... loading ...
ریاض احمدچودھری
درویش صفت جسٹس ریٹائرڈ شیخ خضر حیات صاحب نے بہت سادہ اور پروقار زندگی گزاری ہے۔ غریب اور نادار لوگوں کے کام آنا ان کی زندگی کا اہم مقصد ہے۔ انہیں تقریباً 13 لاکھ روپے ماہوار پنشن ملتی ہے۔ وہ فیروز روڈ پر واقعہ فاطمہ ہاؤسنگ سوسائٹی کے تین مرلے کے گھر میں قیام پزیر ہیں۔ انہوں نے بہت سے مستحق اور نادار افراد کی لسٹ بنا رکھی ہے جنہیں ہر ماہ وہ مالی امداد دیتے ہیں۔ انہوں نے موضع کماہاں میں سات مرلے کا ایک پلاٹ خرید کرخوبصورت مسجد تعمیر کی ہے اور وہ اس کے اوپر کی منزل میںام القران کے نام سے ایک دینی مدرسہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ شیخ صاحب بڑی سادہ طبیعت کے مالک ہیں اور اکثر قرآن پاک کی تلاوت اور دیگر اسلامی کتب کے مطالعے میں مصروف رہتے ہیں۔اے کاش کہ وطن عزیز کے اعلیٰ عدالتوں کے ججوں میںسے کوئی اور جج اتنی یا ان سے زیادہ پنشن لینے والا جج ان کی تقلید کرتا۔ میری معلومات کے مطابق وہ واحد سابق جج ہیں جو اپنے لئے معمولی رقم صرف کرتے ہیں اور نوے فیصد سے بھی زیادہ رقم غریبوں کی مدد کیلئے خرچ کر دیتے ہیں۔اللہ تعالیٰ جسٹس شیخ خضر حیات صاحب کو شفائے کاملہ عطا کرے تاکہ وہ مدرسے کے قیام کی بخوبی نگرانی کرسکیں۔
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے وہاڑی کو ضلع بنانے کا اعلان کیا اور وہاڑی سے قومی اسمبلی کے رکن میاں ریاض محمد خاں دولتانہ(والد محترمہ تہمینہ دولتانہ) نے وہاڑی میں ایک بڑے جشن کا اہتمام کیا اور انہوں نے بھٹو صاحب کو اس جشن میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی۔ بھٹو صاحب جیپ میں سوار تھے اور راقم الحروف بھی ریاض محمد دولتانہ کے ساتھ بھٹو صاحب کی جیپ میں سوار تھا۔ بھٹو صاحب وہاڑی میں ہجوم کے جوش و خروش سے بہت خوش نظر آرہے تھے۔ میاں ریاض دولتانہ نے چند کلومیٹر دور ایک کینال ریسٹ ہاؤس میں بھٹو صاحب کے اعزاز میں استقبالیہ دعوت کا انتظام کر رکھا تھا۔ مجھے میاں صاحب نے بتایا کہ انہوں نے اس استقبالیہ کیلئے شیزان ہوٹل والوں کو ستر ہزار روپے دے رکھے ہیں۔راقم الحروف نے ان سے گزارش کی کہ بھٹو صاحب بذریعہ ہیلی کاپٹر ملتان سے وہاڑی آئے ہیںاور آپ کے استقبالیہ میں تاخیر ہو جائے گی تو بھٹو صاحب کو گاڑی میں بذریعہ سڑک ملتان واپس جانا پڑے گا ۔میں نے میاں صاحب سے کہا کہ بھٹو صاحب بہت خوش ہیں ۔ جیسے ہی یہ استقبالیہ میں پہنچیں تو آپ چند استقبالیہ جملے کہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اہل وطن کو ایک بڑی خبر سننے کا موقع مل جائے۔ راقم الحروف کی ملک حیات ٹمن سے اکثر ملاقات رہتی تھی جنہیں بھٹو صاحب نے 1977 کے انتخابات میں دھاندلی کرنے اور پیپلزپارٹی کے امیدواروں کی جیت یقینی بنانے کا کام بھی سونپ رکھا تھا۔ راقم الحروف اکثر ملک حیات ٹمن سے ملتا رہتا تھا۔ جونہی میاں ریاض دولتانہ نے استقبالیہ الفاظ کہے تو بھٹو صاحب تقریر کے لئے اٹھے اور انہوں نے وہاڑی کے لوگوں کا جوش و خروش دیکھ کر 1977 کے انتخابات کا اعلان کر دیا۔ اتنے میں سورج غروب ہو چکا تھا۔ اندھیرا چھا رہا تھااور بھٹو صاحب کو ہیلی کاپٹر کی بجائے بذریعہ سڑک ملتان جانا پڑا۔
کافی عرصے کے بعد جسٹس ریٹائرڈ شیخ خضر حیات صاحب بڑی تفصیلی ملاقات ہوئی۔ فون پر تو کبھی کبھار میں ان کی خیریت دریافت کر لیتا تھا،تاہم جج صاحب سے ملاقات کیلئے اپنے ایک عزیز دوست اور پیاسی کے بانی صدر شاہد پرویز صاحب سے رابطہ کیا اور وہ میرے ہاں تشریف لے آئے۔ ان کے بھی جسٹس صاحب سے دیرینہ تعلقات ہیں۔ شاہد پرویز صاحب کو چند ماہ قبل شوکت خانم سے ایک بڑی سرجری کروانا پڑی اور وہ پہلی بار ویلنشیاء سے میرے ہاں شامی روڈ پر واقع عسکری ولاز آگئے اور ہم دونوں فیروز پور روڈ سے ملحقہ فاطمہ سوسائٹی میں جسٹس خضر حیات صاحب سے گھر پہنچے ۔ وہ کافی عرصے سے چلنے پھرنے سے معذور ہیں ۔ وہ کرسی پر بیٹھ کر ہی نماز ادا کرتے ہیں ۔ایک بار وہ بہاولپور میں مولانا مودودی کا خطاب سننے کیلئے بذریعہ بس بہاولپور جا رہے تھے اور جونہی وہ بس سے اترے ، دوسری طرف لوہے کے بڑے بڑے پائپوں سے لدا ہوا ٹرک آگیا او ر شیخ صاحب کے سر پر دو بڑے پائپ لگے جس سے ان کو شدید چوٹیں آئیں اور وہ بے ہوش ہو گئے۔ شدید زخمی ہونے کے بعد وہ زمین پر بس پر نیچے چلے گئے اور مزیدزخم و چوٹیں کھانے سے محفوظ رہے۔ان کی ریڑھ کی ہڈی کو بھی تکلیف پہنچی۔ دو مہرے بری طرح متاثر ہوئے۔
شیخ خضر حیات صاحب 1977 کے انتخابات میں قومی اتحاد (جماعت اسلامی )کے امیدوار تھے جنہوں نے قومی اسمبلی کے ا سپیکر صاحب زادہ فارو ق علی مرحوم کو شکست دی۔ ان انتخابات میں ملتان سے قومی اسمبلی کیلئے قومی اتحاد کے دو امیدوار تھے ان میں ایک مولانا حامدعلی خاں مرحوم تھے جن کے مقابلے میں ملتان سے پی پی پی کے امیدوار بابو فیروز دین انصاری جبکہ ملتان کے دوسرے حلقے سے شیخ خضرحیات اورصاحبزادہ فاروق علی کے درمیان مقابلہ تھا۔ دونوں حلقوں کے ریٹرنگ افسروں کے پاس انتخابی نتائج تقریباًمکمل ہو چکے تھے اور قومی اتحاد کے دونوں امیدوار بھاری اکثریت سے جیت رہے تھے۔ اس وقت کے وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹونے کمشنر ملتان ہمایوں رسول صاحب کو فون کیا اور ان کو ہدایت کی کہ ملتان کے دونوں حلقوں سے پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی کامیابی کا اعلان کر دیا جائے۔ ہمایوں صاحب نے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسرچودھری محمد صدیق خاں اور ریٹرننگ افیسر سردار اسلم جلوانہ کو فون کیاکہ پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی کامیابی کا اعلان کر دیا جائے۔
راقم الحروف اس وقت ضلع کچہری ملتان میں موجود تھا۔ اور چودھری صدیق صاحب نے اپنے ایک اہلکار کے ذریعے مجھے بلوایا۔ میں ان کے پاس گیا تو چودھری (ایڈیشنل ڈپی کمشنر جنرل)سردار اسلم جلوانہ اور چودھری محمد حفیظ اللہ وہاں موجود تھے۔ چودھری صاحب نے کہا کہ بھٹو صاحب نے یہ ہدایت کی ہے کہ اگر آپ کمشنر صاحب کے پاس پی این اے کے لوگوں کو لے کر چلے جائیں اور ان سے فوراً ملاقات کر لیں ورنہ ہم تو پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی کامیابی کا اعلان کرنے پر مجبور ہوں گے۔ اس وقت کچہری میں قومی اتحاد کے سینکڑوں کارکن موجود تھے۔ راقم الحروف نے ان سب سے کہا کہ اندرون شہر سے جتنے لوگ بھی فوراً نکل سکتے ہیں، ابدالی روڈ پر واقعہ کمشنر ہاؤس پہنچ جائیں۔ جیسے ہی ہزاروں لوگ کمشنر ہاؤس پہنچے تو لوگوں نے پیپلز پارٹی اور بھٹو صاحب کے خلاف بلند آواز میں نعرے لگانے شروع کر دیے۔ اسی اثنا میں کمشنر ہمایوں صاحب کو بھٹو صاحب کا فون آیا کہ آپ نے ابھی تک پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی کامیابی کا اعلان کیوں نہیں کیا۔ ہمایوں صاحب نے انہیں بتایا کہ ہزاروں شہریوں نے کمشنر ہاؤس کا گھیراؤ کر رکھا ہے اور وہ کمشنر ہاؤس میں داخل ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں اگر ہم نے خلاف قانون کوئی قدم اٹھایاتو لوگ کمشنر ہاؤس کو بھی آگ لگا دیں گے اور شہر میں ہنگامے شروع ہو جائیں گے۔ اس پر بھٹو صاحب نے کمشنر سے کہا کہ پھر ملتان کے دونوں حلقوں کے اصل نتائج کا اعلان کر دیا جائے تو اس طرح بابو فیروز دین انصاری کے مقابلے میں مولانا حامد علی خان اوراسپیکر قومی اسمبلی صاحب زادہ فاروق علی کے مقابلے میں شیخ خضر حیات کی کامیابی کا اعلان کر دیا گیا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی پورے ملتان میں جشن کا سماں تھا۔ یہاں یہ بھی بتانا چاہتا ہے کہ بھٹو صاحب مولانا جان محمد عباسی صاحب کو حوالات میں بند کر کے بلا مقابلہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اسی طرح پنجاب سندھ ،بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے چاروں وزرائے اعلیٰ بھی ریٹرننگ افسروں کے دفاتر کاگھیراؤ کر کے بلامقابلہ کامیاب ہوئے تھے اور انہوں نے قومی اتحاد کے امیدواروں کواپنے کاغذات نامزدگی داخل کر نے سے محروم کر دیا تھا۔
شیخ صاحب نے پراسیکیوٹر کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا تھا تاہم چند سال کے بعد انہوں نے سرکاری ملازمت چھوڑ دی اور ملتان میں وکالت شروع کی۔ محترم اکرم شیخ صاحب ، ملک دین محمد قاضی ایڈووکیٹ اور شیخ خضر حیات صاحب کافی عرصے تک اکٹھے پریکٹس کرتے رہے۔ 4 جولائی کو مارشل لاء کے نفاذ کے بعد مولوی مشتاق حسین لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے جنہوںنے بھٹو صاحب کو بیرسٹر احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان مرحوم کے قتل میں سزائے موت دی ۔ واضح رہے کہ بھٹو صاحب کے خلاف قتل کے مقدمہ کی سماعت کرنے والے پانچوں جج فوجداری کے مقدمات کے ماہر تھے۔ بھٹو صاحب کے خلاف شیخ آفتاب حسین نے فیصلہ لکھا تھا اور باقی ججوں نے ان سے اتفاق کیا تھا۔انہی دنوں چودھری محمد صدیق خاںلاہور ہائی کورٹ میں پریکٹس کر رہے تھے اور شیخ خضر حیات ہائی کورٹ کے احاطے میں داخل ہوئے تو ان کی اچانک چودھری صدیق خاں صاحب سے ملاقات ہوئی ۔ چودھری صدیق صاحب بہت ہی باخبر ، زیرک افسر تھے انہوںنے شیخ خضرحیات صاحب کو دیکھتے ہی کہاکہ آپ حلف اٹھانے کیلئے آرہے ہیں۔
چودھری صدیق صاحب مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں مولوی مشتاق حسین اور عرفان احمد انصاری سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل کے کلاس فیلو تھے اور مولوی صاحب جب چیف الیکشن کمشنر بنے تو انہوں نے چودھری صدیق صاحب کو پنجاب کا الیکشن کمشنر تعینات کر دیا۔ انہوں نے ڈاکٹر علامہ اقبال کے خطوط اور ان کی کتاب Reconstruction of Religious Thought in Islam کا اردوترجمہ کیاتھا اور بزم اقبال لاہور نے یہ کتاب فکر اسلامی کی تشکیل جدید کے نام سے شائع کر رکھی ہے۔ مرحوم سید نذیر نیازی، راقم الحروف اور چودھری صدیق صاحب کے دیرینہ اور گہرے دوست تھے اور ہم ہفتے میں کئی بار کئی کئی گھنٹوں تک اکٹھے بیٹھا کرتے تھے۔ سید نذیر نیازی مرحوم بڑے درویش صفت انسان تھے اورانہیں مالی مشکلات کا بھی سامنا تھا۔ چودھری صدیق صاحب مرحوم اور راقم الحروف نے ہمیشہ اپنے دوست کا حتیٰ المقدور خیال رکھا۔ اللہ انہیں غریق رحمت کرے۔ ان کی مغفرت فرمائے۔ علم دوست شخصیت کے مالک تھے۔ علامہ اقبال جو مختلف اصحاب کو خطوط بھیجتے تھے یہ تمام مکتوبات سید نذیر نیازی صاحب کے ہاتھ کے تحریر کردہ تھے۔راقم الحروف شیخ خضر حیات صاحب کا ذکر کر رہاتھا ۔ شیخ صاحب اور منیر خان مرحوم (رحیم یارخان)دونوں فوجداری امور کے ماہر تھے۔ دونوں ہی اکٹھے لاہور ہائی کورٹ کے جج بنے تھے۔ شیخ صاحب ہائی کورٹ کے مختلف بنچوں بشمول بہاولپور تعینات رہے۔ چونکہ شیخ صاحب علوم اسلامیہ سے بخوبی آگاہ تھے اس لئے انہیں اسلامی مشاورتی کونسل کا رکن ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔