وجود

... loading ...

وجود

یوم آزادی مناتے ہوئے آزادی کے مقاصد پر غور کیا جائے!

پیر 14 اگست 2023 یوم آزادی مناتے ہوئے آزادی کے مقاصد پر غور کیا جائے!

پاکستان ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے اپنے 76 برس مکمل کرچکا ہے پاکستان کو بنے 75 برس ہو چکے۔ آج دنیا بھر میں پاکستانی آزادی کی 76 ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ اس لحاظ سے پاکستانیوں کے لیے یہ آزادی کا مہینہ ہے۔آزادی اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اللہ کا ہم پر بہت بڑافضل ہے کہ اُس نے ہمیں یہ سر زمین عطا فرمائی اور اس خطہ کو چاروں موسموں،میدانی و صحرائی زمین اورپہاڑی سلسلوں سمیت معدنی وسائل سے مالامال فرمایا ہے۔کم و بیش 200سالہ غلامی کے بعد آزادی کا سویرا طلوع ہو، یہی وجہ ہے کہ ا اس دن دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانی اپنے اپنے انداز میں خوشی کا اظہار کررہے ہیں۔ اس نعمت خداداد پر اللہ کریم کا شکر ادا کررہے ہیں۔ فضائیں ملی نغموں اور قومی ترانوں کی دھنوں سے گونج رہی ہیں، ا سکولوں کے بچے اور بچیاں ”ہمارا پرچم پیارا پرچم۔ اس پرچم سائے تلے۔ ہم ایک ہیں،ہم ایک ہیں“ کے گیت گا رہے ہیں۔ہر طرف ”عیاں ہیں خون شہیداں کی عظمتوں کے نقوش“ اور ”زبان لالہ و گل پر ہے داستان وطن“ جیسے ملی نغموں کی دلفریب آوازیں کانوں میں رس گھول رہی ہیں۔ ہر طبقہ زندگی کے لوگ اس دن کو جوش و خروش کے ساتھ منارہے ہیں۔ بڑی بڑی کانفرنسوں اور جلسوں کا اہتمام کر کے مذہبی، سماجی اور سیاسی تنظیمیں آزادی کے قائدین کو خراج تحسین پیش کر رہی ہیں۔ ہر محب وطن پاکستانی وطن عزیز کی بقاو سلامتی کی دعائیں مانگ رہا ہے۔ آج کا یوم آزادی یعنی14 اگست ہمارے آئین کو نافذ العمل ہونے کی گولڈن جوبلی بھی ہے۔ یہ وہ دن تھا جب ذوالفقار علی بھٹو نے اس ملک کو ایک مکمل آئین دیا جو 19 اپریل 1973 کو نافذالعمل ہوا۔اب پاکستان اپنے دورکے اس سفر میں ہے جس کی تفسیر پاکستان کے آئین کے آرٹیکل نمبر1 میں ہے۔ آرٹیکل نمبر 1 کو اگر باقی ماندہ آئین کے آرٹیکل کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس میں ساتھ ساتھ ہندوستان اور پاکستان بنانے والی پارٹیوں کی جنرل باڈی کے فیصلوں کو بھی کو مد نظر رکھا جائے۔ پاکستان اور ہندوستان کی سپریم کورٹ نے آئین کی تشریح کرتے وقت کانگریس اور مسلم لیگ کے ایسے کئی اجلاسوں کا ذکرکیا ہے۔اب اگر ہم اپنی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمارا یہ سیاسی سفر ہمارے آئین کے گرد ہی گھوم رہا ہے۔ ہمارے آئین کا وجود ہماری آزادی کا دوسرا رخ ہے، ظاہر ہے کہ پاکستان ہے تو آئین بھی ہے اور اگر پاکستان نہیں تو آئین کا وجود بھی نہیں۔آئین کا بننا بھی ایک سائنٹیفک سبجیکٹ ہے اور اس سبجیکٹ کے سائنسی بننے میں جو ہلچل مچی وہ دنیا کے پہلے تحریری آئین نے مچائی، جب4 مارچ 1789 کو امریکا کا تحریری آئین وجود میں آیا اور نافذ العمل ہوا۔ ایک ایسا مختصر آئین جو اس بدلتی دنیا میں 240 سال تک نہ صرف نافذ العمل رہا بلکہ آج بھی اس کا وجود تر و تازہ ہے۔ امریکہ کے اس آئین نے بھی ماڈرن امریکہ میں بڑے نشیب و فراز دیکھے اور ان نشیب و فراز سے گزر کر یہ دنیا کا ایک منفرد آئین ٹھہرا۔ مگر اس آئین کا بنیادی ڈھانچہ تبدیل نہیں ہوا۔ یہ آئین اب بھی وہ ہی ہے، دنیا کا مختصر ترین آئین۔بھارت کا آئین ایک جامع اور طویل آئین ہے اور ایک بہترین آئین کے حساب سے اپنی پہچان رکھتا ہے۔ آئین ایک مکمل وجود کا تصور رکھتا ہے، آئین کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اس کا بننا اور مرتب ہونا، اس ریاست کی تمام نسلوں، رنگ و زبانوں، ثقافت اور تاریخ کا مرکب ہوتا ہے جو دستاویزات کی شکل میں جمع ہوتا ہے اور پھر اس قوم کے تمام نمائندگان ان دستاویزات کو آئین کی شکل دیتے ہیں اور ساتھ چلنے کا عہد کرتے ہیں۔پاکستان کا آئین اپنے آرٹیکل1 میں اس ریاست کو ری پبلک اور وفاقی ریاست کہتا ہے اور جغرافیائی اعتبار سے اس کی تشریح کرتا ہے۔ آئین کی رو سے ہمارا قومی مذہب اسلام ہے۔ آئین کے آرٹیکل ون کو اگر آرٹیکل20کی رو سے دیکھا جائے تو یہ آئین، پاکستان میں بسے تمام مذاہب کے لوگوں کو مکمل آزادی دیتا ہے۔
آج یوم آزادی مناتے ہوئے ہمیں غور کرنا چاہیے کہ آزادی ہمیں کس سے حاصل کرنی تھی؟ ہمیں کافرانہ نظام سے،سود کے معاشی نظام سے آزادی چاہیے تھی، عدلیہ میں وہ قانون چاہیے تھا جو اللہ کے رسول نے اللہ کی کتاب کی صورت میں عطا فرمایا۔سیاسیات کا وہ راستہ چاہیے تھا جو آزادانہ ہے۔جو اللہ اور اس کے رسول نے عطا فرمایا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ 8 دہائیوں میں بھی قیامِ پاکستان کے محرکات اور مقاصد بہت سے حوالوں سے پورے نہیں ہوئے، ہم ابھی تک اپنے سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کا ہی تعین نہ کر سکے۔ ہر دور میں ہماری تغیر پزیر پالیسیوں میں موجود تضادات، الجھاؤ، انتشار اور بے یقینی کی کیفیت نے ہماری اجتماعی سوچ و شعور کو پختہ ہی نہ ہونے دیا۔ نہ صرف قیامِ پاکستان کے مقاصد بلکہ بنیادی نظریے پر بھی شکوک و شبہات کے سائے پھیلائے گئے، اس سے بھی بڑھ کر دستور، قانون اور اجتماعی اخلاقیات کے ہر اصول و ضابطے کو پارہ پارہ کیا گیا۔ نتیجتاً حصول آزادی کے76 سال بعد بھی ہم اپنی آزادی کی بقاء اور نظریاتی تشخص کی حفاظت کی جد و جہد کر رہے ہیں۔ ہمیں بحیثیت قوم غور کرنا چاہیے کہ ہماری منزل کیا تھی، ہم کس سمت میں چلے تھے۔ اس عرصے میں اگرہم نے کوئی کمائی کی تو کیا، کچھ گنوایا تو کیا؟ گویا ہمارا میزانیہ کیا ہے۔ پھر مزید یہ کہ داخلی اور بین الاقوامی اعتبار سے ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں اور حالیہ بحرانوں میں بچاؤ کا کوئی راستہ ہے کہ نہیں؟ اگر ہے تو کون سا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے 76 برس کے سفر میں بہت کچھ پایا ہمیں وطن عزیز ملا، اپنی قومی شناخت ملی اور پاکستان عالم اسلام کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن گیا۔ قیام پاکستان کے وقت ملک میں اکا دکا صنعتیں اور چھوٹے کارخانے تھے اور کوئی بڑی قابل ذکر صنعت نہیں تھی، جب کہ آج ہماری ٹیکسٹائل کی صنعت دنیا میں ایک اہم مقام حاصل کر چکی ہے، آج پاکستان دفاعی لحاظ سے ایک مضبوط ملک ہے، ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی دنیا میں بہترین ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس امر سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ ہماری کارکردگی اس سے بہتر ہو سکتی تھی اگر ہم اخلاص سے ملک کی ترقی کیلئے کوشش کرتے، دراصل ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینے سے ہم آج مشکلات کا شکار ہوئے۔ سیاسی سطح پر پورے 76 سال میں افراتفری اور عدم استحکام کا دور دورہ رہا۔ کبھی حکومتیں بن رہی ہیں، بگڑ رہی ہیں، ایک تکون ہے جو حرکت کرتی ہے، اس کا کبھی ایک رخ سامنے آ گیا کبھی دوسرا رخ سامنے آگیا۔ہم سیاسی سطح پر ایک نابالغ اور اپاہج قوم کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ معاشی سطح پر ہمارا ریکارڈ بد ترین ہے، بھاری بھر کم بیرونی قرضوں کا بوجھ قوم کے کندھوں پر ہے، ہر ہر پاکستان ڈھائی لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہے۔ امن و امان کی سطح پر نقضِ امن، قتل، ڈکیتی، رہزنی اور اغوائبرائے تاوان معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔ شرح خواندگی ہمارے ساتھ آزاد ہونے والی دوسری اقوام کے مقابلے میں بہت کم ہے، نظام تعلیم عصری اعتبار سے جوہر قابل پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ تعلیم اب یہاں ایک کاروبار اور نفع بخش صنعت بن چکی ہے۔ اخلاقی سطح پر جھوٹ، وعدہ خلافی اور خیانت انتہائی عروج پر ہیں۔ ہم صنعتی ترقی کی وہ سطح حاصل نہیں کر سکے جہاں دنیا کے دوسرے ممالک پہنچ چکے ہیں۔ غربت، بے روزگاری، مہنگائی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ بلا امتیاز سستا اور فوری انصاف، پینے کا صاف پانی، تعلیم و صحت سمیت بنیادی سہولتیں وطن عزیز کے تمام شہریوں کو میسر نہیں۔ موجودہ غیر یقینی صورتحال میں صنعتکاری کا عمل رک گیا ہے جس سے ملازمتوں کے مواقع محدود ہو گئے ہیں۔اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ آج کے دن ہم جشن آزادی مناتے ہوئے اپنی صفوں کو درست کرنے کی سعی کرنے کاعہد کریں۔ہمیں آج یہ تسلیم کرنا ہوگاکہ ہمیں ابھی مکمل آزادی کی جدوجہد کرنا ہوگی اور جمہویت کو فروغ دے کر اہل قیادت کو آگے لانا ہوگا۔ اس آزادی کا ذکر قائد اعظم نے 11 اگست کو اپنی تقریر میں واضح انداز میں کیا، جو انھوں نے آئین ساز اسمبلی میں کی تھی۔ہمارے سیاسی پس منظر پر سوالیہ نشان یہ ہے کہ کیا ہم گزشتہ 75 سال میں اپنے آئین کے مطابق چل سکے ہیں؟ بھارت کا آئین 70 سال پہلے آیا مگر ایک دفعہ بھی بھارتی عدالتوں نے نظریہ ضرورت کا استعمال نہیں کیا، لیکن اس ملک میں نظریہ ضرورت کے تحت ہماری اعلیٰ عدالتوں کو استعمال کیا گیا۔ یہ ایک مفروضہ ہے کہ عدالتیں آئین کی پاسداری کی محافظ ہوتی ہیں لیکن اگر عوام ہی اس عمل پر کوئی ردِ عمل نہ دیں تو کچھ نہیں ہو سکتا۔حکومتوں کے نادر شاہی خیالات کے خلاف عوامی مزاحمت کی تازہ مثال اسرائیل ہے۔ اسرائیل میں ان کے وزیر اعظم نتن یاہو جو کہ ایک دو تہائی اکثریت بھی رکھتے ہیں، آئین میں ترمیم لانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ حکومتی فیصلوں کے خلاف کوئی بھی اسرائیل کی عدالت میں نہ جاسکے۔ اسرائیل کی عدالتوں کو آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ اور حکومت کے تابع کردیا جائے۔ اس حکومتی فیصلے کے خلاف، اسرائیل میں ایک بھرپور رد عمل سامنے آیا، اسرائیل کی سول سوسائٹی، سابق سربراہانِ موساد، اسرائیل کی افواج، ایک ہزار سے زائد جنگی پائلٹ سب نے یہ کہہ دیا ہے کہ وہ کسی آمر کے حکم کے تابع نہیں ہیں اور نہ ہی وہ ان کے حکم کے تحت کام کریں گے۔نیتن یاہودراصل اس طرح کے قانون کے ذریعے اسرائیل کے عوام کے مذہبی جذبات کو ابھارکر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتے تھے، اپنا ووٹ بینک بنانا چاہتے تھے، وہ عدالتوں کے طاقتور ہونے سے ڈرتے ہیں لیکن اسرائیل کے عوام نے ان کی اس خواہش کی راہ میں ایک مضبوط دیوار کھڑی کردی ہے۔ 1820 میں امریکا میں ایسے قوانین بنائے کہ صدر،کانگریس اور سینیٹ ایک طرف اور عدالتیں دوسری طرف، ایسے قوانین بنائے گئے جن سے عدالتوں کے اختیارات کم ہوں۔ اس وقت امریکہ کے چیف جسٹس سر جان مارشل تھے۔ سر جان مارشل نے پہلی مرتبہ دنیا میں تحریری آئین کی تشریح کی۔امریکہ کے آئین کو، برطانیہ کے غیر تحریری آئین سے ایک مختلف شکل میں پیش کیا اور یہ بھی کہا کہ اس آئین کے خلاف جو بھی قانون آیا تو اس قانون کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی۔ اس طرح امریکہ کے تینوں ستونوں یعنی پارلیمنٹ، عدلیہ اور مقننہ میں طاقت کا توازن پیدا ہوا۔ ہر ستون اپنی طاقت میں توازن رکھتا ہے اورکوئی دوسرا ستون پہلے ستون کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرسکتا۔پارلیمنٹ کا کام ہے قانون سازی کرنا، عدلیہ کا کام ہے قانون کی تشریح کرنا اور مقننہ کا کام ہے اپنے اختیارات کے تحت اس قانون کو نافذکرنا اور عمل کروانا۔پاکستان میں طاقت کے تینوں ستونوں میں سب سے کمزور پارلیمنٹ ہے اور اب شدید ضرورت ہے کہ اس بات کو زیر بحث لایا جائے کہ کس طرح اورکیا اقدامات کیے جائیں کہ پارلیمنٹ کو طاقت کے توازن میں عدلیہ کے برابر لایا جائے۔ عدلیہ اپنے اختیارات کے دائرے میں رہ کر قانون اور آئین کی تشریح کرے اور پارلیمنٹ اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر قانون سازی کرے نہ کہ عدلیہ کے اختیارات میں مداخلت کرے۔غیر جمہوری قوتوں کی باربار کی مداخلت سے معاشرے میں خطرناک حد تک بگاڑ پیدا ہوا بلکہ انصاف کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ غیرجمہوری قوتوں نے اپنی اشرافیہ کو مزید طاقتور بنایا، ریاست کے وسائل کا رخ ان کی جانب موڑ دیا گیا۔ حب الوطنی کی من پسند تشریح بنائی گئی، پڑھے لکھے طبقے کو گمراہ کیا گیا اور انتہا پسندی کے بیانیے کو ہوا دی گئی۔ یہاں تک کہ ملک کو اس نہج تک پہنچا دیا گیا کہ اب یہ ملک دیوالیہ ہونے کی مشکلات میں ہے اور اپنی بقاکی جنگ لڑ رہا ہے۔آج 14 اگست کویوم آزادی مناتے ہوئے ہمیں عہد کرنا چاہئے کہ آئین ہے تو پاکستان ہے اور آئین نہیں تو پاکستان نہیں۔قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاکستان میں سیاسی، معاشی اور سماجی اعتبار سے غیر یقینی صورت حال رہی ہے، آج ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ کیا ہم اس بات کا جائزہ لینے کے لیے بھی تیار ہیں کہ سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر ہم پہلے کہاں تھے اور اب کہاں ہیں؟
٭٭٭


متعلقہ خبریں


امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود - پیر 08 جولائی 2024

مولانا محمد سلمان عثمانی حضرت سیدناعمربن خطاب ؓاپنی بہادری، پر کشش شخصیت اوراعلیٰ اوصاف کی بناء پر اہل عرب میں ایک نمایاں کردار تھے، آپ ؓکی فطرت میں حیا ء کا بڑا عمل دخل تھا،آپ ؓ کی ذات مبارکہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ نبی مکرم ﷺ خوداللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا مانگی تھی ”...

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود - بدھ 01 مئی 2024

بھارت میں عام انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی اختتام کے قریب ہے، لیکن مسلمانوں کے خلاف مودی کی ہرزہ سرائی میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جارہاہے اورمودی کی جماعت کی مسلمانوں سے نفرت نمایاں ہو کر سامنے آرہی ہے۔ انتخابی جلسوں، ریلیوں اور دیگر اجتماعات میں مسلمانوں کیخلاف وزارت عظمی کے امی...

نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود - بدھ 13 مارچ 2024

مولانا زبیر احمد صدیقی رمضان المبارک کو سا ل بھر کے مہینوں میں وہی مقام حاصل ہے، جو مادی دنیا میں موسم بہار کو سال بھر کے ایام وشہور پر حاصل ہوتا ہے۔ موسم بہار میں ہلکی سی بارش یا پھو ار مردہ زمین کے احیاء، خشک لکڑیوں کی تازگی او رگرد وغبار اٹھانے والی بے آب وگیاہ سر زمین کو س...

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود - منگل 27 فروری 2024

نگران وزیر توانائی محمد علی کی زیر صدارت کابینہ توانائی کمیٹی اجلاس میں ایران سے گیس درآمد کرنے کے لیے گوادر سے ایران کی سرحد تک 80 کلو میٹر پائپ لائن تعمیر کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ اعلامیہ کے مطابق کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے پاکستان کے اندر گیس پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی،...

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود - هفته 24 فروری 2024

سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر گزشتہ روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر جسے اب ا یکس کا نام دیاگیاہے کی سروس بحال ہوگئی ہے جس سے اس پلیٹ فارم کو روٹی کمانے کیلئے استعمال کرنے والے ہزاروں افراد نے سکون کاسانس لیاہے، پاکستان میں ہفتہ، 17 فروری 2024 سے اس سروس کو ملک گیر پابندیوں کا سامنا تھا۔...

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود - جمعه 23 فروری 2024

ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جنوری میں مہنگائی میں 1.8فی صد اضافہ ہو گیا۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ شہری علاقوں میں مہنگائی 30.2 فی صد دیہی علاقوں میں 25.7 فی صد ریکارڈ ہوئی۔ جولائی تا جنوری مہنگائی کی اوسط شرح 28.73 فی صد رہی۔ابھی مہنگائی میں اضافے کے حوالے سے ادارہ ش...

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف وجود - پیر 19 فروری 2024

عالمی جریدے بلوم برگ نے گزشتہ روز ملک کے عام انتخابات کے حوالے سے کہا ہے کہ الیکشن کے نتائج جوبھی ہوں پاکستان کیلئے آئی ایم ایف سے گفتگو اہم ہے۔ بلوم برگ نے پاکستان میں عام انتخابات پر ایشیاء فرنٹیئر کیپیٹل کے فنڈز منیجر روچرڈ یسائی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے بیرونی قرض...

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود - جمعرات 08 فروری 2024

علامہ سید سلیمان ندویؒآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تعلیم او رتزکیہ کے لیے ہوئی، یعنی لوگوں کو سکھانا اور بتانا اور نہ صرف سکھانا او ربتانا، بلکہ عملاً بھی ان کو اچھی باتوں کا پابند اور بُری باتوں سے روک کے آراستہ وپیراستہ بنانا، اسی لیے آپ کی خصوصیت یہ بتائی گئی کہ (یُعَلِّ...

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق وجود - بدھ 07 فروری 2024

بلوچستان کے اضلاع پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی امیدواروں کے دفاتر کے باہر دھماکے ہوئے ہیں جن کے سبب 26 افراد جاں بحق اور 45 افراد زخمی ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق بلوچستان اور خیبر پختون خوا دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں ہیں، آج بلوچستان کے اضلاع پشین میں آزاد امیدوار ا...

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر  کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں وجود - منگل 06 فروری 2024

مولانا محمد نجیب قاسمیشریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق کی مکمل طور پر ادائیگی کرے۔ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے قرآن وحدیث میں بہت زیادہ اہمیت، تاکید اور خاص تعلیمات وارد ہوئی ہیں۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،...

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

پاکستان میں صارفین کے حقوق کی حفاظت کا کوئی نظام کسی بھی سطح پر کام نہیں کررہا۔ گیس، بجلی، موبائل فون کمپنیاں، انٹرنیٹ کی فراہمی کے ادارے قیمتوں کا تعین کیسے کرتے ہیں اس کے لیے وضع کیے گئے فارمولوں کو پڑتال کرنے والے کیا عوامل پیش نظر رکھتے ہیں اور سرکاری معاملات کا بوجھ صارفین پ...

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

خبر ہے کہ سینیٹ میں عام انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد پر توہین عدالت کی کارروائی کے لیے دائر درخواست پر سماعت رواں ہفتے کیے جانے کا امکان ہے۔ اس درخواست کا مستقبل ابھی سے واضح ہے۔ ممکنہ طور پر درخواست پر اعتراض بھی لگایاجاسکتاہے اور اس کوبینچ میں مقرر کر کے باقاعدہ سماعت کے بعد...

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر