... loading ...
ریاض احمدچودھری
مہنگائی اور بجلی کے بلوں میں اضافے کے خلاف اپیل پر ملک گیر ہڑتال میں نیشنل ہائی وے پر موجود دکانیں اور ہوٹل بند کردیے گئے جبکہ کئی مقامات پر سڑکیں بند کرادی گئیں۔وکلائ، طلبہ تنظیموں،مذہبی و سیاسی جماعتوں، آل پاکستان انجمن تاجران سمیت دیگر تاجر تنظیموں نے بھی جماعت اسلامی کی حمایت میں ہڑتال میں حصہ لیا۔ہڑتال میں حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ موجودہ معاشی حالات میں ملک ہڑتالوں کا متحمل نہیں ہو سکتا لیکن تاجروں اور عوام کیلئے جس طرح کے حالات پیدا کر دئیے گئے ہیں اس میں انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبور ہوئے ہیں۔ مہنگائی اور ہیجان کی کیفیت کی وجہ سے مارکیٹوں میں کاروبار نام کی کوئی چیز نہیں ہو رہی لیکن بجلی کے اتنے بھاری بل آرہے ہیں کہ تاجر ادائیگی کرنے کے قابل نہیں ، ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومت نے پیٹرولیم کی قیمتوں میں بھی ہو شربا اضافہ کر کے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔انہوں نے اپیل کی کہ حکومت بلوں میں اقساط کا ریلیف نہ دے بلکہ بلوں میں شامل کئے گئے اضافی ٹیکسز واپس لئے جائیں اور بجلی کے بنیادی ٹیرف کو کم کیا جائے ، اسی طرح پیٹرولیم کی قیمتوں میں بھی اضافے کو فی الفور واپس لیا جائے۔بڑھتی ہوئی مہنگائی اور پیٹرولیم مصنوعات کی ہوشربا قیمتوں سے پہلے ہی کاروباری سرگرمیاں نہایت محدود ہوچکی ہیں جبکہ مہنگے بجلی کے بلوں کو ادا کرنے کی سکت اب چھوٹے تاجر میں نہیں رہی۔
اس موقع پر جناب سراج الحق امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ملک چلانا نگران حکومتوں کے بس کی بات نہیں، 90 روز میں الیکشن کراکے اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کیا جائے، ادارے غیر جانبدار ہوجائیں۔ آئین کی بالا دستی کے قیام کی جدو جہد میں وکلا برادری کے تعاون کے طلبگار ہیں۔ ایک وکیل نے ملک آزاد کرایا، وکلا ہی اس کی حفاظت کرسکتے ہیں۔ 2ستمبر کی ملک گیر شٹرڈاؤن ہڑتال کی کامیابی کے لیے وکلا کا ساتھ چاہیے۔سراج الحق صاحب کا کہنا تھا کہ نگران حکومت کا کام نہیں کہ بجلی کی قیمت میں اضافہ کرے۔ الیکٹرسٹی ٹیرف میں اضافہ کے خلاف سپریم کورٹ بھی جارہے ہیں۔ عوام زیورات، مال مویشی بیچ کر بل ادا کررہے ہیں۔ فی یونٹ قیمت 56روپے تک پہنچ گئی، مزید اضافہ ہوگا۔ مہنگائی سابقہ حکومتوں کے آئی ایم ایف سے معاہدوں کا نتیجہ ہے۔ سندھ کے ڈاکو لوگوں کو اغوااور رہائی کے بدلے کروڑوں تاوان طلب کرتے ہیں، ڈاکوؤں کے پاس جدید اسلحہ ہے۔ سیکیورٹی ادارے کہاں غائب ہیں؟حکمران، ظالم وڈیرے ڈاکوؤں کاساتھ نہ دیں تو سندھی عوام ہی ان کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔
حافظ نعیم امیر جماعت اسلامی کراچی نے آرمی چیف سے مطالبہ کیا ہے کہ فوجی افسران ، ججوں کو اتنی سہولیات کی بنیا د پر ملی ہوئی ہیں۔ ان کو بھی عوام کے ساتھ قربانی دینی چاہیے۔ حکمران طبقہ بھی اس مشکل دور میں قربانی دے۔ کیا صرف عوام قربانی دے۔ فوجی افسران اپنی مراعات کو کم کرنے کا اعلان کریں۔ بیوروکریسی کو بھی پابندکیا جائے کہ وہ مفت بجلی، پٹرول میں کمی کریں۔ اس کی وجہ سے عوام پر سے بھاری بلوں کا بوجھ کم ہوتا چلا جائے گا۔حافظ نعیم کا کہنا ہے کہ بجلی کے بلوں میں اضافے کے خلاف کراچی کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں سراپا احتجاج ہیں۔ کے الیکٹرک نے بلوں میں بے تحاشہ اضافے اور ظالمانہ ٹیکس عائد کردیے ہیں۔ کراچی کے عوام قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہتے، ہم پر امن احتجاج پر یقین رکھتے ہیں۔ جماعت اسلامی کراچی کے ساڑھے تین کروڑ عوام کی پشت پر ہے۔ ہم پر امن احتجاج کر رہے ہیں۔جماعت اسلامی شعبہ خواتین کے تحت نیو ایم اے جناح روڈ پر بجلی کے نرخوں میں بے تحاشہ اضافے، کے الیکٹرک کی جانب سے ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز سمیت مختلف ٹیکسوں کی بھر مارکے خلاف احتجاج کیا گیا جس میں خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اوکاڑہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن نے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا اور جماعت اسلامی کی اپیل پر ملک گیر ہڑتال میں شامل ہوئی ۔بار کے صدر نے کہا کہ حکومت عوام کو ریلیف دینے میں مکمل ناکام ہو چکی ہے۔ بجلی پٹرول کی قیمتیں کم کرنے کی بجائے حکومت بڑھا رہی ہے۔ نگران حکومت کے تمام وزراء اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے۔ حافظ نور علی امیر جماعت اسلامی ضلع کوئٹہ کی قیادت میںسائیکل و موٹرسائیکل ریلی نکالی جس میں جے آئی یوتھ ، جماعت اسلامی ، اسلامی جمعیت طلباء ، جمعیت طلباء عربیہ کے نوجوانوں نے شرکت کی۔ مقررین نے کہا کہ اگر عوام اب بھی خاموش رہے تو حکمرانوں کی لوٹ مار نہیں رکے گی۔ آئی ایم ایف کا بہانہ بناکر پٹرول کی فی لیٹر قیمت اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر پانچ سو روپے اور بجلی فی یونٹ کی قیمت سنچری سے اوپرلے جائی جائے گی۔ عبدالواسع ، سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی خیبرپختونخوا نے کہا ہے کہ اوور بلنگ کو مسترد کرتے ہیں۔ وزیراعظم کا مہنگائی کے حوالے سے بیان شرمناک ہے۔ پورے صوبے کی تاجر برادری نے جماعت اسلامی کی ہڑتال کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ہڑتال ہمارا آئینی اور قانونی حق ہے۔ آئی پی پیز کو بجلی پیدا کرنے کے ٹھیکے دے کر کمیشن وصول کیا گیا۔ آئی پی پیز کے معاہدوں کو عوام کے سامنے لایا جائے۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ آئی ایم ایف معاہدے کا تسلسل ہے۔ حکومت اپنے خرچے کم کرنے کے بجائے عوام پر بوجھ ڈال رہی ہے۔سرکاری افسران، واپڈا افسران، آرمی اور جج کو جو مفت بجلی مل رہی ہے اس کو ختم کیا جائے۔ اگر مہنگائی نہیں ہے تو حکومتی معاشی ماہرین 32 ہزار روپے میں پانچ افراد کے گھر کا ماہانہ بجٹ بنا کے دکھا دیں تو ہم بھی مان لیں گے۔ یہ ملک آئی ایم ایف کا ہے یا ہمارا ہے۔ وزیراعظم کس کی نمائندگی کررہے ہیں؟ ڈالر کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے۔ ڈالر، ڈیزل اور پٹرول نے ٹرپل سنچری مکمل کرلی ہے۔ جب بھی تیل مہنگا ہوتا ہے تو مہنگائی کی نئی لہر آجاتی ہے۔ حکمران اپنی شاہ خرچیاں کم کرنے کی غریب پر بوجھ ڈال رہے ہیں خیبر پختونخوا کئی گنا زیادہ بجلی پیدا کر رہا ہے۔ 2400 میگاواٹ ہماری ضرورت ہے اور ہم اس سے زیادہ پیدا کرتے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کی پیداوار پر سب سے پہلا حق صوبوں کا ہے۔ لیکن حق دینے کے بجائے 57 روپے فی یونٹ کے حساب سے ہمیں بجلی بیچی جا رہی ہے جو ظلم ہے۔ ہمیں رائلٹی بھی نہیں دی جا رہی۔