... loading ...
حمیداللہ بھٹی
آئینی تقاضا یہ ہے کہ معینہ مدت سے چاردن قبل اسمبلی تحلیل کرنے کی بناپر عام انتخابات نوے روزکے اندراندرکرادیے جائیں۔ اگر اسمبلی اپنی مدت مکمل کرنے کے بعد تحلیل ہوتی تو نوے کے بجائے ساٹھ روز کے اندر انتخابات کرانا ضروری ہوتا مگر حکومت کی طرف سے چار دن قبل اسمبلی تحلیل کرنے سے ایسے قیاسات کو تقویت ملی کہ سابق حکومت ملک میں عام انتخابات کے بروقت انعقاد میں سنجیدہ نہیں بلکہ جانے سے قبل سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایسا اہتمام کرگئی ہے جس سے انتخابی عمل کا کچھ عرصہ کے لیے ملتوی ہونا یقینی ہو۔ اِس کے لیے اولین اور ٹھوس قدم یہ اُٹھایا کہ رخصت سے قبل شماریاتی دستاویزات کی منظوری دیدی۔ اب الیکشن کمیشن اسی منظوری کوجواز بنا کر ازسرِ نو حلقہ بندیاں کراناچاہتا ہے۔ اگر حکومت شماریاتی دستاویزات کی منظوری میں تاخیر نہ کرتی اور مردم شماری مکمل ہوتے ہی منظوری دے دی جاتی تو حلقہ بندیوں کے لیے الیکشن کمیشن کو مناسب وقت مل جاتا اور بروقت عام انتخابات میں کوئی امرمانع نہ رہتا ۔ویسے بھی موجودہ الیکشن کمیشن زیادہ تر فیصلے کرتے ہوئے سابق حکمران اتحاد کی رضامندی کو اولیت دیتاہے۔ عدالت ِعظمٰی کے فیصلے کے باوجود پنجاب اور کے پی کے اسمبلیوں کے انتخابات کرانے سے فرار اِس کا ثبوت ہے۔ اب بھی حکومت نے جاتے جاتے عام انتخابات میں ایک ماہ تاخیرکابندوبست کرتے ہوئے چار دن قبل اسمبلی تحلیل کردی بلکہ ساتھ ہی تاخیر سے شماریاتی دستاویزات کی منظوری دے دی جس سے آئینی تقاضے پورے کرنا کسی حدتک مشکل ہو گیا ہے۔
ملک میں پہلی بار مردم شماری ڈیجیٹل بنیادوں پر کی گئی۔ اسی بنا پر یہ ساراعمل سرعت سے سر انجام پا یا۔اِس تناظر میں حلقہ بندیوں کا کام مہینوں یا ہفتوں کے بجائے دنوں اور گھنٹوں میں مکمل ہو سکتا ہے لیکن اِس کے لیے الیکشن کمیشن کی سنجیدگی درکارہے۔ ویسے بھی جب قومی اسمبلی میں صوبوں کی نشستوں میں کوئی ردوبدل ہی نہیں ہواتو قومی اسمبلی کے حلقوں پر نظرثانی کی ضرورت ہی نہیں ۔البتہ صوبائی حلقوں میں معمولی کانٹ چھانٹ ممکن ہے جس کے لیے مہینوں پر محیط مدت شیڈول جاری کرناسمجھ سے بالاتر ہے۔ شاید اسی لیے الیکشن کمیشن کے جاری شیڈول کو مسترد کرتے ہوئے تحریکِ انصاف نے عدالتوں میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن عدالتوں میں جانے کے باوجود حالات عام انتخابات کے التوا کی طرف جاتے نظر آتے ہیں کیونکہ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار اب الیکشن کمیشن کے پاس ہے ۔ نگران سیٹ اَپ کو مالیاتی حوالے سے با اختیار بنا نا بھی عام انتخابات کو ملتوی کرنے کے جواز کے طورپر لیا جارہا ہے تاکہ موجود ہ حکومت نئی اسمبلیوں کے معرضِ وجود میں آنے تک معاشی فیصلوں میں خودمختارہو۔ الیکشن کمیشن نے انتخابی عمل کے التواکی بنیاد رکھتے ہوئے نہ صرف پرانی حلقہ بندیاں منجمد کردی ہیں بلکہ نئی پر کام شروع کرنے کے لیے کمیٹیاں تشکیل دینے کے ساتھ صوبوں اور اِدارہ شماریات سے آبادی کے نقشے اور دستاویزات طلب کرلی ہیں۔ مزیدیہ کہ سیاسی جماعتوں کو عطیات کے ذرائع ، اثاثے اور واجبات کی تفصیلات جمع کرانے کی ہدایات جاری کردی ہیں جسے فہمیدہ حلقے انتخابی عمل میں تاخیرسے تعبیر کرتے ہیں یہ طرزِ عمل آئینی تقاضوں کے مطابق نہیں سیاسی تنائو اور عدمِ استحکام کا تقاضا ہے کہ ملک میں عام انتخابات بروقت ہوں یہ نتائج آئینی تقاضے پورے کرنے سے ہی ممکن ہیں۔
نگران سیٹ اَپ میں ایسے چہروں کی وافر تعداد ہے جن کے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں سے قریبی روابط ہیں جو غیرجانبداری کے تقاضوں کومشکوک بناتے ہیں۔ نگران حکومت اقدامات اور فیصلوں سے قبل سابق حکومت کو اعتماد میں لے کر چلنے اور مرضی و منشاکے مطابق رہنے کی سوچ پر کاربند دکھائی دیتی ہے۔ شہباز شریف کے ساتھ بطور پرنسپل سیکریٹری خدمات سرانجام دینے والے شریف خاندان کے بااعتماد بیوروکریٹ سید توقیر شاہ اب بھی نہ صرف اپنے عہدے پر برقرارہیںبلکہ قرائن سے لگتا ہے کہ وہی نگران وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ کے ساتھ آئندہ بھی خدمات سرانجام دیتے رہیں گے۔ باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے کی میاں شہباز شریف کی طرف سے نگران وزیرِ اعظم کو سفارش کی گئی ہے۔ سابق وزیرِ اعظم کے مشیر احد چیمہ اور پروٹو کول آفیسر محب علی کے متعلق بھی ہدایت کی گئی ہے کہ انھیں عہدوں سے نہ ہٹایا جائے۔ اسی بناپر تینوں اپنے عہدوں پر اب بھی موجود ہیں جس سے خدشہ ہے کہ نگران حکومت کی غیر جانبداری مشکوک ہونے کے ساتھ آئینی تقاضے پورے کرنے میں رکاوٹیں آسکتی ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جانبداری مخفی رکھنے کی کوشش بھی نہیں کی جارہی۔ کبھی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات ہوتی ہے تو کبھی کسی اور کو اعتماد میں لیا جارہا ہے اور یہ سب کچھ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہو رہا ہے۔ سابق حکومت کا مفاد یہ ہے کہ وہ رخصت ہونے سے قبل مہنگائی کے جو پہاڑ کھڑے کرگئی ہے اُن کی وجہ سے عوام میں شدید نفرت ہے اسی لیے انتخابی عمل کے التوا کی متمنی ہے جوکہ آئینی تقاضوں کے منافی ہے۔
عام انتخابات کاایسا آزادانہ اور منصفانہ انعقاد آئینی تقاضا ہے جن کی شفافیت پر کوئی اُنگلی نہ اُٹھا سکے مگر حالات و واقعات سے لگتا ہے کہ من پسند چہروں کو دوبارہ آگے لانے کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ اِس کے لیے کوشش کی جارہی ہے تا کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے علاوہ کوئی اورجماعت جیت کر آگے نہ آسکے ۔ایسا بندوبست کرنا آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی روح کے منافی ہے ۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ملک کی تمام جماعتوں کو انتخابی عمل میں شرکت کرنے اور مُہم چلانے کی آزادی دی جائے لیکن ملکی حالات سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا بلکہ ایک گھٹن کی سی فضا ہے۔ نگران حکومت تشکیل پانے کے باوجود حالات اِس نہج پر ہیں کہ ملک کا کوئی شہری تحریکِ انصاف کا جھنڈا نہیں اُٹھا سکتا۔ عمران خان کی تصویر لگانا بھی جرم ہے۔ پی ٹی آئی کے امیدواروں اور عہدیداروں کی گرفتاریوں کے لیے پولیس شب و روز چھاپوں میں مصروف ہے۔ جبکہ قیادت جیلوں میںبند ہے۔ اِن حالات میں ظاہر ہے آزادانہ اور منصفافہ انتخابات ممکن ہی نہیں۔ بلکہ زیادہ امکان ہے کہ سابق حکمران جماعت تحریکِ انصاف یا تو انتخابی عمل کا بائیکاٹ کردے یا یا سرے سے نتائج کوہی تسلیم کرنے سے انکاری ہو جائے۔ جس سے ملک کے جمہوری تشخص کو دھچکا لگ سکتاہے جس کے نتیجے میں افراتفری اور سیاسی انتشار میںاضافہ ہو گا۔ پی ڈی ایم حکومت ناکامیوں کی ایک بھاری بھرکم داستان رقم کرنے کے بعد رخصت ہوئی ہے۔ اسی لیے اُسے تحریک ِ انصاف کی جیت کا خوف ہے ۔ یہ خوف غیر حقیقی بھی نہیں مگر ہر قیمت پر انتخابات کے التواکی سازشیں جمہوری سوچ نہیں پی ڈی ایم حکومت نے عوام کوجو دن رات مہنگائی کے تازیانے لگائے ہیں۔ انھیں عوام بھلانہیں سکتی مگر یہ تاخیری حربے جیت کو یقینی بنانے اور سیاسی استحکام کی توقعات پوری نہیں کر سکتے ۔