... loading ...
ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1963ء میں بھارتی فوج کی جانب سے کشمیر میںدرگاہ حضرت بل کی بے حرمتی نے کشمیری مسلمانوں میں شدید غم و غصہ پیدا کیا ہوا تھا۔ مقبوضہ وادی کی حیثیت سے متعلق بھارتی پارلیمان میں پیش ہونے والے قانون کی وجہ سے بھی کشمیری مسلمانوں میں شدید اضطراب کی سے کیفیت تھی اور وہ آزادی کے لیے تیار نظر آتے تھے یہ مقبوضہ وادی کی وہ صورت حال تھی جس سے پاکستان نے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔خیال تھا کہ اس آپریشن کی مقبوضہ کشمیر کے عوام کی طرف سے بھرپور حمایت کی جائے گی جس کے بعد مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی راہ ہموار ہو گی اور یہی خیال تھا کہ معاملات صرف کشمیر تک محدود رہیں گے۔ اس وقت بھی ایک بریفنگ میں وزارت خارجہ نے جنرل ایوب خان کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ”آپریشن جبرالٹر” محدود آپریشن ہو گا۔ بھارت کی جوابی کارروائی کشمیر تک محدود رہے گی۔
پاکستان نے 1965 ء کے آغاز میںمیجر جنرل اخترملک کے زیر کمان چھ سے آٹھ ہزار کمانڈوز اور مجاہدین کو مقبوضہ کشمیر میں داخل کیا گیا اور ان کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں میں بھارتی فوج کے ہیڈ کواٹر پر حملہ، مقبوضہ وادی کے اہم پلوں کو اڑانا، بھارتی فوج کے قافلوں پر گھات لگا کر حملے۔ بھارتی فوج کے اسلحہ کے ڈیپووں کو تباہ کرنا شامل تھا۔ ایوب خان نے انہیں ہدایت کی وہ مظفر آباد میں ‘صدائے کشمیر’ کے نام سے ایک ریڈیو سٹیشن قائم کریں جو اس آپریشن کو میڈیا کے محاذ پر سپورٹ کرے گا۔ اس میں شک نہیں کہ ابتداء میں جبرالٹر فورس نے مقبوضہ علاقے میں بڑے پیمانے پر پل’ مواصلاتی نظام اور ایئرپورٹس کو نقصان پہنچایا لیکن بھارت تیزی کے ساتھ کئی ڈویژن فوج مقبوضہ کشمیر لے آیا جس نے مختلف اطراف سے جبرالٹر فورس پر حملے شروع کردیئے جس کی و جہ سے جبرالٹر فورس کو سرحدوں تک پیچھے ہٹنا پڑا۔ جبرالٹر فورس میں شامل غزنوی فورس اوڑی میں بھارتی فوج کا بیس تباہ کرنے میں کامیاب رہی۔ بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول کے ساتھ پاکستانی فوج پر جوابی حملہ کیا لیکن پاک فوج نے یہ حملے پسپا کردیئے لیکن 6 ستمبر 1965ء کوبھارت نے بین الاقوامی سرحدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے رات کی تاریکی میں لاہور پر حملہ کردیا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بھرپور جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ میں پاکستان نے بھارت کی زبردست ٹھکائی کی۔
جنگ ستمبر میں ایک طرف پاک افواج کے جوان اپنے خون سے بہادری کی نئی تاریخ رقم کر رہے تھے اور دوسری طرف پاکستانی قوم کا بچہ بچہ جوش و جذبہ سے لبریز وطن کے دفاع میں کٹ مرنے کو تیار تھا، یہ وہ دن تھے، جب نہتے پاکستانی شہری بلا خوف و خطر سرحدوں پر چلے جاتے اور بارڈر پر ان کو پاک فوج بمشکل واپسی پر یہ کہہ کر راضی کرتی کہ ہم جو دشمن کو منہ توڑ جواب دیتے ہیں ،اور وطن کی حفاظت کیلئے موجود ہیں، آپ اندر کا محاذ سنبھال لیں۔ یہی وہ جذبہ تھا جس پوری قوم کو دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنا دیا تھا۔جب بھارتی فوج نے پاکستان پر حملہ کیا تھا، اس پر فوری طور پر اس وقت کے صدر پاکستان ایوب خان کی ولولہ انگیز تقریر نے بھی سب کے دلوں میں جو جوش و جذبہ پیدا کیا اس کی نظیر نہیں ملتی۔کیا بچہ کیا بڑا یا بوڑھا سب اپنی اپنی جگہ دشمن کے خلاف صف آرا ہوگئے تھے ،کیا مجال ان دنوں پورے ملک میں کسی اشیائے خوردونوش کی کمی ہوئی ہو یا کہیں کوئی واردات ہوئی ہو ،انہی حالات میں شاعر نے کہا تھا۔
جاگ اٹھا ہے سارا وطن
ساتھیو ،مجاہدو۔۔۔
دنیانے دیکھا کہ اپنے سے کئی گنا بڑی طاقت کو چند دنوں میں ہر محاذ پر شکست و ہزیمت اٹھانی پڑی، اس کیلئے ہمارے جوانوں نے اپنے لہو سے ایک نئی تاریخ رقم کی تھی اور دنیا کو بتا دیا تھا کہ اگر جذ بہ ایمانی ہو تو اپنے سے کئی گنا بڑی طاقت کو بھی شکست دی جا سکتی ہے۔11 ستمبر 1965 کو سیکریٹری دفاع نذیر احمد نے جنرل ایوب کو بتایا کہ بعض ممالک نے پاکستان کو اسلحہ دینے سے انکار کردیا ہے۔ 15 ستمبر کو امریکی صدر جانسن سے امن کی درخواست کی۔اسی دن بھارت نے بھی سلامتی کونسل میں بیان دیا کہ ہم جنگ بند کرنے کے لیے تیار ہیں، مگر جنگ جاری رہی۔17 ستمبر کو عوامی جمہوریہ چین نے ایک بیان جاری کیا جس میں انڈیا سے کہا گیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرے۔پاکستان نے چین کے اس بیان کا خیر مقدم کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب مغربی طاقتوں نے پاکستان پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ وہ جنگ بندی کا سمجھوتا قبول کرلے۔خود پاکستان بھی مسئلہ کشمیر کو فوجی طاقت کی بجائے سفارتی طاقت سے حل کرنے کے حق میں تھا۔ ایسے موقع پر صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان نے مناسب سمجھا کہ وہ اپنے دیرینہ حلیف اور دوست عوامی جمہوریہ چین کے وزیر اعظم چو این لائی سے براہ راست مشاورت کریں۔چنانچہ 19 اور 20 ستمبر 1965 کی درمیانی شب، صدر ایوب خان پشاور سے ایک طیارے کے ذریعے بیجنگ پہنچے اور اگلی شب واپس آگئے۔ ایوب خان کے اس دورے کو مکمل طور پر خفیہ رکھا گیا اور پاکستان میں بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہوسکا۔
اس دورے میں ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کے ہمراہ تھے۔ دونوں نے چو این لائی اور مارشل چن ڑی کے ساتھ دو طویل ملاقاتیں کیں۔چین نے پاکستان سے واضح طور پر کہا کہ امریکہ اور روس دونوں ناقابل اعتبار ہیں اور پاکستان کو نہ ان کے سامنے جھکنا چاہیے اور نہ ان پر اعتماد کرنا چاہیے۔
٭٭٭