وجود

... loading ...

وجود

بے بس صدر اور ہلال امتیاز

منگل 22 اگست 2023 بے بس صدر اور ہلال امتیاز

میری بات/روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے جب سے بتایاکہ ہے کہ انہوں نے بلوں پر دستخط نہیں کیے بلکہ ان کے ا سٹاف نے یہ سارا کام انہیں بتائے بغیر ہی کرلیا ہے اس وقت سے لیکر اب تک ہر سیاستدان انہیں برا بھلا کہہ رہا ہے۔ یہ وہ سیاستدان ہیں جو پچھلے 16ماہ سے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے عوام کی مہنگائی سے چیخیں نکلوا رہے تھے اور جنہوں نے اس پر شور مچانا تھا انہیں پکڑ پکڑ کر جیلوں میں بند کردیا گیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ ان حقائق کی تحقیقات کا مطابلہ کرتے لیکن الٹا انہوں نے صدر کے ہی استعفے کا مطالبہ کردیا ،تاکہ یہ سیٹ بھی خالی ہو جائے اور پھر کوئی انہیں روکنے ٹوکنے والا نہ رہے۔ ہونا تو یہ چاہیے معلوم کیا جائے کہ وہ کونسی طاقت ہے جس نے ایوان صدر میں بیٹھے ہوئے شخص کو بے بس کردیا اور اس کی آواز پر لبیک کہنے والا بھی کوئی نہیں۔ الٹا سب ہی اس کی بے بسی کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ خیر یہ معاملات یونہی چلتے رہیں گے اسی دوران صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے ٹیتھیان کاپر کمپنی سے 5 ارب ڈالرکا ریکوڈک کا تنازع مذاکرات کے ذریعے کامیابی سے ختم کرانے میں کردار ادا کرنے والے افسران کو ہلال امتیاز دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان افسران میں وفاقی سیکریٹری برائے قانون و انصاف راجہ نعیم اکبر، انٹرنیشنل ڈسپیوٹ یونٹ کے سابق سربراہ احمد عرفان اسلم اور بریگیڈیئر عاطف رفیق شامل ہیں۔ان افسران نے ریکوڈک تنازع کے دوران مختلف قانونی فورمز میں پاکستان کی نمائندگی کی اور کمپنی کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں ریکوڈک پراجیکٹ کی بحالی کے لیے بیرک گولڈ کے ساتھ عدالت سے باہر تصفیہ کرتے ہوئے پراجیکٹ کو بحال کیا۔ پاکستان کو اس کیس میں 6ارب ڈالرکا جرمانہ ہوا تھا ،ایسے افسران کی حوصلہ افزائی ہوتی رہنی چاہیے ۔ یہی وہ لوگ ہیںجن سے پاکستان کا معاشی نظام چل رہا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ چیف سیکریٹری گلگت بلتستان محی الدین وانی نے جی بی میں ہر لحاظ سے تاریخی کام کیے ہیں۔ خاص کر جی بی کی سیاحت اور تعلیمی نظام میں جو انقلاب برپا کردیا ہے اس پر انہیں ہلال امتیاز ملنا چاہیے۔ اسی طرح پنجاب کے سیکریٹری معدنیات بابر امان بابر کو بھی ہلال امتیاز ضرور دیا جائے جنہوں نے اس خستہ حال محکمے کو پنجاب کا کمائو ادارہ بنا دیا۔ ان کے حوالے سے ایک اور قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ انہوں نے گلگت بلتستان میں بھی خدمات سر انجام دی ہیں۔ ان کے دور میں شروع ہونے والے بہت سے منصوبے آج پایہ تکمیل کو پہنچ رہے ہیں جس سے مقامی لوگوں کو فائدہ تو پہنچے گا ہی ساتھ میں سیاحت کے شوقین افراد بھی ان مراعات سے لطف اندوز ہونگے ۔اسی طرح وفاقی محتسب اعجاز قریشی نے مجبور پاکستانیوں کو مختلف اداروں میں بیٹھے ہوئے شیطانی لوگوں کے چنگل سے چھڑوایا، وہ بھی قابل فخر ہے۔ آج کے اس دور میں جب انسان ہی انسان کا دشمن بنا بیٹھا ہے تو ایسے ماحول میں مفت انصاف وہ بھی سائل کی دہلیز پر پہنچانا کتنا دشوار کام ہے ۔یہ تو ڈاکٹر انعام الحق جاوید سے بہتر کوئی نہیںجان سکتا۔ اس طرح کے ایک اور درد دل والے صوبائی محتسب میں سیکریٹری طاہر رضاہمدانی بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ پولیس والوں میں سے کوئی اچھا افسر ڈھونڈنا ہو تو مشکل ہو جاتا ہے لیکن طاہر انوار پاشا جیسا بھی کوئی نہیں اور شوکت عباس جیسا پولیس افسر ملنابھی ناممکن ہے۔ ایسے لوگ پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہیں جو گھر سے عوام کی خدمت کے لیے نکلتے ہیں، انہیں بھی ہلال امتیاز سے نوازا جانا چاہیے اور ایسے لوگوں کو مثال بنا کر پیش کیا جائے تاکہ نئے آنے والے انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان کو ایک عظیم ریاست بنانے میں اپنا حصہ ڈالتے رہیں اور اس بات میںکوئی شک نہیں کہ لوٹنے والوں نے بھی کوئی کمی نہیں چھوڑی ،جی بھر کو لوٹا جس کے بدلے میں عوام غربت اور ذہنی پسماندگی کی انتہاکو پہنچی اور مجبور لوگوں نے موت کو بھی گلے لگایا۔لوگوں نے اجتماعی خود کشیاں بھی کی اور کچھ لوگوں نے اپنی غربت دور کرنے کے لیے ایک دوسرے کے گلے بھی کاٹے لیکن اس کے باوجود پاکستان ترقی کرتا رہا خواہ رفتار کچھوے کی چال سے بھی کم رہی ہو۔ اس ترقی میں بھی زیادہ تر حصہ ہماری نوجوان نسل کا ہے جنہوں نے مواقع نہ ہونے کے باوجود ہمت نہ ہاری۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہماری انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی)کے اخراجات میں عالمی سست روی کے باوجود بہت منفرد ہے۔ پاکستان مالی سال 2022-23کے دوران 2.6بلین ڈالر کی برآمدات حاصل کرنے میں کامیاب رہا ۔ عالمی رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کوئی بری کارکردگی نہیں۔ حالانکہ پاکستان نے دیگر علاقائی ممالک کے مقابلے میں آئی ٹی کی ترقی کا سفر دیر سے شروع کیا لیکن اس شعبے میں ترقی غیر معمولی رہی ۔ ترقی کرتا ہوا آئی ٹی سیکٹر نہ صرف ملک کے لیے قیمتی زرمبادلہ کماتا ہے بلکہ لاکھوں گریجویٹس کو روزگار بھی فراہم کرتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کے بورڈ آف انویسٹمنٹ (BOI) نے آئی ٹی سیکٹر پر ایک رپورٹ بھی جاری کی ہے جس کے مطابق پاکستان تیزی سے ڈیجیٹل ترقی کا سامنا کر رہا ہے اور آئی ٹی/آئی ٹی ای ایس سیکٹر ملک کے سب سے تیزی سے ترقی کرنے والے شعبوں میں سے ایک ہے جو اس کے جی ڈی پی میں تقریبا 1 فیصد کا حصہ ڈالتا ہے۔ اس سلسلہ میں پنجاب حکومت نے آئی ٹی انڈسٹری کی ترقی میں معاونت کے لیے پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ (پی ایس ای بی) کے ساتھ مل کر فیصل آباد، گجرات، جامشورو، کراچی، ملتان، پشاور، اور راولپنڈی شہروں میں سات سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارکس قائم کیے ہیں جن کا مقصد آئی ٹی سیکٹر کو سہولت فراہم کرنا اور اس کی ترقی کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا ہے۔ پاکستان آئی ٹی کے شعبے میں بے پناہ صلاحیتوں کا حامل ہے اورعالمی سطح پر آئی ٹی فری لانسنگ کے شعبے میں تعاون کرنے والے چوتھے بڑے ملک کے طور پرجانا جاتا ہے۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر