... loading ...
حمیداللہ بھٹی
قومی اسمبلی اوروفاقی کابینہ تحلیل ہونے کے بعد ملک نگران سیٹ اَپ کی تیاریوں کے دوراہے پر ہے تصویرکا روشن پہلو بس یہ ہے کہ ہزارہاخدشات کے باوجود بالآخر قومی اسمبلی اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہو ہی گئی لیکن کیا اِس کی کارکردگی عوامی امنگوں کے مطابق تھی اوروہ عوامی مفادات کے تحفظ میں کامیاب رہی؟اِس حوالے سے ہاں میں جواب دینا حقائق کوجھٹلانے کے مترادف ہے کیونکہ پرویز مشرف کے دورمیں بھی عوامی جان ومال کی ایسی بے قدری نہیں دیکھی گئی ۔تحلیل ہونے والی اسمبلی کے آخری برس سے شروع گرفتاریاں ، تشدد اور سزائوں کا لامتناہی سلسلہ ابھی تک تھمنے کانام نہیں لے رہا۔ سیاستدانوں ،کاروباری اور اعلیٰ آفیسران کو بے دریغ تختہ مشق بنایا گیا ملکی تاریخ میں کئی دہائیوں بعد حکومتی ایما پراِتنے بڑے پیمانے پر اختلافِ رائے رکھنے والے پابندِ سلاسل ہوئے مگرستم ظریفی یہ کہ انسانی حقوق کی پامالی کو پی ڈی ایم کی حکومت ،قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ کی طرف سے انصاف قرار دیا جاتا رہا۔ عوامی جان و مال کے حوالے سے اقدامات یا قانون سازی کے حوالے سے سبکدوش اسمبلی اور حکومت کی کارکردگی کوانتہائی پست بلکہ مایوس کُن کہہ سکتے ہیں جس نے شہری آزادیوں اور اظہارِ رائے کوجُرم قراردینے میں کبھی عار محسوس نہیں کی ۔
2018کے عام انتخابات کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آنے والی قومی اسمبلی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد تحلیل ہوچکی ہے جس کی آخری نشانی شہازشریف بھی نگران وزیرِ اعظم نامزد کرنے کے بعد رُخصت ہو جائیں گے جس سے پی ڈی ایم اقتدار کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔ مگر جاتے جاتے وہ ملک کوکِن مصائب کے حوالے کرگئے اِس حوالے سے بھیانک تفصیلات سے ذرائع ابلاغ بھرے پڑے ہیں۔ امپورٹڈ اور مسلط کی جانے والی حکومت کے لگنے والے الزامات کی تردید کرتے ہوئے وہ سائفر بیانیے کو بھی مسلسل جھٹلاتے رہے لیکن عین آخری ایام میں نہ صرف سائفر حقیقت قوم کے سامنے آگئی بلکہ عدمِ اعتماد کی کامیابی سے معاف کردینے کے وعدے کی تصدیق بھی امریکہ نے کردی۔ اسی بناپر عوامی اور فہمیدہ حلقوں میں سکبدوش حکومت کی ساکھ ہنوز سوالیہ نشان ہے ۔ سچی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت جاتے جاتے معیشت کاکباڑہ کرگئی ہے۔ اگر2022 میں بجلی کے گردشی قرضوں میں ستائیس ارب کی کمی آئی تو2023میںچارسوارب کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔رواں برس جولائی تک یہ قرضے 2690کاہندسہ کراس گئے ہیںحالانکہ یہی قرضے گزشتہ برس 2250ارب تھے۔ اب یہ سارا بوجھ براراست عوام کو منتقل کردیا گیا ہے جس سے ملک میں مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح کوپہنچ گئی ہے۔ گیس کے شعبے کی خرابیاں برقرارہیںپی آئی اے ،ریلوے،رٰیڈیو،اسٹیل مل ،ریاست کے ملکیتی اِدارے بددستور تباہی کے بھنور میں ہیں، جنھیں بہتر بنانے سے وزراء بھی ہاتھ کھڑے کرگئے۔ ملک کے پیداواری شعبوں میں شرح نمو 0.29 ہے حالانکہ گزشتہ برس یہی شرح نمو چھ فیصد تھی۔ اسی لیے معاشی ماہرین رخصت ہونے والی حکومت کو موجودہ تباہی کا موجب تصورکرتے ہیں، جس نے اقتدار لیکر اپنی نالائقی اور نااہلی سے ملک کو تباہ کردیا۔ اب تو ملک کی اکثریت ملکی مستقبل کے بارے میں اِس حد تک مایوس ہوچکی ہے کہ ہرقانونی اور غیر قانونی طریقے سے ملک چھوڑنے اور دیارِ غیر میں رہائش اختیار کرناچاہتی ہے۔ مگر اسمبلی اور حکومت اِس حوالے سے فرائض کی بجاآوری کے بجائے عوام کو نظرانداز کرنے کی پالیسی پر کاربند رہیں۔
سکبدوش اسمبلی نے اگر صدرِ مملکت عارف علوی کا انتخاب کیاتوکروناجیسی عالمی وباکے دوران کئی ایک ایسے حکومتی فیصلوں کی منظوری دی جنہیں عالمی سطح پر بھی سراہا گیا۔ اسی طرح اِس اسمبلی نے عسکری سربراہ قمرجاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع دینے کے ساتھ کالعدم دہشت گرد تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان سے بات چیت کی منظوری بھی دی۔ کالعدم تنظیم سے مذاکرات کی پالیسی پر نومئی 20222کو عدمِ اعتمادکے ذریعے بننے والی حکومت تنقید کرتی اور اسے ملک میں امن و امان جیسے مسائل پیداکرنے کا باعث قراردیتی رہی سبکدوش اسمبلی نے ہی نیب قوانین میں ایسی ترامیم کیں جس سے اِس اِدارے کے اختیارات میں اِس حدتک کمی گئی کہ پچاس کروڑ تک بدعنوانی کے مقدمات اِس کے دائرہ کارسے باہر ہوگئے۔ اختیارات محدود ہونے کے بعد اب نیب عملی طورپر عضو معطل کے سوا کچھ نہیں۔ سبکدوش اسمبلی اگر عوامی مفادات کے تحفظ میں ناکام رہی تو یہ بھی سچ ہے کہ سبکدوش حکومت کی اہم شخصیات کوبدعنوانی کے اہم ترین مقدمات میں گلوخلاصی کرانے میں اِس اسمبلی کا کردار کلیدی رہا۔ تاحیات نااہلی کو پانچ سالہ کرنے نیز اپیل کا حق دینے سے اب نواز شریف کی اہلیت یقینی ہوگئی ہے جس سے مستقبل کا سیاسی منظرنامہ سمجھنا مشکل نہیں رہا۔وزیرِا عظم نے اقتدار کے دوران اپنے خاندان کے زیادہ تر مقدمات ختم کرانے کے ساتھ آخری روز منجمد جائیدادیں بھی واگزار کرالیں ۔ اِس دوران عوامی ووٹوں سے معرضِ وجود میں آنے والی اسمبلی ایک تائیدکنندہ کے طورپرفرائض سرانجام دیتی رہی۔ یہ پاکستان کی واحد اسمبلی رہی جس میں اپوزیشن نشستوں پر بھی حکومت کے حمایتی براجمان رہے مگر حقیقی اپوزیشن ممبران کو ایوان میں داخلے کی اجازت دینے کی تویہ اسمبلی جرات نہ کرسکی لیکن ملکی تاریخ کی سب سے بڑی ستاسی رُکنی ایسی کابینہ تشکیل دینے کی منظوری باآسانی دے دی جس کی کارکردگی نہ صرف انتہائی مایوس کُن تھی بلکہ یہ کابینہ ملکی خزانے پر ایسا بوجھ رہی جس پر اربوں کے اخراجات کے باوجود ملک کو رتی بھر کوئی فائدہ نہ ملا ۔
یہ درست ہے کہ پی ڈی ایم نے جمہوری انداز میں حکومت حاصل کی لیکن سولہ ماہ کے اقتدار میں کوئی ایسا پہلو تلاش نہیں کیا جا سکتا جسے قابلِ ستائش یا قابل تعریف تصور کہہ سکیں ،بلکہ یہ دور جمہوری اقدارکویکسر فراموش کرنے کی بناپر ملکی تاریخ کا سیاہ باب کہہ سکتے ہیں۔شہری مفاد قربان کرتے ہوئے مہنگائی کا نیا ریکارڈقائم کیا گیا۔ ملکی معیشت کی تباہی اور عالمی مداخلت کے بھی جواز تراشے گئے۔ اسی لیے جمہوری حلقے سبکدوش اسمبلی کو بھی آزاد اور خود مختار نہیں کہتے کیونکہ قانون سازی کے دوران عوامی مفاد کو پیش نظر رکھنے کے بجائے اتحادی حکومت اپنے مفاات کی نگہبانی کرنے میں مصروف دکھائی دی۔ البتہ عالمی طاقتوں کے احکامات کی تعمیل کے دوران کسی انتہا پر جانے میں بھی قباحت محسوس نہ کی اب جبکہ ملک کومسائل کی دلدل میں چھوڑکر اسمبلی اور کابینہ رخصت ہوچکی ہے۔ شدید افراط زر،گرتی کرنسی قدر کے ساتھ تاریخ کے کم ترین زرِ مبادلہ کے ذخائر جیسے مسائل کا مستقبل قریب میں حل ہونانہایت دشوار محسوس ہوتا ہے۔ سیاسی بے چینی ایک الگ بڑاخطرہ ہے۔ امن و امان کی صورتحال بھی تسلی بخش نہیں بلکہ تشویشناک ہے ۔اسی لیے جب رُخصت ہونے والے حکمران یا اسمبلی ممبران اپنی کامیابیاں گنوانے کی کوشش کرتے ہیں تو دلیل کے نام پر پیش کرنے کے لیے اُن کے پاس کچھ نہیں ہوتا ۔
تحلیل ہونے والی اسمبلی ایسے حالات میں رخصت ہوئی ہے جب اِس ادارے سے عوام کی بدگمانیوں میں بے تحاشا اضافہ ہوچکا ہے۔ قانون سازی کے دوران عجلت وسرعت کے تاثر سے اِسے کنٹرولڈ سمجھا جانے لگا ہے ۔ قومی اسمبلی سے الوداعی خطاب کے دوران شہباز شریف نے اپنی مشکلات بتاتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اقتدار سنبھالا تو سرمنڈواتے ہی اولے پڑے، مگر کیا اُنھیں اقتدار لینے پر مجبور کیا گیا؟ بلکہ وہ تو اقتدار حاصل کرنے کے لیے اِتنے جنونی تھے کہ سازش میں کٹھ پتلی بننے پربھی بخوشی آمادہ ہوگئے۔ اسی لیے جب وہ آئندہ اقتدار ملنے پر ملک کو مسائل سے نکالنے اورعوامی خدمت کا دعویٰ کرتے ہیں تو کوئی بھی اُن کی بات پر اب یقین کرنے کو تیار نہیں کیونکہ انھوں نے اپنے سولہ ماہ کے اقتدار میں پارلیمانی نظام کو بے توقیر بنانے کے ساتھ عوام کی تحقیر کرنے کی ہرممکن کوشش کی ۔
٭٭٭