وجود

... loading ...

وجود

باپ کی حکمرانی

منگل 15 اگست 2023 باپ کی حکمرانی

عطا محمد تبسم

باپ پھر باپ ہی ہوتا ہے ، اس کے حکم سے تو سرتابی ممکن نہیں ہے ، یوں بھی ہمارے معاشرے میں باپ ہی کی حکمرانی ہوتی ہے ، باپ کے فیصلے پر سب کو سر جھکانا ہی پڑتا ہے ، جو ناخلف باپ کے فیصلوں سے سرتابی کرتے ہیں ، ان کی دنیا اور آخرت دونوں ہی خراب ہوتی ہے۔ یوں بھی ہمارے سیاست دانوں نے کئی برسوں سے اپنے ” مائی باپ ” پر ہی سارا بوجھ ڈالا ہوا ہے ، قرضوں کی ضمانت وہ دیں۔ ملک کی خارجہ پالیسی وہ بنائیں، سرحدوں کی حفاظت وہ کریں۔ ایٹمی ہتھیاروں کی نگہبانی وہ کریں ۔ ملک کی سا لمیت کے لیے وہ دن رات ایک کریں۔ سیاست دان ایک دوسرے سے لڑ پڑیں تو وہ صلح کرائیں۔ کس کو کس پارٹی میں جانا چاہیے ۔ کب پارٹی چھوڑ دینی ہے ۔ کب نئی پارٹی بنانی ہے ۔ پارلیمنٹ میں جو گالی گلوچ ہوجائے اور سیاست دان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جائیں تو انھیں بندے کا پتر بنانے کے لیے مل ملیاں کرانا، پھر الیکشن کرانا، ججوں صحافیوں میڈیا کو حدود میں رکھنا۔ صحافیوں کو خبر لکھنے کا سلیقہ سکھانا۔ اینکروں کے لیے موضوع کا انتخاب کرنا۔ کس سیاست دان کا نام لینا ہے اور کس کا نام نہیں لینا، کونسا چینل چلنا ہے اور کونسا بند ہونا ہے ۔ غرض مائی باپ کے ذمہ اس قدر کام لگادئیے ہیں کہ اب وہ اپنا اصل کام بھی بھولتے جارہے ہیں۔ سیاست دان سارے کے سارے نکھٹو، نکمے ، کام چور ، بدمعاش، کرپٹ،ملک دشمن ہیں۔اب ایسے ملک دشمنوں بد دیانت غیر محب وطن لوگوں کے ہاتھ میں ملک کی قیادت تو نہیں دی جاسکتی۔ بھلے سے عوام ان کے حق میں ووٹوں سے صندوقچے بھر دیں۔ ووٹ کی حفاظت کی ذمہ داری اور ووٹ کی گنتی کی حتمی منظوری تو انھی مائی باپ سے لینی ہے ۔ ایک ووٹ کی اکثریت سے اگر سینیٹ کا چیئرمین بن جائے تو یہ بھی مائی باپ ہی کا فیصلہ ہے ۔ اور اگر ان کی آشیر باد سے ملک کے نگراں وزیراعظم کی قسمت چمک اٹھے تو یہ بھی خوش بختی ہے ۔
آج کل یوم آزادی پر پوری قوم خوش ہے ، بچہ سقہ کی حکومت ختم ہوئی، تاریخ میں یہ حکومت ڈیڑھ دن کی حکومت تھی، جو بادشاہ نے ایک سقے کو عنایت خسروانہ سے عطا کی، بچہ سقہ یہ سوچتا رہا کہ وہ اس حکومت میں ایسا کون سا کام کرجائے کہ تاریخ میں اس کا نام محفوظ ہوجائے ، لوگ یاد کریں ، سو اس نے چمڑے کے سکہ جاری کردیے ، اسے چمڑے سے محبت تک وہ مشکیزے سے پانی بھرتا تھا ، اور مشکیزہ چمڑے کا تھا، سو یوں تاریخ میں بچے سقے کی حکومت اس کارنامے پر ہمیشہ کے لیے زندہ ہوگئی، ہماری ڈیڑھ سالہ بچہ سقے کی حکومت میں ایک تاریخی کام تو یہ ہوا کہ شہباز شریف کا نام نامی وزیر اعظم کی فہرست میں لکھا گیا، پھر ان کی لاؤ لشکر والی کابینہ بھی پوری طرح خزانے کی صفائی کرتی رہی، وہ جاتے جاتے آئی ایم ایف کے ایسے پھندے میں قوم کو گرفتار کرگئے کہ اب ہر شہری کو دن میں تارے نظر آرہے ہیں، بجلی گیس پیٹرول آٹا، دال، دودھ سب کو بھاؤ معلوم ہوگیا۔ پھر قانون سازی کی ایسی جلدی اور مارا ماری تھی کہ ایک ہی دن میں 122 قوانین کو پارلیمنٹ اور ایوان بالا سینٹ سے منظور کرالیے ۔ اس سب میں باپ کی شفقت اور اس کی کرم فرمائی شامل رہی، کیونکہ ملک میں باپ کی مرضی کے بغیر اب پتہ بھی نہیں ہل سکتا، لیکن سیاست دانوں کو جو داغ لگ گیا ہے ، وہ اس کی تلافی بہت عرصے تک نہ کر پائیں گے ۔ ان کے پہرے اور ان کو حفاظت میں رکھنی والی آہنی دیواریں ہٹی ہیں، اب انھیں عوام کے پاس جانا ہے ، اور عوام ان کا کیا حشر کریں گے ، اس کا اندازہ کچھ کچھ ہونے لگا ہے ۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ ہمارے شاہ صاحب ابھی ابھی فارغ ہوئے ہیں۔ لیکن جاتے جاتے ٹرین حادثے کے بعد جائے حادثے کے ہیلی کاپٹر جائزہ اور علاؤہ مکینوں سے خطاب کے موقع پر انھیں جس انداز سے لوگوں نے رخصت کیا ہے ۔ اس سے انھیں زمانے کی بے مروت ہونے کا اندازہ ہوگیا۔ شاہ صاحب نے بہت مشکل سے عزت بچائی۔ ورنہ لوگوں نے تو شاہ صاحب پر بہت پھول برسائے ۔ یہ الگ بات کے یہ پھول کسی جادو کے زور پر پتھروں کی شکل اختیار کرگئے ۔ مفاد پرست اور مائی باپ کے لاڈلے سیاست دانوں سے نفرت اب عوام کے دلوں میں رچ بس رہی ہے ۔ وہ موقع کے انتظار میں ہیں۔ اب انھیں یہ موقع کب ملتا ہے ۔ یہ ان کی قسمت۔ آنے والا الیکشن بہت انوکھے اور حیرت ناک نتائج لائے گا۔ یہ ایک طوفان ہوگا۔ فی الحال تو مائی باپ نے اس طوفان کے آگے بند باندھ رکھا ہے ۔ لیکن جب ساون برسے گا تو پھر یہ بندھن کام نہیں آئیں گے اور آنے والا طوفان سب کچھ بہا لے جائے گا۔
بابائے قوم سے پاکستانی عوام کو بے حد عقیدت اور محبت ہے ، وہ اپنے قائد سے محبت کا اظہار صرف قومی تہوار اور یوم آزادی اور یوم پاکستان پر نہیں بلکہ ہر روز کرنا چاہتے ہیں، سندھ حکومت کو مزار قائد اعظم پر آنے والے لوگوں کو فاتحہ خوانی سے روکنے کا کوئی جواز نہیں ہے ، قائد کے مزار پر جو شان و شوکت ان کے گارڈ کے متعین ہونے اور گارڈ کی تبدیلی کے مناظر سے ہوتی تھی، وہ بچوں اور بڑوں کے لیے ایک خوش کن منظر تھا۔ اس سال یوم آزادی پر قوم کو بابائے قوم کے مزار پر لگائی جانے والی یہ پابندی ختم کرنی چاہیے ، 76 سال میں ہم قائد اعظم کے مزار سے منسلک جو منصوبے تھے ، ان کی تکمیل نہیں کر سکے ، قائد اعظم کے مزار کے سامنے پلاٹ کی حالت دیکھنے والی ہے ، یہاں نشئی اور ہیرونچی پھرتے ہیں، ہمیں قائد کے شایان شان ایک شاندار کمپلیکس تعمیر کرنا چاہئے ، جہاں تحریک پاکستان، سے متعلق ایک شاندار میوزیم لائبریری ہونی چاہئے ۔ پہلے کی طرح عوام کو یہ موقع ملنا چاہئے کہ وہ مزار پر حاضری دیں ، اور فاتحہ خوانی کرسکیں۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر وجود جمعه 22 نومبر 2024
علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر