... loading ...
ڈاکٹر جمشید نظر
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اونتونیوگوتریس نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ دنیا ایٹمی ہتھیاروں کا خاتمہ کرکے آنے والی نسلوں کو ایک بڑا تحفہ دے سکتی ہے۔یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ جنگ عظیم دوم میں امریکہ کی جانب سے جاپان کے دو شہروں پرایٹم بم گرائے گئے۔ پہلا یورینیم بم 6 اگست 1945 کو جاپانی شہر ہیروشیما پر گرایا گیا جس کا نام” لٹل بوائے ” تھا جبکہ دوسرا اس کے تین روز بعد دوسرے جاپانی شہر ناگاساکی پرگرایا گیا جس کا نام” فیٹ مین” تھا جوکہ پلوٹونیم بم تھا۔دونوں بموں کے نتیجہ میں تقریبا دولاکھ سے زائد انسان لمحوں میں راکھ کا ڈھیر بن گئے جبکہ بعد میں بھی ہزراوں موت کے منہ میں چلے گئے۔ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی ان بموں کے مضراثرات ختم نہ ہوسکے ۔بچے پیدائشی طور پر معذور،سرطا ن سمیت مختلف خطرناک بیماریوں کے ساتھ پیدا ہونے لگے۔ایٹم بم کے استعمال کے متعلق رائے دینے والے عالمی سطح پر دو گروپ ہیں ایک گروپ کا کہنا ہے کہ ایٹم بم کا ستعمال کرکے بہت بڑی غلطی کی گئی تھی جبکہ دوسرے گروپ کا کہنا ہے کہ ایٹم بم کا ستعمال ٹھیک تھا کیونکہ اس کے استعمال کے بعد نہ صرف دوسری عالمی جنگ بندی ہوگئی اور مزیدلاکھوں ہلاکتوں کا خطرہ ٹل گیا بلکہ دنیا کو یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ایٹم بم انسانی جان اور ماحول کے لئے کس قدر خطرناک ہے اور اسی خطرے کے پیش نظر دنیا میں ایٹم بم بنانے اور اس کے استعمال کی روک تھام کے لئے اب تک عالمی سطح پر کوششیں کی جارہی ہیں اوراسی بات کے پیش نظردنیا بھر میں ہر سال جوہری ہتھیاروں کی روک تھام کا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے تاکہ دنیا کے تمام ممالک کو اس بات کا احساس دلایا جاسکے کہ ایٹم بم سے ہونے والی تباہی اور اس کے بعد طویل عرصہ تک انسانوں اور ماحولیات پررہنے والے مضر اثرات کس قدر خطرناک ہیں ۔اگر دیکھا جائے تو موجودہ دور میں جوہری ہتھیاروں کے بغیر دنیا کا امن اور سلامتی قائم رکھنا اس وقت سب سے بڑا چیلنج ہے۔2دسمبر2009اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے متفقہ قرارداد منظور کرنے کے بعد 29اگست کوجوہری تجربات کے خلاف عالمی دن منانے کا اعلان کیا تب سے ہر سال یہ دن منایا جاتا ہے۔
امریکی سائنسدانوں کی فیڈریشن ( FAS ) کی سن 2019 کی ایک رپورٹ کے مطابق روس کے پاس چار ہزار سے زیادہ جبکہ امریکہ کے پاس چار ہزار کے قریب جوہری ہتھیار موجود ہیں جن میں سے دونوں ممالک میں ایک ہزار سے زیادہ ہائی الرٹ پر ہیں جبکہ فرانس کے پاس 300 جوہری ہتھیار ہیں۔اسی طرح چین کے جوہری اسلحے کی تعداد 290 کے لگ بھگ ہے لیکن اس میں تیزی سے اضافے کا امکان ظاہر کیا جارہاہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چین جلد امریکہ اور روس کے بعد ایسے ہتھیار رکھنے والا تیسرا بڑا ملک بن جائے گا۔جوہری ہتھیاروں کی فہرست میں پانچواں نمبر برطانیہ کا ہے جس کے ہتھیاروں کی تعداد 200 بتائی جاتی ہے۔ اس فہرست میںدو جنوبی ایشیائی ممالک پاکستان اور انڈیا کا نام بھی شامل ہے،پاکستان کے پاس160 اورانڈیا کے پاس 140 جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے۔پاکستان کو خطے میں امن اور انڈیا کے ساتھ طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لئے ایٹم بم بنانا پڑا،اس کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ انڈیا کو یہ بھی پیشکش کی ہے کہ اگر بھارت اپنے جوہری ہتھیار ترک کردے تو پاکستان بھی اپنے جوہری ہتھیار سے دستبردار ہوجائے گا۔پاکستان کے اس اعلان پر دنیا پر واضح ہوچکا ہے کہ پاکستان جوہری ہتھیاروںکے حق میں نہیں لیکن خطے میں امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لئے جوہری ہتھیاررکھنا پاکستان کی ضرورت ہے کیونکہ انڈیا اپنے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو محدود یا ختم کرنے کی بجائے اسے مزید بڑھانے کی تگ ودو میں لگاہے اورمقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کا سرعام قتل عام اور سرحدوں کی خلاف ورزی سمیت دیگر ایسے مسائل پیدا کرکے پاکستان کو جوہری ہتھیار استعمال کرنے پر مجبور کرتا رہتا ہے۔ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں پاکستان کا یہ اٹل موقف ہے کہ وہ کم از کم ڈیٹرنس کا قائل ہے جو اس کے دفاع کے لئے ناگزیر ہے۔بہت سے ممالک ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردار بھی ہوئے ہیں۔ .1985جنوبی بحر الکاہل ،1991جنوبی افریقہ ،1995جنوب مشرقی ایشیا ، 1996میںافریقہ،2006میںوسطی ایشیاء جوہری ہتھیاروں سے پاک زون بن گئے ۔ان سب مثالوں کے باوجود انڈیا خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک زون بنانے کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کرنے کو تیار نہیں جوکہ خطے کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ثابت ہوگا۔
٭٭٭