... loading ...
عطااللہ ذکی ابڑو
کیپسٹی چارجزعوام کی کیپسٹی سے باہر ہوچکے ہیں لوگ سوشل میڈیا پرفیس بک اور ٹویٹرکے ٹرینڈ سے باہرنکل کرسڑکوں پرآچکے ہیں۔ آئے روز احتجاج، مظاہرے اورسڑکیں بلاک کرکے دھرنے دے رہے ہیں۔ سیکڑوں لوگ ایسے ہیں جو اپنی بیٹیوں کا زیوراورجہیز بیچ کر اپنا پیٹ کاٹ کربجلی کے بل بھرنے پرمجبور ہیں۔ بجلی کے بل دیکھ کرخونی رشتے مرنے مارنے پر تلے ہیں، لوگ شیرخوار بھوک سے بلکتے بچوں سمیت خودکشیاں کررہے ہیں۔ لوگوں کے پاس دوائی کے لیے 2 سو روپے نہیں ہیں مگر ہاتھوں میں دو، دو یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کے 20 ، 20 ہزار روپے کے ،کے الیکٹرک کے بل موجود ہیں؟ ایک ایک یونٹ کے فرق سے بل کا ٹیرف 50 سے 80 ہزارروپے اور25 ہزار تنخواہ لینے والے مزدوراورٹھیلہ فروش کا بل 25 سے 30 ہزارآرہا ہے۔ ایک طرف بااثرشخصیات کی فیکٹریوں ، شوگر ملوں سے لاکھوں ٹن چینی ، گندم اور آٹا خفیہ گوداموں میں ذخیرہ ہو رہا ہے اور دوسری طرف لوگ پیٹ کی بھوک مٹانے کو روٹی اورآٹا چوری کر رہے ہیں۔ اس قدر مہنگائی اور روز بجلی کے بدلتے ٹیرف دیکھ کر لوگوں کے اوسان جواب دے چکے ہیں، کرنسی ریٹ کے طرح بجلی کا بڑھتا ہوا ٹیرف 55 روپے فی یونٹ کردیا گیا ہے مگر 34 کروڑیونٹ کی بجلی چوری کرنے والوں کا کنڈا کسی کو نظر نہیں آتا ؟ چھ سو 62 ارب روپے کی نادہندہ کے الیکٹرک شہریوں کو نادہندہ قرار دے کران کے میٹر اور پی ایم ٹیز اٹھا کرلے جاتی ہے اورکوئی ان سے پوچھنے والا نہیں ہے ؟
سوال یہ ہے کہ اگر غریب مزدور بجلی کا بل اپنی جیب سے دے رہا ہے ؟ تو ہمارے ٹیکسز سے کسی کو بھی بجلی مفت کیوں مل رہی ہے ؟ 20 لاکھ تنخواہ لینے والے کو گھر، گاڑی،بجلی سب فری مل جاتی ہے ؟ لیکن 20 ہزار کمانے والا یہ سب کچھ اپنی تنخواہ سے لینے پر مجبور ہے ؟آخر سرکاری افسران ایسا کون سا کام کرتے ہیں کہ انہیں بجٹ کا پیٹ کاٹ کریہ تمام سہولیات دی جاتی ہیں؟ اوران کے خلاف کوئی روڈ میپ بنانے کے بجائے سارا بوجھ عوام پرڈال دیا جاتا ہے کسی کا 10ہزارروپے بل ہے توبجلی کی کھپت2 ہزاراورٹیکس 3 ہزارروپے ہے اس 10 ہزارمیں سے 5 ہزارروپے حکومت کی نااہلی کے ہیں ہمارے یہ کرپٹ افسراورحکمران؟ نگراں حکومت کو نظرکیوں نہیں آتے ؟ نگراں وزیراعظم صاحب نے پہلے بجلی کے بلوں پرایکشن کے لیے پھرتیاں دکھائیں پھر آئی ایم ایف کے دروازے سے آگے نہ جاسکے ؟ تین روز کابینہ کے ساتھ سرجوڑنے کے بعد عوام کو بجلی کے بلوں میں 400 یونٹ تک ریلیف دینے اور بل قسطوں میں لینے کی نوید سنائی پھر اس کی منظوری کو آئی ایم ایف سے نتھی کردیا ؟ کیا جب تک آئی ایم ایف سے کوئی فیصلہ نہیں آجاتا بجلی کے بل دیکھ عوام یونہی ہی بلبلاتے رہیں گے؟ چور،لٹیروں کی آشیرباد سے بننے والی اس نگراں حکومت نے ہر پندرہ روزبعد پیٹرول اور ڈالرکے ریٹ کی طرح بجلی کے ٹیرف میں اضافہ کرکے عوام سے جبری ٹیکس کو جگا ٹیکس کی طرح وصول کرنے کی ٹھان رکھی ہے ، قوم کو 440 کا جھٹکا دینے والی سیاسی پارٹیاں بھی مہنگائی اور اضافی بلوں پر خاموش ہیں، قوم کو آئی ایف ایف کی دلدل میں جھونکنے والی سرکار لندن اور کے الیکٹرک کے شیئر ہولڈرز سیاسی پنڈت دبئی میں بیٹھ کر پاکستان کے مسائل حل کرنے کا راگ الاپ رہے ہیں ، مہنگی ترین بجلی کا پہلا آئی پی پیز منصوبہ 1994 میں پیپلزپارٹی دور میں طے پایا تھا تاریخ کی بدترین لوڈشیڈنگ کی شروعات اوربجلی ٹیرف میں اضافہ بھی اسی دورحکومت 2008 اور 2013 میں ہوا۔ ہمارے حکمراں قرض کی مے پی پی کر اتنے مدہوش ہوچکے ہیں کہ مہنگائی، پیٹرول اور بجلی کے مسائل پرعوام کی آواز بننے کے بجائے ملک سے بھاگ کر الیکشن 90 روز میں کرانے کے لیے ایک پیج پر ہیں ۔ نگراں وزیراعظم نے مفت بجلی استعمال کرنے والے اداروں اور افسران کی فہرست طلب کرلی ہے اور اپنے کمرے کا اے سی بند کرنے کا فرمان بھی جاری کردیا ہے ؟ سوال یہ ہے کہ بجلی اصلاحات کے لیے مزید 48 گھنٹے کیوں چاہئیں ؟ فیصلہ صادر کیوں نہیں کیا جاتا ؟ وزیراعظم صاحب آپ کی دانشوارانہ باتوں سے غریب کے بچے کا پیٹ نہیں بھرتا اور نہ کسی کا بجلی بل جمع ہوسکتا ہے اورنہ مہنگائی کم ہوسکتی ہے ؟ آپ سے گزارش ہے کہ الیکشن کرانے پرفوکس کرنے کے بجائے بس اتنا کرلیجیے کہ نیب ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست گزشتہ دونوں سپریم کورٹ میں پیش کی جا چکی ہے۔ اس لسٹ کے مطابق ان کے خلاف گھیرا تنگ کردیں، 90ہزارسرکاری گاڑیوں میں 220 ارب کے مفت پیٹرول اور 550 ارب روپے کی مفت بجلی استعمال کرنے والوں اوراربوں ڈالر کی کرپشن میں ملوث سیاستدانوں اور آئی ایم ایف سے قرض لے کر ہڑپ کرنے والی ان اشرافیہ سے وصولیاں شروع کردیں۔ مختلف ٹیکسز کے نام پر قوم کا خون چوسنے والے ان درندوں کو 90 روز میں الیکشن کے نام پر اقتدار کی راہداری دینے کے بجائے عوام کو زندہ درگور کرنے پر اور قومی خزانہ ٹھکانے لگانے اور قوم کو چارسو چالیس کا جھٹکا دینے پر انگنت بے گناہوں کے قتل کے جرم میں 302 کا مقدمہ بناکر الٹا لٹکا دیں۔ بس یہی ایک راستہ ہے جس سے قوم کوآئی ایم ایف کے قرض سے چھٹکارا مل سکتا ہے وگرنہ ڈریں اس وقت سے کہ مہنگائی کی چکی میں پسنے والا یہ طبقہ اپنے اپنے حصے کا قرض اتارنے کے لیے مراعات یافتہ طبقے کی دہلیز پھلانگ کر کہیں دنیا کو سرخ انقلاب کی نوید نہ سنادے ؟
٭٭٭