... loading ...
مفتی محمد وقاص رفیع
اسلام ایک دین فطرت ہے۔وہ اپنے ماننے والوں کو فطرتی اوصاف کا مکلف بناتاہے۔ جب کوئی شخص فطری اوصاف سے مالا مال ہوکر اسلام کے سانچے میں ڈھل جاتاہے تو وہ ایک صحیح مسلمان کہلانے کا حق دار ہوتاہے۔آج کے مسلمانوں کی زندگی فطری وشرعی اوصاف سے یک سر خالی نظر آتی ہے۔کردار کے غازی کے بہ جائے گفتار کے غازی وہ زیادہ نظر آتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ غیروں سمیت اپنے بھی ہماری مسلمانی پر چنداں اعتماد نہیں کرتے۔ آج مجبوراً ہمیں اغیار کی مثالیں دے دے کر اپنے خوابیدہ مسلمان بھائیوں کو غفلت کی نیند سے جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر بیدار کرنا پڑتا ہے۔ حالاں کہ ہمارے آباؤ اجداد نے ایسی قابل تحسین و لائق صد آفرین زندگیاں گزاری ہیں جن کی مثالیں دیتے غیر مسلم تھکتے نہیں۔اُن کی بلندیٔ کردار ، عمدگیٔ اخلاق اور بے مثال و باکمال زندگی کے محیر العقول حالات و واقعات کے سامنے عالم انسانیت کے سر خم ہیں۔
چناں چہ حافظ ابو قاسم طبرانی رحمہ اللہ اپنی سند سے مشہور صحابی حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی زندگی کاایک بصیرت افروز واقعہ نقل کیا ہے کہ:ایک مرتبہ حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام کو ایک گھوڑا خرید لانے کا حکم دیا ، وہ تین سو درہم میں گھوڑا خرید لایا اور گھوڑے کے مالک کو رقم دلوانے کے لئے ساتھ لے آیا ، حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو طے شدہ دام بھی بتلائے گئے ، اور گھوڑا بھی پیش کردیا گیا ، آپ نے اندازہ لگایا کہ گھوڑے کی قیمت تین سو درہم سے کہیں زیادہ ہے ، چناں چہ آپ نے گھوڑے کے مالک سے فرمایاکہ : آپ کا یہ گھوڑا تین سو درہم سے زائد قیمت کا ہے، کیا آپ چار سو درہم میں فروخت کریں گے ؟ ” اس نے جواب دیا : جیسے آپ کی مرضی ؟” پھر فرمایا : آپ کے گھوڑے کی قیمت چار سو درہم سے بھی زائد ہے ۔ کیا آپ پانچ سو درہم میں بیچیں گے ؟ ” اس نے کہا کہ : میں راضی ہوں ”۔ اسی طرح حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ گھوڑے کی قیمت میں سو سو درہم کی زیادتی کرتے چلے گئے ۔ بالآخر آٹھ سو درہم میں اس سے گھوڑا خرید لیا اور رقم مالک کے حوالے کردی ۔آپ سے سوال کیا گیا کہ : جب مالک تین سو درہم پر راضی تھا ، تو آپ نے اسے آٹھ سو درہم دے کر اپنا نقصان کیوں مول لیا ؟ ” آپ نے فرمایا : گھوڑے کے مالک کو اس کی اصلی قیمت کا صحیح اندازہ نہیں تھا ، میں نے خیر خواہی کرتے ہوئے اس کو پوری قیمت ادا کی ہے ، کیوں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ: ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی والامعاملہ کیا کروں گا ”۔میں نے اپنے اس وعدے کا ایفاء کیا ہے ”۔ ( شرح نووی : ج ١ ص ٥٥ )
یہ ایک فطرت کا اثر تھا جس پر اسلام کی دولت مستزاد ہو کر سونے پر سہاگے کا کام دے رہی تھی ، لیکن اگر اسلام سے خالی فطری زندگی کا آپ جائزہ لیں تو اُس میں بھی آپ کو یہ ہی فطری عنصر موجود نظر آئے گا۔ چناں چہ ہم آپ کی ملاقات مشہور بزنس میں جناب عبد القادر خان صاحب سے کراتے ہیں جو خود اِس مشاہدہ کے عینی گواہ ہیں۔ وہ ہندوستانی ہیں۔اور ہندوستان کے مشہور شہر بمبئی کے رہنے والے ہیں۔ 1970ء میں وہ ایک بین الاقوامی نمائش میں شرکت کے لیے اپنے گروپ کے ہم رَاہ جاپان کے شہر ٹوکیو گئے۔ جب وہ ٹوکیو ائیر پورٹ پر اُترے تو کچھ جاپانی باشندوں (جو پہلے سے وہاں موجود تھے) اُنہوں نے گروپ کو یہ پیش کش کی کہ آپ میں سے جو صاحب ہمارے ساتھ قیام کرنا پسند کریں ، اُن کو ہم اپنے گھر لے جانے کے لئے تیار ہیں۔عبد القادر خان صاحب جاپانیوں کو قریب سے دیکھنا چاہتے تھے۔ چناں چہ اِس پیش کش کو قبول کرتے ہوئے وہ ایک جاپانی کے ساتھ اُن کے گھر کی طرف چل دیے۔
عبد القادر خان صاحب کا قیام جاپان میں ایک ہفتہ کا تھا، اِس لیے اُنہیں ایک ہفتہ تک اُس جاپانی خاندان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ دن کا بیش تر وقت اُن کا باہر نمائش وغیرہ دیکھنے میں گزرتا ۔ شام کو وہ جاپانی دوست کے گھر میں آجاتے اور رات اُس کے ہاں گزارتے۔ چوں کہ جاپانی دوست نے عبد القادر خان صاحب کو اپنے گھر ٹھہرانے کا کوئی معاوضہ لینا مقرر نہیں کر رکھا تھا ، اِس لیے عبد القادر خان صاحب کو خیال ہوا کہ وہ اپنے جاپانی دوست کو کوئی تحفہ دیں۔ چناں چہ اُنہوں نے ٹوکیو میں جاپانی ساخت کا ایک کیمرہ خریدا اورہ وہ اُنہوں نے اپنے میزبان جاپانی دوست کے بیٹے کو بہ طورِ تحفہ پیش کیا، جسے جاپانی دوست نے قبول کرلیا۔اِس کے بعد جاپانی دوست نے عبد القادر خان صاحب سے دریافت کیا کہ یہ کیمرہ آپ نے جہاں سے خریدا ہے اُس نے آپ کو اِس کی رسید دی ہوگی۔ عبد القادر خان صاحب نے کہا جی ہاں! جاپانی دوست نے انتہائی نرمی اور شرمندگی کے ساتھ کہا کہ بڑی مہربانی ہوگی اگر وہ رسید آپ مجھے دے دیں۔ عبد القادر خان صاحب نے وہ رسید نکال کر اسے تھمادی۔ تاہم عبد القادر خان صاحب کے ذہن میں یہ سوال تھا کہ جاپانی دوست نے ایسا کیوں کیا؟ آخر رسید لے کر وہ اِس کو کیا کرے گا؟ چناں چہ اُنہوں نے معافی مانگتے ہوئے اپنے جاپانی میزبان دوست سے کہا کہ اگر کوئی حرج نہ ہو تو آپ مجھے یہ بتانے کی زحمت گوارا کریں گے کہ کیمرہ کی رسید آپ نے مجھ سے کیوں طلب فرمائی؟جاپانی دوست نے کہا کہ در اصل آپ یہاں جاپان میں سیاح کے طور پر آئے ہیں۔ اورہمارے ملک کا یہ اُصول ہے کہ وہ سیاح لوگوں کو جاپانی مصنوعات خصوصی رعایت پر دیا کریں گے۔ مثلاً آپ نے یہ کیمرہ خریدا ہے تو آپ کو یہ چالیس فی صد کم قیمت پر دیا گیا ہوگا۔ یہ اِس صورت میں ہے جب کہ کیمرہ ملک سے باہر جارہا ہو۔ مگر اب یہ کیمرہ چوں کہ ملک کے اندر رہے گا اِس لئے اُصولاً اب اِس پررعایت کا حق باقی نہیں رہتا۔ آپ سے یہ رسید ہم نے اِس لیے طلب کی ہے کہ ہم یہ کیمرہ متعلقہ دوکان پر لے جائیں گے اور وہاں اِس کی بقیہ رعایتی قیمت ادا کریں گے تاکہ ہماری وجہ سے ہمارے ملک جاپان کا قومی نقصان نہ ہونے پائے۔
یہ ہی آئین قدرت ہے یہ ہی اُسلوب فطرت ہے
جو ہے” راہ عمل” میں گام زَن محبوب فطرت ہے !
کہاں ہیں ہمارے مذہبی و اشرافیہ طبقہ کے لوگ؟ اور کہاں ہیں ہمارے ارباب حل و عقد صاحب اقتدار لوگ؟ اور کہاں ہیں ہمارے گفتار کے غازی نام نہاد مسلمان جنہیں اپنی مسلمانی پر بڑا ناز ہے اور وہ اپنے پاکستانی ہونے پر فخرسے بڑبڑاتے ہیں؟ قوموں کے عروج و زوال اور اُن کے مستقبل کی قسمت کے فیصلے اُن کے اعمال و کردار اوراُن کی سوچ اپروچ کے مطابق ہوتے ہیں ۔ ملک و ملت سے وفاداری کے بہ جائے غداری اور اپنوں سے بے اعتنائی کے بجائے غیروں سے بغل گیری کے نتیجے میں عروج و کمال نہیں بلکہ پستی و زوال مقدر ہوتا ہے اور ایسے میں اقوام عالم پر حکم رَانی کا خواب دیکھنے والے اُن کی تحتی میں غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ تاریخ کا ایک اٹل فیصلہ ہے جو واقع ہوکر رہتا ہے اور تاریخ ایسے شوریدہ بخت نمک حرام لوگوں کو کبھی معاف نہیں کرتی۔
٭٭٭