... loading ...
حمیداللہ بھٹی
توشہ خانہ کیس میں عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کوپانچ برس کے لیے نااہل قرار دیتے ہوئے تین سال قید اور ایک لاکھ جرمانے کی سزاسنا دی ہے ،یہ سزا درست ہے یا نہیں ، اس کے حوالے سے کچھ کہنایا تبصرہ کرنامناسب نہیں ۔ویسے بھی فیصلہ ہونے کے بعد اپیل سُننے کی مجاز عدالتِ عالیہ ہے لیکن فیصلے سے پہلے اور بعد میںپیش آنے والے کچھ واقعات باعث ِ تعجب ہیں بظاہر فیصلے کے نتیجے میں پیداہونے والے متوقع حالات کی پہلے ہی تیاری کرلی گئی جس میں مظاہرین کو حراست میں لینا تک شامل ہے شاید گرفتاریوں کی اسی سختی کی وجہ سے امن و امان کی صورتحال بے قابو نہیں ہوئی ۔
حکومت نے کئی ایسے فیصلے کیے ہیں جن سے اعتماد جھلکتاہے جیسے اُسے کامل یقین ہوکہ آمدہ عام انتخابات کے دوران عمران خان بطور چیئرمین تحریکِ انصاف کلیدی کردارناممکن ہے ۔ایسے فیصلوں میں سے ایک بجلی کے نرخ بیک جنبش قلم ساڑھے سات روپے فی یونٹ بڑھانا ہے اِس فیصلے سے حکومتی اتحاد کی مقبولیت متاثر ہونے کاقوی امکان ہے مگر اتحاد میں شامل کسی جماعت نے صدائے احتجاج بلند نہ کی بلکہ فیصلے کو آئی ایم ایف سے ہونے والی ڈیل کا حصہ کہہ کر چُپ سادھ لی گئی۔ عوام دشمن فیصلے کو پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں نے تسلیم کر تے ہوئے بخوشی منظوری دی جب اِس فیصلے کے خلاف سخت عوامی ردِ عمل آیا توبھی حکومتی حلقوں نے درخوراعتنا نہ سمجھا ایسی بے نیازی اور اعتماد کی وجہ ایک ہی ہو سکتی ہے کہ انھیں انتخابی میدان میں کسی سخت جان مدِ مقابل آنے کا پختہ یقین ہے۔ اگر کسی سخت جان مد مقابل آنے کاا مکان ہوتا جو انتخابی مُہم کے دوران مہنگائی کے خلاف اُٹھا سکتا تویہ ممکن ہی نہ ہوتا کہ حکمران اپنے اقتدارکے آخری دنوں میں بھی عوام کو کچوکے لگانے کی ہمت کرتے۔
خراب معاشی حالات کی سزا عوام کو دینا عوام دوستی ہر گز نہیں بلکہ عوام دوستی یہ ہے کہ برسرِ اقتدار اشرافیہ کی مراعات کم کرتے ہوئے وسائل کی بچت کی جائے مگر ایسے حالات میں جب اسمبلی اپنی مدت پوری کرنے کے قریب اور حکمران اتحاد رُخصت کی تیاریوں میں ہے پیٹرول کے نرخوں میں 19.95روپے فی لیٹر اضافہ کردیا گیا۔حالانکہ اوگرا کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات دس روپے مہنگی کرنے یا قیمتیں برقرار رکھنے کی تجویز دی گئی تھی۔ تاہم وزارتِ خزانہ نے نہ صرف اوگرا تجاویز مسترد کردیں بلکہ حیران کُن طورپر قیمتوں میں اضافہ کر دیا۔یہ ایسا تازیانہ ہے جس سے ابھی تک عوام تڑپ رہی ہے لیکن حکومتی حلقوں کی طرف دیکھیںتوعجب بے نیازی اور اطمنان کی فضا ہے وہ عوامی بلبلاہٹ سے لاپرواہ اور لاتعلق دکھائی دیتے ہیں ۔یہ رویہ یا طرزِ عمل تبھی ممکن ہے جب اپوزیشن کی طرف سے کسی قسم کا خطرہ نہ رہے اگر پتہ ہو کہ انتخابی عمل میںمقابلے پر ایک مقبول ترین ایسی اپوزیشن جماعت ہو گی جو عوام دشمن فیصلوں کواجاگر کرتے ہوئے حکومتی مقبولیت کے پرخچے اُڑا دے گی تو پہ درپہ ایسے فیصلے کرنے کی حماقتیں ہرگز نہ کی جاتیں عوامی مفاد کے منافی فیصلوں کے باجود جیت کے یقین کا مطلب یہی ہے کہ حکمران جانتے ہیں جب بھی الیکشن ہوئے عمران خان اور تحریکِ انصاف کا یا تو کوئی جاندار کردار نہیں ہو گا یا اگر ہوگا تو وہ محض خانہ پُری کی حد تک ہی رہے گا حکمران صفوں میں موجود اطمینان عمران خان کی قید اور بڑھتی مشکلات کی بناپر باعث ِ تعجب نہیں رہتا۔
آخری دوہفتوں میں حکومت نے ایسے حالات میں ریکارڈ قانون سازی کی ہے جب درجن بھر حکومتی ممبران اور چنداپوزیشن اراکین ایوان میں براجمان دکھائی دیے قلیل تعدادکے باوجودنہ تو کسی نے کورم کی نشاندہی کرنے کی جسارت کی نہ ہی قانون سازی کے متعلق بحث کرانے کا نُکتہ اُٹھایا ایسا لگ رہا تھا جیسے سب کچھ کسی طے شدہ منصوبے کا حصہ ہو لیکن یہی ممبران نجی محافل میں ہونے والی قانون سازی کے متعلق بے چین اور اپنی قیادت کوبُرابھلا کہتے نظر آتے ہیں ۔یہ قیاس کرنا کہ قیادت اپنے ممبران کی بے اطمینانی سے لاعلم ہے درست نہیں بلکہ اس اعتماد کی وجہ مستقبل میں نظر آتی جیت ہے۔ اسی لیے عوامی ناخوشی او رممبران کی بے اطمینانی کے باوجود ایسے اقدامات پر آمادہ کو تیار ہیںجو چاہے جمہوری اقدار بھلے خطرے میں ڈالیں لیکن وقتی فوائد کی لذت سے محرومی کا اندیشہ نہ رہے ۔
توشہ خانہ کیس میںنااہلی کے بعد عمران خان کی چیئرمین پی ٹی آئی کے طورپراب جماعتی سربراہی بھی خطرے میں ہے کیونکہ عدالت کا فیصلہ موصول ہونے کے بعدالیکشن کمیشن اُس الیکشن ایکٹ کے تحت کاروائی کر سکتا ہے جس کے مطابق رُکن پارلیمنٹ بننے کی اہلیت نہ رکھنے والا کسی جماعت کی سربراہی کا اہل بھی نہیں رہتا فیصلہ ہوصول ہوتے ہی الیکشن کمیشن کا فوری اجلاس ہونے کا امکان یقینی ہے ۔قارئین کو یاد ہو گا کہ سپریم کورٹ جیسی ملک کی سب سے بڑی عدالت پنجاب میں چودہ مئی کو الیکشن کرانے کے اپنے ہی فیصلے پر توباوجودکوشش کے عملدرآمد نہ کر اسکی مگر ایڈیشنل سیشن جج کی طرف سے فیصلہ سنائے جانے کے فوری بعد عملدرآمد کرتے ہوئے عمران خان کونہ صرف فوری گرفتار کر لیا جاتا ہے بلکہ اڈیالہ جیل منتقل کرنے کی کاروائی بھی چند گھنٹوں میں مکمل ہو جاتی ہے ۔یہاں خاص طور پر قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ فیصلہ اسلام آباد میںسنایا جاتا ہے لیکن زمان پارک لاہور میں عملدرآمد کرنے میں بھی چند لمحے لگتے ہیں جیسے پولیس کو نااہلی ،سزا اور جرمانے پر مشتمل فیصلہ آنے کے متعلق پہلے ہی علم ہوتب ہی فیصلے سنائے جانے سے قبل ہی پولیس لاہور پہنچ گئی ۔اسی بنا پر کچھ فہمیدہ حلقے کہتے ہیں کہ سب کچھ طے شدہ منصوبے کے مطابق ہوا ہے۔ ایک عدالتی فیصلے پر اس طرح تیز ترین عملدرآمد کی ملک میں پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔
فیصلہ سناتے ہی منصف کا برطانیہ عازم سفرہو جانا قیاسات کو تقویت دیتا ہے حالانکہ برطانیہ کی یونیورسٹی آف ہل میں ٹریننگ سیشن کے لیے پہلے فیضان حیدر کانام تجویز کیاگیا تھا لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار نے چاراگست کوہمایوں دلاورکی نئی نامزدگی کا سیشن جج کو خط لکھا ۔پانچ اگست کو عمران خان کے خلاف فیصلہ سنایاگیااور منصف بیرونِ ملک روانہ ہو گئے اِس روانگی میں تعجب کے کئی پہلو ہیں یہ سچ ہے کہ ملک کے کئی بڑے نام اقتدار کے دوران توشہ خانے سے مالی فوائد حاصل کرچکے مگر سزاکاحقدار صرف اکیلے عمران خان کوٹھہرانا عوامی حلقوں کے لیے خاصاحیرت انگیزہے۔ شاید اسی لیے توشہ خانہ کو تماشہ خانہ کہا جانے لگا ہے۔ مزید باعثِ تعجب بات یہ ہے کہ عمران خان کو سزا دینے کے باوجود فوری طورپر حالات سے الیکشن کا اشارہ نہیں ملتا اب جبکہ مشترکہ مفادات (سی سی آئی)کے اجلاس میں نئی مردم شماری کی متفقہ طورپر منظوری دی جا چکی نے الیکشن التوا کا جواز فراہم کردیا ہے کیونکہ نئی حلقہ بندیوں کے لیے تین سے چارماہ کا وقت درکارہے۔ علاوہ ازیں نئی ترمیم کے تحت الیکشن کی تاریخ کا اعلان اب الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے اسی لے انتخابی عمل کے التوا کی باتیں جھٹلانے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی ۔ماسوائے اِس کے کہ ناقص کارکردگی کی بناپر حکمران جماعتوں کومتوقع شکست کا خوف الیکشن میں جانے سے روکتا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے منظر عام سے ہٹنے پر حکمران اتحادوقتی طورپر خوش ہے مگریہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عدالتِ عالیہ اور عدالت ِ عظمٰی سے اپیل کا حق ابھی موجودہے، جہاں سے ضمانت اور رہائی جیسا ریلیف ملنا ممکن ہے۔ بے شک کاتبِ تقدیر کے فیصلوں کے آگے دنیاوی فیصلوں کی کوئی حیثیت نہیں ۔
٭٭٭