... loading ...
ڈاکٹر جمشید نظر
آج کل سوشل میڈیا پر شارٹ ا سٹوری ویڈیو کلپ بڑا وائرل ہورہا ہے جس کا ٹائٹل ہے”بجلی مہنگی،عزت سستی”یہ ایک ایسی جوان بیوہ کی کہانی ہے جو اپنے بچوں کا پیٹ پالنے اور بجلی کے بل ادا کرنے کے لئے اپنی عزت بیچنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔برقع پوش نوجوان بیوہ جب پہلی مرتبہ اپنی عزت کا سودا کرنے گھر سے نکلتی ہے تو سڑک پر کار سوارایک شخص اسے گاڑی میں بٹھا کر اپنے گھر لے جاتا ہے۔ دونوں کے درمیان گفتگو ہوتی ہے وہ شخص نوجوان بیوہ سے پوچھتا ہے کہ تم ایسا گندا کام کرنے پر کیوں مجبور ہو جبکہ حلیہ سے تم ایسی نہیں لگتی۔تب نوجوان بیوہ اس شخص کو بتاتی ہے کہ وہ کس طرح اپنے شوہر کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہی تھی کی اچانک بجلی کا بل 35ہزار روپے آگیاجس کو ادا کرنے کے لئے اس نے رشتہ داروں ،ہمسایوں اورجاننے والوں سے قرض مانگا لیکن کہیں سے ایک روپیہ قرض نہ مل سکا کیونکہ مہنگائی اور بجلی کے بلوں کی وجہ سے ہر کوئی پریشان حال تھا۔نوجوان بیوہ نے بتایا کہ حالات سے تنگ آکر اس نے کئی مرتبہ خودکشی کا ارادہ کیا لیکن پھر سوچا کہ بچوں کا کیا بنے گا؟ بیوہ نے روتے ہوئے کہا ”خدا نے مرنا حرام کررکھا ہے اور بجلی کے بلوں نے جینا”ویڈیو کے آخر میں دکھایا جاتا ہے کہ وہ شخص ایک نیک دل ڈاکٹر ہوتا ہے جو بیوہ کو گناہ سے روکنے کے لئے اسے اپنے گھر لے کر آتا ہے۔نوجوان بیوہ کی کہانی سن کر ڈاکٹر اسے اپنی بہن بنا لیتا ہے اور اسے 40ہزار دیتا ہے تاکہ وہ 35ہزار بجلی کا بل ادا کردے اور بقایا5ہزار سے اپنے بچوں کے لئے راشن خرید سکے۔یہ ایک ایسی دردناک کہانی تھی جو حقیقت کے بہت قریب تھی اور اب ہر گھر کی کہانی بن چکی ہے۔سوشل و الیکٹرانک میڈیا پرہر روز جس طرح کے واقعات سامنے آرہے ہیں اس سے ثابت ہوگیا ہے کہ واقعی بجلی مہنگی اورعزت سستی ہوگئی ہے بلکہ خودکشی کے حالیہ واقعات کے بعد یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ” بجلی مہنگی ،جان سستی”۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ روزضلع خانیوال کی تحصیل جہانیاں میںخودکشی کا ایک واقعہ پیش آیا جہاں بل ادائیگی کے باوجود بجلی بحال نہ ہونے پراور گھریلو حالات سے تنگ آکر 4 بچوں کی ماں نے زہریلی گولیاں نگل لیںاور موت کو گلے لگا لیا۔خودکشی کرنے والی خاتون کے شوہر قاسم نے بتایا کہ اس کے چاربچے دو دن سے بھوکے تھے اور جب10 ہزار روپے بجلی کا بل آیا تو گھر کی اشیاء فروخت کرنا پڑیں اور قرض لے کربجلی کابل ادا کیا اس کے باوجودبجلی بحال نہ ہوئی۔ بیوی بجلی کی بندش اور بھوکے بچوں کی وجہ سے پریشان تھی، گھر سے کام پر گیا تو بیوی نے حالات سے تنگ آکر زہریلی گولیاں کھا کر اپنی زندگی ختم کرلی۔اس طرح ایک اور حالیہ واقعہ میں ڈجکوٹ کے محلہ صابری ٹاون میں 28 سالہ نوجوان حمزہ نے بجلی کا بل زیادہ آنے پر دلبرداشتہ ہوکر خودکشی کرلی۔میڈیا رپورٹس میںبتایاگیا کہ مرحوم دو بچوں کا باپ تھااور اسے40 ہزار بجلی کا بل آیا تھا۔
بجلی کے بلوں کی ادائیگی پچیس کروڑ عوام کی پہنچ سے باہر ہوگئی ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ سول نافرمانی ،پرزوراحتجاج اوربجلی کمپنی کے ملازمین پر تشددکرنے پر اتر آئے ہیں۔صارفین کو بھیجے گئے بجلی بلوں پر نہ تو ریڈنگ ڈیٹس لکھی گئی ہیں اور نہ ہی میٹر ریڈنگ ڈسپلے کی تصویر شائع کی گئی ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر تاخیر سے ریڈنگ کی گئی ہے اور صارفین پر اضافی ریڈنگ کا بوجھ ڈالا گیا ہے۔خیال کیا جارہا تھا کہ نگران حکومت کے لئے اس وقت سب سے بڑا چیلنج مہنگائی ہوگا لیکن بجلی کے بلوں نے نگران حکومت کی نیندیں بھی اڑا دی ہیں اس لئے نگران حکومت کے سامنے اس وقت سب سے بڑا چیلنج بجلی کے بل ہیں جنھیں صارفین ادا کرنے سے قاصر ہیں ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ نگران حکومت اس چیلنج سے کس طرح نمٹے گی اور صارفین کو کس حد تک ریلیف فراہم کرسکے گی؟
٭٭٭