... loading ...
ریاض احمدچودھری
وطن عزیز میں صاف شفاف اور آزادانہ انتخابات کی ضرورت ہے مگر موجودہ صورتحال میں ایسا نظر نہیں آتا۔پاکستان اسلام کے نام پر بنا۔ یہاں اسلام کا نفاذ ہونا چاہیے تھا لیکن بدقسمتی سے اسلام اپنی اصل شکل میں نافذ نہیں ہو سکا۔ ملک میں پارلیمنٹ کے ذریعے اسلام آ سکتا ہے مگر حالیہ پارلیمنٹ اس قابل نہیں کہ اسلام کا نفاذ کر سکے۔جب تک ساری جماعتیں اس مسئلے پر متفق نہ ہوں ۔وطن عزیز میں طبقاتی اور متناسب نمائندگی کا نظام ہونا چاہیے۔ جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ نے کہا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی پانچ سالہ مدت مکمل ہو گئی، جمہوریت ،پارلیمانی نظام اور آئین کا تقاضا ہے کہ 90 دن میں انتخابات کرائے جائیں۔ وفاقی حکومت کے علم میں تھا کہ مردم شماری کی بروقت تکمیل سے اسمبلیوں کی مدت مکمل ہونے پر بروقت انتخابات کرائے جا سکیں گے لیکن بدنیتی اور سیاسی انجینئرنگ کے لئے مردم شماری کے نتائج کی نوٹیفکیشن کے لئے ایسا وقت چنا گیاکہ آئینی ابہام پیدا کر کے انتخابات سے فرار کا راستہ اختیار کریں۔یہ آئین کی روح ہے کہ جمہوریت، عوام کی انتخابی حق کو اولیت ملنی چاہیے۔ مردم شماری پر اعتراضات نے بھی زور پکڑ لیا ہے۔ متنازع مردم شماری کی بنیادپر عام انتخابات 2023ء کو متنازع نہ بنایاجائے۔ مردم شماری کے تنازعات حل ہوتے رہیں گے اس مرحلہ پر آئینی مدت میں انتخابات کرائے جائیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان 24 کروڑ عوام کو جمہوری حق سے محروم نہ کرے۔
پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کے خاتمہ کے بعد عبوری نگران حکومت کو قائم ہونا ہے لیکن وزیراعظم میاں شہباز شریف ، اتحادی حکومت کے پارٹنرز اور اپوزیشن لیڈر کے گٹھ جوڑ نے عبوری حکومت کے قیام سے پہلے ہی حالات میں شکوک وشبہات اور تنازعات پیدا کر دیے۔ آئین اور جمہوریت کے تحفظ کے لئے دو ہی راستے ہیں، اولین تو یہ کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان دباؤ سے آزاد ہو کر آئینی مدت میں بروقت انتخابات کا انعقاد کرائے اور متنازع مردم شماری کو نظر انداز کر دے۔دوسرا راستہ یہ ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کے تنازع سے نکل کر اس مرحلہ پر آئینی مشوروں کے حکومتی بدنیتی سے ٹکراؤ کی وجہ سے جمہوریت، انتخابات ، آئین کو لاحق خطرات سے بچاؤ کے لئے تمام ججوں پر مشتمل فل بنچ بنائیں اور بروقت انتخابات کے لئے آئین کی تشریح کا آئینی حق اور کردار ادا کریں۔
موجودہ انتخابی نظام کے ذریعے پارلیمنٹ میں عوام کی صحیح نمائندگی منتخب نہیں ہوتی۔ایک ہوتی ہے عملی جمہوریت یا طبقاتی نمائندگی۔ اس میں مختلف طبقات کو اسمبلی میں نمائندگی دی جاتی ہے۔ مثلاً طلبا، خواتین، کسانوں، مزدوروں کی نمائندگی۔ بہترین نظام حکمرانی میں ضروری ہے کہ ٹیکنیکل افراد اسمبلیوں میں بھیجے جائیں۔ ڈاکٹرز، معیشت دان، مذہبی سکالرز، قانون دان ،زرعی ماہرین جیسے لوگ اگر اسمبلیوں میں ہوں گے تو بہتر انداز سے قانون سازی کر سکیں گے۔ اپنی اپنی فیلڈ کے ماہر افراد اپنی وزارتوں میں بہترین کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ عوامی فلاح و بہبود کے قوانین اور پالیسیاں بنا سکتے ہیں۔ لہذا ہمیں ایسے افراد کو اسمبلی میں نمائندگی دینی چاہیے جو کسی نہ کسی فیلڈمیں ماہر ہوں اور کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہوں۔ حقیقی جمہوریت کے لئے ضروری ہے کہ پورے نظام میں شفافیت ہو ۔ہمارے یہاں کوئی شفافیت یا کھرا پن نہیں جبکہ مغربی اور جمہوری ملکوں میںمکمل شفافیت ہے کہ وہاں نمائندگان کیا کیا مراعات لے رہے ہیں، ان کے اخراجات کیا ہیں؟ اثاثہ جات کیا ہیں؟ اختیارات و کارکردگی کیا ہے؟ مغربی ملکوں کی جمہوریت میں پارلیمنٹ کی ویب سائٹس ہوتی ہیں جس پر ہر ایم پی اے اور ایم این اے کے بارے میں مکمل معلومات دست یاب ہوتی ہیں۔ ہر شہری کو حق ہے کہ وہ خود دیکھ سکے کہ اس کے حلقے کے ایم این اے نے کیا کمایا، کتنی مراعات لیں، کیا اخراجات کیے اور کیا اثاثہ جات جمع کیے۔ پاکستان میں کتنے لوگوں کو ان معلومات تک رسائی ہے؟
پاکستان میں جمہوریت کا جو ماڈل ہے اس کا نہ تو علامہ اقبال کے جمہوری تصور سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی قائد اعظم پاکستان ایسا پاکستان چاہتے تھے جہاں امیر و غریب میں امتیاز برتا جاتا ہو، جس نظام میں شہریوں کو مساوی حقوق و مواقع میسر نہ ہوں۔ہمارے ہاں متناسب نمائندگی کی جمہوریت چاہیے۔ ہر جماعت کو ملنے والے فیصد ووٹوں کے اعتبار سے اسمبلی کی نشستیں حاصل ہو جائیںگی۔ ہر جماعت الیکشن سے پہلے الیکشن کمیشن کو اپنے نامزد ارکان کی ایک فہرست جمع کرائے گی۔ متناسب نمائندگی کے نظام کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ بہت سے سیاسی کارکن جو مال و دولت نہ ہونے کی وجہ سے الیکشن نہیں لڑسکتے پارٹی کیطرف سے نامزد ہونے پر اسمبلیوں میں پہنچ سکیں گے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ملک میں عوام اپنے نمائندوں پر کوئی اختیار رکھتے ہیں؟ کیا ان نمائندوں سے پوچھ گچھ ہو سکتی ہے؟ ہمارے ہاں عوام کو مکمل اندھیرے میں رکھا جاتا ہے۔ ایوانوں میں کیا ہو رہا ہے،کون سے قوانین پاس ہو رہے ہیں، بجٹ میں عوامی مفاد کتنا اور کیسا ہے ، عوام اس سے بے خبر رہتے ہیں۔
٭٭٭