... loading ...
حمیداللہ بھٹی
صدرمملکت نے رواں ماہ نو اگست کو وزیرِ اعظم کی تجویز پر قومی اسمبلی تحلیل کی مگردوہفتے گزرنے کے باوجود ملک میں عام انتخابات کے حوالے سے ہنوزکسی ایک تاریخ پر اتفاق نہیں ہو سکا بلکہ آئینی اِداروں کے درمیان اب تو تنائو کی کیفیت جنم لے چکی ہے جو ہر ذی شعور شہری کے لیے پریشانی اور مایوسی کاباعث ہے اب تو ایسی افواہیں گردش کرنے لگی ہیںہے کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے عام انتخابات کے بروقت انعقاد کی بجائے کچھ عرصہ التوا میں ڈالنے کے لیے کام جاری ہے۔ ایسی افواہوں کو اہم سیاستدانوں کے فیصلوں سے تقویت ملتی ہے مثلاََ انتخابی مُہم میں حصہ لینے کے لیے نواز شریف رواں برس ستمبر میں واپس آناچاہتے تھے جس کے لیے ن لیگی حلقوں میں استقبالی تیاریاں بھی شروع ہو چکی تھیں مگر شہباز شریف سے ملاقات کے بعد معلوم ہوا ہے کہ انھوں نے اپنی وطن واپسی موخر کر دی ہے۔ یہ اشارہ ہے کہ عام انتخابات کے بروقت انعقاد کی خبروں میں کوئی سچائی نہیں ۔کیونکہ چاہے عارضی طورپر ہی سہی انتخابی مُہم میں حصہ لینے کے لیے نواز شریف کے لیے ماحول سازگاربنایا جا چکا اسی بناپر وطن واپسی میں تاخیر کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ ملک میں انتخابات کی منزل ابھی دورہے التواکے جواز کے لیے ہی حکومت نے جون میں مکمل ہونے والی مردم شماری کی تین ماہ تاخیر اگست میں منظوری دی۔ رواں ماہ پانچ اگست کو منعقد ہونے والا مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کے حوالے سے بھی سپریم کورٹ میں عرضی پیش کی جاچکی ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے نگران وزرائے اعلیٰ اِس اہم ترین اجلاس میں آیا شرکت کے مجاز تھے؟ واقفان حلقوں کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں سیاسی بحران وسیع ہوتاہوا ریاستی بحران کی صورت اختیارکر سکتا ہے آئین کے آرٹیکل 224 کے مطابق نوے روز میں الیکشن کرانا لازم ہے مگر الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 51 کا سہارہ لیکر نئی مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیاں کرانے کا خواہاں ہے جس کے لیے چار سے پانچ ماہ کی مدت درکارہے ۔حلقہ بندیاں ایک حساس معاملہ ہے جس پر اعتراضات کا قومی امکان ہے کیونکہ کسی امیدوار کو فتح یا شکست سے دوچار کرنے کے لیے حلقوں کی کانٹ چھانٹ ہی اِس طرح کی جاتی ہے جس سے مطلوبہ مقاصدباآسانی حاصل کیے جا سکتے ہیں اور یہ اعتراضات اعلیٰ ترین عدالتوں تک جا سکتے ہیں الیکشن کمیشن نے انتخابی روڈ میپ کے سلسلے میں سیاسی جماعتوں سے مشاورت کا عمل شروع کرتے ہوئے التوا کی طرف ایک اور اہم قدم بڑھایاہے ۔بظاہر اُس وقت تک شاید عوام حق ِ رائے دہی سے محروم رہیں جب تک تحریکِ انصاف کی واضح نظرآتی جیت کا امکان معدوم نہیں ہوجاتا۔
صدرعارف علوی نے چیف الیکشن کمشنر سکندرسلطان راجہ کو خط لکھ کر انتخابات کی تاریخ طے کرنے کے لیے ملاقات کی دعوت دی وہ آئین کے آرٹیکل 48 کو جواز بناکرتاریخ کے تعین کو اپنا اختیارسمجھتے ہیںجوابی خط میں چیف الیکشن کمشنر نے ملنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب وزیرِ اعظم کی سفارش پر58 ون کے تحت اسمبلی تحلیل کی جائے تو انتخابی تاریخ دینا الیکشن کمیشن کااختیار ہے۔ وہ سمجھتے ہیں الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 میں 26جون کوہونے والی ترمیم نے انھیں یہ اختیار دیا ہے۔ صدر نے جوابی خط موصول ہونے پر اب وزارتِ قانون و انصاف سے اِس معاملے میں رائے طلب کر لی ہے مگر فہمیدہ حلقوں کواندازہ ہے کہ وزارتِ قانون و انصاف کی رائے بھی الیکشن کمیشن کے حق میں آنے کا امکان ہے۔ یہ اندازہ نگران سیٹ اَپ پی ڈی ایم کی پسند کے مطابق تشکیل دینے پر لگایاجاتاہے ۔انتخابی حوالے سے آئینی اِداروں کے درمیان جنم لینے والا یہ ٹکرائو عدالتوں تک بھی جا سکتا ہے ۔کیسی بدقسمتی ہے کہ دنیا ترقی کی منازل طے کررہی مگر وطنِ عزیز 76 برس میں انتخابی عمل کا طریقہ کارتک نہیں بنا سکا ۔ اہم وجہ یہ ہے کہ ہر آنے والی حکومت اپنے مفاد میں قوانین بنانے اور بدلنے کے تجربے کرتی رُخصت ہو جاتی ہے جس سے اِداروں کی توقیر متاثر ہوئی۔ اگر شخصیات کے بجائے اِدارے مضبوط کیے جاتے تو ملک آج اِس طرح افراتفری کا شکار نہ ہوتا ۔ایک طرف ملک بدترین سیاسی عدمِ استحکام کا شکارہے تو دوسری طرف اِدارے اپنے اختیارات کے حوالے سے مخمصے کا شکار اور مداخلت کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اسی بناپر سیاسی استحکام کا خواب مکمل نہیں ہورہا۔اب بھی بظاہر چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے ملاقات سے انکاردراصل صدرسے طاقتور ہونے کا احساس دلانا ہے حالانکہ صدر ملک کا آئینی سربراہ اور مسلح افواج کا سپریم کمانڈر ہے اِس کے باوجود آج کل یہ عہدہ اِتنا بے توقیر کیاجاچکا ہے کہ صدر کو سماجی حوالے کی ویب سائٹ پر بتانا پڑتا ہے کہ فلاں قانون منظور نہیں کیا بلکہ ماتحت عملے نے احکامات کی تعمیل نہیں کی اور اختیارات سے تجاوز کیا ہے ۔وہ اپنے ماتحت عملے کے سیکریٹری کو تبدیل کرنے کے لیے خط لکھتے ہیں لیکن حکومت عمل درآمد سے اجتناب کرتے ہوئے تین نام بھیج کرکسی ایک کے انتخاب کا مطالبہ کردیتی ہے ۔اِس عمل کو کسی طور آئینی ، قابل رشک اور قابل تحسین قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ صدر کو نیچا دکھانے کی کوشش ہے۔ علاوہ ازیں جب چیف الیکشن کمشنر بصد احترام امریکی سفیر سے ملنے پر آمادہ اور اُن کی ہدایات پر عمل کرنے اور منصفانہ الیکشن کرانے کی یقین دہانی کرانے کو معیوب تصورنہیں کرتے تو اپنے ملک کے آئینی سرابرہ سے ملاقات سے انکارکاکوئی جواز نہیں رہتا۔ یہی وجہ سمجھ آتی ہے کہ وہ خودکوصدر سے زیادہ طاقتور خیال کرتے ہیں۔اب جبکہ یہ واضح طور پر نظر آنے لگا ہے کہ ملک میں عام انتخابات نوے روز میں ہونے کا کوئی امکان نہیں اور الیکشن کمیشن کی طرف سے ہونے والی سُست تیاریاں اگلے برس تک لے جا سکتی ہیں آئینی اِداروں میں جنم لینے والے تنائو نے خاص و عام کی پریشانی مزیدبڑھا دی ہے۔ الیکشن کمیشن نے پے درپے کچھ ایسے فیصلے کیے ہیں جس سے انتخابی عمل کی شفافیت بارے بھی شکوک و شبہات پیداہونے لگے ہیں ۔حال ہی میں ذرائع ابلاغ پر انتخاب سے پہلے اور بعد میں ایگزٹ پول اور انٹری پول دونوں کی تشہیر پر مکمل طورپر پابندی لگادی ہے۔ حالانکہ ماضی میں خفیہ رکھنے کے بارے میں الیکشن کمیشن نے کبھی کوئی ایسی ہدایات جاری نہیں کیں۔ پولنگ اسٹیشنوں سے ووٹ ڈال کر نکلنے والے ووٹروں کی رائے پر مبنی سروے کو ایگزٹ پول کانام جاتا ہے جس میں ووٹروں سے یہ دریافت کیا جاتا ہے کہ انھوں نے کس جماعت کے امیدوار کوووٹ ڈالا ہے نیز ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشن میں داخل ہونے سے قبل ووٹر کی رائے یا پسند کو جاننے کا عمل انٹری پول کہلاتا ہے۔ اِس طرح ممکنہ طورپرجیتنے والی جماعت کے بارے میں انتخابی نتائج سے قبل ہی جاننے میں کافی مددملتی ہے لیکن اب الیکشن کمیشن نے آمدہ عام انتخابات کے لیے جاری ہونے والے ضابطہ اخلاق میںایسے کسی سروے پر پابندی عائد کردی ہے جو ووٹر کی آزادانہ رائے جاننے کے عمل کی نفی ہے ۔یہ فیصلہ نہ صرف ووٹروں کی رائے خفیہ رکھنے کی دانستہ کوشش ہے بلکہ نتائج کو چھپانے کا طریقہ کار بنانے کے مترادف ہے نتائج کو بدلنے میں ایسے حربے کارگرہوتے ہیں۔ اسی بناپریہ عمل کسی مخصوص جماعت کو فتح سے ہمکنارکرنے کی کوششوں کے حصے کے طورپرسمجھا جارہاہے۔ بہتر یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آئین کے مطابق ملک میں انتخاب کرانے کونہ صرف یقینی بنائے بلکہ آزادانہ و منصفانہ صاف شفاف انتخابی عمل میں حائل ہونے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کرے تاکہ کسی سیاسی جماعت یا سیاستدان کو انفرادی یا اجتماعی طور پر دشنام طرازی کا موقع نہ ملے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔