم کا شکریہ ادا کیا اور نگران حکومت سے مطالبہ کیا کہ عوام کی آواز سنے اور سابقہ حکومتوں کے فیصلوں کو آگے نہ بڑھائے۔ نگران وزیراعظم آئی ایم ایف کی بجائے عوام کے مفادات کے ترجمان بنیں اور الیکشن کروا کے اقتدار منتخب نمائندوں کے سپرد کرے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ نگران وزیراعظم کا مہنگائی سے متعلق بیان عوام کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔نگران حکومت الیکشن کے علاوہ ہرمسئلہ پر بات کرتی ہے۔
مہنگی بجلی کی بجائے ایک ہزار ارب سالانہ کی بجلی چوری، لائن لاسز اور دوسوارب کی سرکاری بیوروکریسی اور حکمران طبقہ کو مفت بجلی کی فراہمی کی سہولت ختم کی جائے بجلی کمپنی کو بل کی عدم ادائیگی کی صورت میں میٹر اتار کر لے جانے کا قانونی حق نہیں۔ عوام نے بجلی اور گیس کے میٹرز کی قیمت ادا کرکے خریدے ہیں، یہ عوام کی پراپرٹی ہیں، ان پر ماہانہ کرایہ بھی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ اگر کوئی حکومتی کارندہ کسی شخص کا میٹر اتارے توصارف جماعت اسلامی کو اطلاع کرے، ہم اس کے میٹر کی حفاظت یقینی بنائیں گے۔