وجود

... loading ...

وجود

ڈولی پر ڈولتا عوامی ردِ عمل

اتوار 27 اگست 2023 ڈولی پر ڈولتا عوامی ردِ عمل

ماجرا/ محمد طاہر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ اقبال نے کہا تھا کہ دنیا کو اُس کی آنکھوں نے عریاں دیکھا ہے۔ پھر فرمایا:
حفظ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا
رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا
شیکسپیئر بھلائے ، بھولا نہ جا سکے گا۔ کیا عجیب نکتہ واشگا ف کیا۔”دو افراد کے مابین تعلق کو ایک محفوظ پناہ گاہ ہونا چاہئے ،جنگ کا میدان نہیں۔کیوں کہ دنیا بہت مشکل جگہ ہے”۔ افراد کے باہمی تعلق سے زیادہ اہمیت اس نکتے کی فرد اور ریاست سے تعلق کے مابین اُبھرتی ہے۔ مگر یہ سمجھے گا کون؟ طاقت ،دماغ سے نہیں ہاتھوں سے سوچتی ہے۔ اُس کی محبت کا لمس بھی احساس سے نہیں ڈنڈے سے اُبھرتا ہے۔ پاکستان کا موجودہ منظر نامہ اس اعتبار سے ماضی کے بدترین ادوار سے بھی زیادہ ابتر ، کہتر اور بدتر ہو چکا ہے۔ چنانچہ ڈولی (چیئر لفٹ) پر عوامی ردِعمل اِن ہی تہہ داریوں سے اُبھرا ہے۔ فرد اور ریاست کے مابین تعلق اب ایک محفوظ پناہ گاہ نہی رہا بلکہ یہ جنگ کا میدان بنتا جا رہا ہے۔
یہ وہ تناظر ہے جس میں ہمیں ڈولی (چیئر لفٹ) حادثے سے پیدا ہونے والے عوامی ردِ عمل کا جائزہ لینا چاہئے۔ چیئر لفٹ کا معاملہ کیا تھا۔خیبر پختونخوا کے علاقے بٹگرام میں طلباء سمیت 8 افراد ڈولی میں پھنس گئے جنہیں بچانے (ریسکیو) کے لیے پاک فوج سمیت مقامی لوگوں نے مدد کی۔پہلے ہی مرحلے میں پاک فوج کے بچاؤ مشن اور مقامی لوگوںکی مدد کو ایک نہیں سمجھا گیا۔ اور یہ دونوں طرف سے ہوا۔ میڈیا نے جو سرکس لگایا ، اس سے عوام نے اپنے اپنے تعصبات کے ساتھ پاک فوج کے مشن اور مقامی لوگوں کی فعالیت کو الگ الگ زاویوں سے دیکھنا شروع کیا۔ اسی مرحلے پر ہمیں سوچنا چاہئے کہ یہ بچاؤ مشن ایک کیوں نہیں سمجھا گیا؟اس کے پیچھے موجود عوامی رجحانات کا ایک سنجیدہ تجزیہ کرنا چاہئے۔ اگر ڈولی میں پھنسے افراد کو بچانے کے لیے فوجی کمانڈوز کامیاب ہو رہے تھے، تو اسے ملک کے ایک بڑے طبقے میں اپنی کامیابی کیوں نہیں سمجھا جا رہا تھا۔ سوال دوسرا بھی ہے اور اس سے بھی بڑا۔ اگر مقامی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ڈولی میں پھنسے افراد کو بچانے میں کامیاب ہو رہے تھے تو اس پر ملک کے کچھ دوسرے طبقے خوش کیوں نہیں ہوئے۔ یہ پاک فوج زندہ باد اور عوام زندہ باد کے مختلف نعروں میں موقف کی لڑائی کیوں بن گئی؟ یہ دونوں نعرے ایک دوسرے کے ہم معنی کیوں نہیں رہے؟ یہ متضاد الفکر کیوں ہو گئے؟ یہ سوال لرزا دینے والے ہیں؟ سماجی رابطوں کے ابلاغی ذرائع پر یہ ایک معرکہ بن کر ظاہر ہوا۔ جس میںہم ملک میں پنپنے والے رویوں کو پہچان سکتے ہیں۔ مقامی لوگوں کی مدد سے ہونے والے بچاؤ مشن کو اس طرح بیان کیا گیا کہ جس سے فوج کے ذم کا مخفی یا جلی تاثر اُبھرے، یہ ایک رویہ ہے۔دوسری طرف فوج کے بچاؤ آپریشن کو اس طرح پیش کیا گیا کہ اس سے عام لوگوں کے امدادی کاموں کو دھیما یا مخفی رکھا جا سکے، یہ دوسرا رویہ ہے۔ یہ دونوں رویے زہر ِ قاتل ہیں۔ کیونکہ ان دونوں رویوں میں قومی شعور نہیں گروہی تعصب کے دہکتے الاؤ ہیں۔
ردعمل کے اس متوازی بہاؤ کا ایک نئے مسئلے سے بھی تعلق ہے۔ آج کل ہر معاملے کا تناظر عمران خان کے ساتھ مخصوص رویے سے بنایا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ طاقت ور حلقوں کا ہمیشہ سے رہا ہے۔ اس میں الزامات کی نوعیت ہمیشہ یکساں رہتی ہے بس ہدف یا شخصیات بدلتی رہتی ہیں۔ان دنوں عمران خان تاریخ کے اسی گرداب کے شکار ہیں۔ ڈولی میں پھنسے لوگوں کو بچانے کے مشن پر جو ردِ عمل اُبھرے اس میں ایک بڑی لہر عمران خان کے ساتھ جاری حالیہ تنازع کی پیداوار بھی ہے۔ عمران خان کے حامی ”عوام زندہ باد” کے ساتھ فوجی کمانڈوز اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے بچانے کے عمل پر طرح طرح کے سوالات اُٹھا رہے ہیں، ہو سکتا ہے کہ اس میں کچھ سوال جائز بھی ہوں مگر ان کا رویہ دراصل فوجی مشن کی تذلیل کا تھا، مقامی لوگوں کی تحسین میں بھی ان کا ہدف یہی تھا۔ مقامی لوگوں کی تحسین بالکل جائز ہے، ان کا بچاؤمشن شاندار لفظوں میں بیان کیے جانے کے قابل ہیں اور اُنہیں قومی سطح پر زبردست پزیرائی کے ساتھ انعام واکرام سے بھی نوازنا چاہئے مگر یہ سب کچھ فوجی مشن کے خلاف ردِ عمل پیدا کرنے کی نیت سے نہیں بلکہ حقیقی طور پر ہونا چاہئے۔اس کے متوازی دوسرا معاملہ ”فوج زندہ باد” کے نعرے کا تھا۔ اس کے پرچم بردار زیادہ تر وہ تھے، جو فوج کے بچاؤ مشن کی تحسین کرنا نہیں چاہ رہے تھے، بلکہ وہ اس میں عمران خان کی مذمت کی گنجائش پیدا کررہے تھے۔ ایسی حمایت کی کوئی قدر ووقعت نہیں۔ مستعار ذہن و قلم اسی طرح بروئے کار آتے ہیں۔ یہ دوسری طرف کا مصنوعی پن تھا۔ دراصل ان تمام مسائل کی جڑ اوران رویوں کا اصل سبب یہ ہے کہ ہم کوئی قومی مزاج ہی نہیں رکھتے۔ ہمارے ہاں مشترکات تیزی سے کم ہوتے جارہے ہیں۔ باہمی لڑائیوں میں پاکستان بھی چھوٹا پڑ رہا ہے۔ قومی اداروں پر عوام میں کم ہوتا اعتما داب مدلل ہوتا جارہا ہے۔ اور اسے ملک دشمنی کے ہم معنی بنانے کی حکمت عملی اپنا اثر کھوتی جارہی ہے۔ یہ ایک دل دہلا دینے والا منظرنامہ ہے۔
ڈولی میں اُس روز آٹھ افراد نہیں لٹکے ہوئے تھے، ہمارا قومی مستقبل بھی ان پیچیدہ رویوں کے ساتھ جھول رہا تھا۔ لوگ تو ریسکیو کر لیے گئے، مگر ہمارے یہ متحارب رویے قومی زندگی کے لیے اس سے بھی بڑا خطرہ ہے، اسے بھی ریسکیو کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ رویوں کی یہ ڈولی ابھی بھی لٹکی ہوئی ہے۔ فرد اور ریاست کے مابین تعلق محفوظ پناہ گاہ سے نکل کر میدان جنگ میں داخل ہو چکا ہے۔ پورے ملک سے آوازیں ہیں کہ طاقت ور حلقوں کا دباؤ ہے کہ بڑھتا جارہا ہے۔ لوگ آزاد فضا میں سانس لیتے ہوئے مشکلات محسوس کر رہے ہیں۔ مہنگائی سے حکومت کی بے نیازی سفاکانہ طرزِعمل کا روپ دھار چکی ہے۔ ریاست کے تمام ادارے عوام میں اعتماد کھوتے جارہے ہیں۔ اب پورا ملک خود کو قانون کے جبر تلے محسوس کررہا ہے۔ پاکستان کے تمام اعلیٰ دماغ ملک چھوڑ رہے ہیں۔ سات لاکھ لوگ شہباز شریف کے سولہ ماہ کی حکومت میں ملک چھوڑ چکے ہیں۔ پاکستان کے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اس صورت ِ حال پر سفاکانہ بے حسی کے ساتھ اپنے پالا نہاروں کے موقف کی عکاسی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”تو کیا ہوا ”؟ اگر یہ بھی کچھ نہیں ہے تو پھر کچھ بھی کچھ نہیں ہے۔ یہ حد ہے اور حد عبور ہو چکی ہے۔ اس کیفیت میں ادارے عوام سے احترام طلب کر رہے ہیں۔ ڈولی پر اڑتے ہیلی کاپٹر پر تالیاں پٹوانا چاہتے ہیں۔یہ سب کیسے ہوگا؟ ۔علامہ اقبال نے جسے فطرت کا راز داں لکھا تھا ، شیکسپیئر نے نکتہ واشگاف کیا:دو افراد کے مابین تعلق کو ایک محفوظ پناہ گاہ ہونا چاہئے ، جنگ کا میدان نہیں۔کیوں کہ دنیا بہت مشکل جگہ ہے”۔ ریاست نہیں سمجھ رہی، یہ دنیا صرف ایک فرد کے لیے نہیں ریاست کے لیے بھی اتنی ہی مشکل جگہ ہوتی ہے۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
خطہ پنجاب تاریخ کے آئینے میں! وجود اتوار 22 دسمبر 2024
خطہ پنجاب تاریخ کے آئینے میں!

عمران خان اور امریکی مداخلت:حقیقت اور پروپیگنڈے کا فرق وجود اتوار 22 دسمبر 2024
عمران خان اور امریکی مداخلت:حقیقت اور پروپیگنڈے کا فرق

پاکستانی لانگ رینج میزائل کس کے لیے خطرہ ہیں؟ وجود اتوار 22 دسمبر 2024
پاکستانی لانگ رینج میزائل کس کے لیے خطرہ ہیں؟

مقبوضہ کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں وجود اتوار 22 دسمبر 2024
مقبوضہ کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں

بھارت بنگلہ دیش چپقلش وجود هفته 21 دسمبر 2024
بھارت بنگلہ دیش چپقلش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر