وجود

... loading ...

وجود

تیسرا کھلاڑی

منگل 22 اگست 2023 تیسرا کھلاڑی

عطا محمد تبسم

1977کے عام انتخابات میں بری طرح شکست سے دوچار ہونے کے فوراً بعد ہی اندرا گاندھی نے سیاست سے ریٹائر منٹ کا فیصلہ کرلیا تھا،وہ ان دنوں صفدر جنگ روڈپر واقع اپنی رہائش گاہ پر مقیم تھیں۔ان کو معلوم تھا کہ اب نئی حکومت ان کو اس بڑے سرکاری بنگلہ میں رہنے نہیں دیگی۔ وہ اس بنگلہ میں موجود قیمتی کشمیری قالینوں اور جمع کی ہوئی ہاتھ سے بنائی لاتعداد اشیاء کے بارے میں فکر مند تھیں۔ وہ اب ممبر پارلیمنٹ بھی نہیں تھیں۔ اس دوران اندرا گاندھی نے اپنے بڑے بیٹے راجیو گاندھی اور ان کی فیملی کو ممبئی میں کسی دوست کے پاس رہنے کیلئے بھیجا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ ان پر اب جو عتاب نازل ہونے والا ہے ، اس کی زد میں فیملی بھی آسکتی ہے ۔ وہ اس حد تک پریشان تھیں، کہ راجیو، سونیا اور ان کے بچوں راہول اور پرینکا کو ملک سے باہر بھجوانے کیلئے وہ کئی صنعت کاروں کے ذریعے پرائیویٹ جیٹ کا انتظام کرنے میں لگی ہوئی تھیں۔ اس کی سن گن جب حکومت کو لگی تو وزیر اعظم مرارجی ڈیسائی نے حکومتی جنتا پارٹی اتحاد کے روح رواں جے پرکاش نارائین سے مشورہ کیا اور رات کے اندھیرے میں دونوں اندرا گاندھی کے بنگلہ پر پہنچے اور ان کو یقین دلایا کہ ان کا ان کی فیملی سے بدلہ لینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔ یہ بات بھارت کے مختلف وزرائے اعظم کے ادوار کو طویل عرصے سے کور کرنے والی بھارت کی صف اول کی صحافی نیرجا چودھری نے اپنی کتاب PRIME MINISTERS DECIDEمیں لکھی ہے ۔
بھارت میں انتقامی سیاست اسی طرح سیاست دانوں کے خون میں رچی بسی ہے ، جیسے پاکستان کے سیاست دانوں میں ، لیکن ایک فرق تو یہ ہے کہ بھارت کی عدلیہ بہت آزاد ہے ، اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ سیاست میں کوئی تیسرا فریق دخل انداز نہیں ہے ۔ ہماری سیاست میں جو کچھ سیاستدان کرتے ہیں، وہ سب کچھ وہ نہیں ہوتا جو وہ خود سے کرتے ہیں، بہت سے فیصلے ان سے جبری کرائے جاتے ہیں۔ ہماری سیاست کا تیسرا بے نام کھلاڑی ہمیشہ سے فیصلہ کن طاقت رکھتا ہے ،خواجہ ناظم الدین پہلے وزیر اعظم تھے جن کی حکومت کا تختہ الٹنے کا اعزاز گورنر جنرل ملک غلام محمد کو حاصل ہوا تھا۔ خواجہ ناظم الدین کو اس وقت بر طرف کیا گیا تھا جب انھیں قومی اسمبلی اور مسلم لیگ کی حمایت حاصل کی گئی۔ اقتدار سے ہٹانے کے بعد ان سے انتہائی شرمناک سلوک کیا گیا۔ان سے تمام سرکاری سہولتیں فوری طور پر واپس لے لی گئی تھیں ۔ اس سے قبل ملک میں لسانی فسادات ، قادیانی فسادات ، طلباء فسادات اور گندم کی قلت کے مسائل پیدا کیے گئے تھے اور لاہور میں دو ماہ کے لیے مارشل لاء لگانے کی ریہرسل بھی کی گئی تھی۔ یہ سیاست کے تیسرے بے نام کھلاڑی تھے ۔جن کی نظر میں خواجہ ناظم الدین کی کوئی عزت نہیں تھی۔پھرامریکہ سے درآمد شدہ سفیر ، محمد علی بوگرہ کو وزیر اعظم بنا دیا گیا تھا۔قادیانی اس کھیل میں برابر کے شریک تھے ۔ محمد علی بوگرہ کا نام بھی سرظفر اللہ نے تجویز کیا تھا۔یہ پاکستان کے پہلے کٹھ پتلی وزیر اعظم تھے ، جسے “تیسرے کھلاڑی ” نے ایک ایسی حکومت کا سربراہ بنایا، جس کی اپنی کوئی اسمبلی نہیں تھی۔ ان کی حکومت کا یہ بھی کارنامہ تھا کہ ایک حاضر سروس آرمی چیف جنرل محمد ایوب خان کو وزارت دفاع کا قلمدان سونپ دیا گیا تھا۔ جن کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے امریکہ کے ساتھ مئی 1954ء میں ایک تاریخی معاہدے کے تحت نہ صرف امریکہ کو پاکستانی سرزمین پر فوجی اڈے دیے بلکہ روس کے خلاف مختلف دفاعی معاہدوں میں شرکت بھی کی تھی۔ اس کے عوض پاکستان کو بھاری فوجی اور اقتصادی امداد ملی تھی۔
پاکستان میں ابتداء ہی سے جمہوری قوت کو پنپنے نہیں دیا گیا۔ سیاست دانوں کی باہمی چپقلش نے بھی ایک مضبوط حکومت کے قیام اور ملک میں آئین اور پارلیمانی حکومت کی بالادستی قائم نہیں ہونے دی۔ بعد میں سیاست کی میوزیکل چیئر سے کئی وزیر اعظم آئے اور گئے ۔ ایوب خان کے طویل مارشل لاء اور ملک کے ایک حصے کو کھو دینے کے بعد فوج نے ایک ٹوٹے پھوٹے ملک اور 93 ہزار جنگی قیدیوں کی رہائی کے لیے بھٹو کو پہلے سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے طور پر اقتدار میں شریک کیا، لیکن اسے حقیقی اور خود مختار فیصلے کرنے سے روکے رکھا، پھر بھٹو کو بھی نشان عبرت بنا دیا گیا۔
ضیاء الحق اور مشرف کے طویل مارشل لاء کے بعد بھی ملک میں جمہوریت کا سفر جب چاہا ریل کی پٹری سے اتار دیا گیا، سیاست دان جو بھی عوام میں جڑیں پکڑتا، اسے قید و بند سے گزرنا پڑا، بے نظیر بھٹو شہید ہوئیں اور نواز شریف کو جیل جانا اور عمر قید کی سزا ء اور ملک سے بے دخلی کا سامنا کرنا پڑا۔سیاست دانوں نے بھی عافیت اس میں ڈھونڈ لی کہ وہ عوام سے رابطہ کے بجائے ان نادیدہ قوتوں کی طرف دیکھنے لگے ، جو انھیں اقتدار کے مزے کرا سکتی ہیں، جن لوگوں نے بھی ان نادیدہ قوتوں کو آنکھیں دکھانے ، یا ان کے احکامات سے رو گردانی کی، انھیں سبق سکھا دیا گیا۔اب ایک اور وزیر اعظم جیل میں ہیں، انھیں بھی ایک کے بعد ایک نئے مقدمے کا سامنا ہے ، ان کی پارٹی کو تقسیم کرنے اور اسی مٹی سے ایک نئی پارٹی تخلیق کرنے کا کام پھر کیا جارہا ہے ۔ دوسرے سیاست دان جو اقتدار کا تھوڑا سا مزا چکھ چکے ہیں، اس پر خوش ہیں ،سیاست دان کو اپنی لڑائی میں باہر وا لوں کی مدد نہیں لینی چاہئے ، نواز شریف اور بے نظیر بھٹو ایک بار میثاق جموریت پر متفق ہونے کے بعد جب ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوئے تو جمہوریت مٹی تلے دب گئی۔ اب اس کی لاش پر ایک نیا محل تیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔سیاست دانوں کو اب بھی ہوش کے ناخن لینے چاہیے ۔ انھیں متفقہ طور پر ملک میں آئین کے مطابق مقررہ نوے دن میں انتخابات کا مطالبہ کرنا چاہئے ، ورنہ جس ملک میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد ان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو نظر انداز کردیا گیا ہو۔ وہاں اقتدار سے محروم ہوجانے والے سیاست دانوں سے انتقام نہ لینا، ایک خواب ہی ہوگا۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر