... loading ...
علی عمران جونیئر
دوستو،حیدرآباد کے ایک کیفے میں قیمے کے پراٹھوں کو منفرد انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ کیفے کے مالک فیصل محمد کا کہنا ہے کہ ان پراٹھوں پر اس انداز میں سجاوٹ کی جاتی ہے جیسے کوئی دلہن بیوٹی پارلر میں تیار ہو رہی ہو۔گرم ابلتے تیل میں چکن قیمہ بھرا پراٹھا فرائی کیا اورپھر اسے دلہن کی طرح سجانا شروع کیا۔سب سے پہلے انڈے کی باری اورپھر چقندرسے سجایا۔کاجو،اسٹرابیری، ادرک کے ٹکرے، منفرد مصالحے اور لیموں کاتڑکہ،آخر میں ایک چکن پیس رکھا اورمزیدار پراٹھا تیار ہوگیا۔شاہی بازار کے مشہوردلہن پراٹھا کھانے لوگ دور دور سے آتے ہیں۔ایک دلہن پراٹھے کو چار ٹکڑوں میں تقسیم کرکے کسٹمر کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ ہوٹل مالکان کا کہنا ہے کہ لوگ یہاں سے دلہنوں کے لئے ناشتہ لینے آتے تھے،اسی وجہ سے اس کا نام دلہن پراٹھا رکھ دیا گیا۔ماوا پراٹھا،ڈھائی سو روپے ۔۔چکن پراٹھا ڈھائی سو روپے۔۔،چکن قیمہ پراٹھا دو سوروپے۔۔ بکرے کا گوشت کا پراٹھ تین سو روپے،چالیس سال سے بنارہے ہیں جو کھانے میں لذیذ ہوتا ہے۔اسی طرح اسلام آباد میں ان دنوں دلہن اور سہیلی پراٹھوں کی بڑی دھوم ہے، ان کے نام کی طرح ان کی ہر بات انوکھی ہے، یہ صرف صبح کے ناشتے میں ہی نہیں بلکہ دوپہر اور رات کو بھی شہری شوق سے کھاتے ہیں۔پراٹھوں کے نام سہیلی اور دلہن، ترکیب کچھ الگ سی، سج دھج بھی سب سے الگ، آٹے کی عام سی روٹی، مزے مزے کے چٹخارے دار لوازمات کی وجہ سے خاص ہوجاتی ہے، پراٹھا بنا کر اس کو دلہن کی طرح سجایا جاتا ہے۔میلوڈی فوڈ پارک میں ان پراٹھوں کے شوقین افراد کا تانتا بندھا رہتا ہے، پراٹھے بنانے والی خاتون اور اس کے اسسٹنٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ ایک خصوصی ریسپی ہے جو بادشاہوں کے دور سے چلی آرہی ہے۔انھوں نے بتایا کہ اس میں مایونیز، چکن قیمہ، کیچپ اور میکرونی استعمال ہوتی ہے، اس کی سجاوٹ مختلف طریقوں سے کرتے ہیں، اس کی سب سے اچھی چیز اس کی چٹنی ہے جو کہ پورے بازار میں کہیں اور نہیں ملے گی۔
دلہن پراٹھوں کے بعد اب اصلی لیکن چائنا کی دلہن کی بات بھی ہوجائے۔ایک صاحب کوجب ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ اسے شوگر لاحق ہوچکی ہے تو وہ تاسف بھرے انداز میں بڑبڑایا۔۔ چینی عورت سے شادی کرنے کا یہی نتیجہ نکلنا تھا۔۔باباجی ایک بار ہم سے پوچھ بیٹھے، یار یہ چینی عورتیں اپنے شوہروں کو پہچانتی کیسے ہوں گی، سارے مرد ایک ہی شکل کے لگتے ہیں۔۔چین نے دلہن کی عمر 25 سال سے کم ہونے پر نقد انعام دینے کا اعلان کر دیا۔غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق چین میں جلد شادی کا رجحان پیدا کرنے کیلئے حکومت کی جانب سے نقد انعام دینے کا اعلان کر دیا گیا، اگر دلہن کی عمر 25 سال سے کم ہوئی تو جوڑے کو ایک ہزار چینی یوآن انعام میں دیئے جائیں گے۔چین میں نقد انعام کا اعلان نوجوانوں کو شادی کی جانب راغب کرنے اور پیدائش کی شرح کی کمی کو پورا کرنے کیلئے کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ چینی حکام کو 60 برسوں بعد پہلی مرتبہ آبادی کے کم ہونے پر تشویش ہو رہی ہے، جس کے بعد اُن کی جانب سے شرح پیدائش کو بڑھانے پر انعامات دینے اور بچوں کی فلاح وبہبود کی سہولیات کو بہتر کرنے کے پروگراموں کا آغاز بھی کیا جا رہا ہے۔چین میں مَردوں کی شادی کرنے کی عمر کی قانونی حد 22 برس جبکہ خواتین کی عمر کی قانونی حد 20 برس ہے تاہم چینی نوجوانوں میں شادی کرنے کا رحجان تیزی سے کم ہو رہا ہے جس کے باعث بچوں کی پیدائش کی شرح بھی کم ہو رہی ہے، اس وقت چین کا شمار کم ترین شرح پیدائش والے ممالک میں ہوتا ہے۔جنوبی کوریاکی آبادی کے نصف سے زیادہ لوگ شادی کے بعد بچے پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ ایک سروے کے مطابق بظاہر ملک میں بچوں کی پرورش کے زیادہ اخراجات کے خدشات کی وجہ سے کوریا کے شہری بچے پیدا کرنے کے خلاف ہیں۔ کوریا ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ کے ایک سروے کے مطابق 52.4 فیصد غیر شادی شدہ اور 20 سال تک کی عمر کے کورین شہری شادی کے بعد بچے پیدا کرنے کے خلاف ہیں۔ پانچ سال پہلے کیے گئے اسی طرح کے ایک سروے میں اِس تعداد میں 23.3 فیصد کے مقابلے میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس کے برعکس سروے میں شامل 28.3 فیصد نے کہا کہ وہ شادی کے بعد بچے پیدا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو کہ پانچ سال پہلے کے مقابلے میں صرف 7 فیصد زیادہ ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ بچوں کی پرورش کے زیادہ اخراجات اس کے ذمہ دار ہیں۔ امریکی سرمایہ کاری فنانشل گروپ کی ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی کوریا میں بچوں کی پرورش کی لاگت فی کس مجموعی گھریلو پیداوار کا تناسب دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ کوریا کم شرح پیدائش کے ساتھ جدوجہد کر رہا ہے کیونکہ بہت سے نوجوان طویل معاشی سست روی اور مکانات کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے شادی کرنے یا بچے پیدا کرنے میں تاخیر کرتے ہیں یا ارادہ ہی ترک کر دیتے ہیں۔جنوبی کوریا میں گزشتہ سال ریکارڈ کم بچے پیدا ہوئے۔ بچوں کی پیدائش میں کمی سے کام کرنے کی عمر کی آبادی میں ایک بڑی کمی کا خدشہ ہے۔
مشتاق احمد یوسفی صاحب لکھتے ہیں کہ۔۔جب انکی شادی ہوئی اور رخصتی کا وقت آیا تو دلہن کی ماں بہنیں رونے لگیں مگر ان کی بیگم خاموش تھیں۔ انہوں نے اپنی بیگم سے کہا کہ آپ بھی رو لیں کیونکہ دلہن رخصتی کے وقت گھروالوں سے جدا ہوتی ہیں تو روتی ہیں، مگر وہ نہ روئیں۔پھر گھر کا دروازہ آیا ہم نے کہا اب تو آپ دروازے پر آگیں ہیں اب رو لیں مگر وہ پھر بھی نہ روئیں۔پھر گاڑی کے قریب آکر ہم نے پھر کہا مگر وہ نہ روئیں اور گاڑی میں بیٹھ گیں اور پھر جب ہم اپنا سہرا اٹھاکر گاڑی میں بیٹھے اور انہوں نے ہمیں دیکھا تو وہ پھر خوب پھوٹ پھوٹ کر روئیں۔ساغر نظامی نے کسی مشاعرے میں ایک خوبصورت خاتُون کو دیکھا اور حَسبِ عادت اس پر ہزار جان سے فِدا ہو گئے۔ مشاعرے کے بعد موصُوف اُس خاتون کے پاس پہنچے اور کہنے لگے۔۔اے دُشمنِ ایمان و آگہی ،کیا آپ یہ گوارا کریں گی کہ میرے دِل کے مُرتعش جذبات آپ کے پاکیزہ عِطر بیز تنفس کی آمد ُشد سے ہم آہنگ ہو سکیں؟بے چاری حَسینہ اِس اَدبی اور ثقیل اندازِ بیان کو بالکل نہ سمجھ سکی اور حیرت سے بولیں۔۔آخر آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟۔۔اب ساغر نظامی صاحب نے صاف صاف کہا۔۔ کیا آپ میرے بچوں کی ماں بننا پسند کریں گی؟حسینہ نے چند لمحے سوچا اور حیرت سے دریافت کیا، کتنے بچے ہیں آپ کے؟
اوراب چلتے چلتے آخری بات۔۔ملک کے حالات اگر دیکھیں تو اس وقت صرف ڈینسٹ کا کلینک ہی ایسی جگہ بچی ہے جہاں آپ اپنا منہ کھول سکتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔