وجود

... loading ...

وجود

تعجب کے باعث واقعات

جمعرات 10 اگست 2023 تعجب کے باعث واقعات

حمیداللہ بھٹی
توشہ خانہ کیس میں عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کوپانچ برس کے لیے نااہل قرار دیتے ہوئے تین سال قید اور ایک لاکھ جرمانے کی سزاسنا دی ہے ،یہ سزا درست ہے یا نہیں ، اس کے حوالے سے کچھ کہنایا تبصرہ کرنامناسب نہیں ۔ویسے بھی فیصلہ ہونے کے بعد اپیل سُننے کی مجاز عدالتِ عالیہ ہے لیکن فیصلے سے پہلے اور بعد میںپیش آنے والے کچھ واقعات باعث ِ تعجب ہیں بظاہر فیصلے کے نتیجے میں پیداہونے والے متوقع حالات کی پہلے ہی تیاری کرلی گئی جس میں مظاہرین کو حراست میں لینا تک شامل ہے شاید گرفتاریوں کی اسی سختی کی وجہ سے امن و امان کی صورتحال بے قابو نہیں ہوئی ۔
حکومت نے کئی ایسے فیصلے کیے ہیں جن سے اعتماد جھلکتاہے جیسے اُسے کامل یقین ہوکہ آمدہ عام انتخابات کے دوران عمران خان بطور چیئرمین تحریکِ انصاف کلیدی کردارناممکن ہے ۔ایسے فیصلوں میں سے ایک بجلی کے نرخ بیک جنبش قلم ساڑھے سات روپے فی یونٹ بڑھانا ہے اِس فیصلے سے حکومتی اتحاد کی مقبولیت متاثر ہونے کاقوی امکان ہے مگر اتحاد میں شامل کسی جماعت نے صدائے احتجاج بلند نہ کی بلکہ فیصلے کو آئی ایم ایف سے ہونے والی ڈیل کا حصہ کہہ کر چُپ سادھ لی گئی۔ عوام دشمن فیصلے کو پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں نے تسلیم کر تے ہوئے بخوشی منظوری دی جب اِس فیصلے کے خلاف سخت عوامی ردِ عمل آیا توبھی حکومتی حلقوں نے درخوراعتنا نہ سمجھا ایسی بے نیازی اور اعتماد کی وجہ ایک ہی ہو سکتی ہے کہ انھیں انتخابی میدان میں کسی سخت جان مدِ مقابل آنے کا پختہ یقین ہے۔ اگر کسی سخت جان مد مقابل آنے کاا مکان ہوتا جو انتخابی مُہم کے دوران مہنگائی کے خلاف اُٹھا سکتا تویہ ممکن ہی نہ ہوتا کہ حکمران اپنے اقتدارکے آخری دنوں میں بھی عوام کو کچوکے لگانے کی ہمت کرتے۔
خراب معاشی حالات کی سزا عوام کو دینا عوام دوستی ہر گز نہیں بلکہ عوام دوستی یہ ہے کہ برسرِ اقتدار اشرافیہ کی مراعات کم کرتے ہوئے وسائل کی بچت کی جائے مگر ایسے حالات میں جب اسمبلی اپنی مدت پوری کرنے کے قریب اور حکمران اتحاد رُخصت کی تیاریوں میں ہے پیٹرول کے نرخوں میں 19.95روپے فی لیٹر اضافہ کردیا گیا۔حالانکہ اوگرا کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات دس روپے مہنگی کرنے یا قیمتیں برقرار رکھنے کی تجویز دی گئی تھی۔ تاہم وزارتِ خزانہ نے نہ صرف اوگرا تجاویز مسترد کردیں بلکہ حیران کُن طورپر قیمتوں میں اضافہ کر دیا۔یہ ایسا تازیانہ ہے جس سے ابھی تک عوام تڑپ رہی ہے لیکن حکومتی حلقوں کی طرف دیکھیںتوعجب بے نیازی اور اطمنان کی فضا ہے وہ عوامی بلبلاہٹ سے لاپرواہ اور لاتعلق دکھائی دیتے ہیں ۔یہ رویہ یا طرزِ عمل تبھی ممکن ہے جب اپوزیشن کی طرف سے کسی قسم کا خطرہ نہ رہے اگر پتہ ہو کہ انتخابی عمل میںمقابلے پر ایک مقبول ترین ایسی اپوزیشن جماعت ہو گی جو عوام دشمن فیصلوں کواجاگر کرتے ہوئے حکومتی مقبولیت کے پرخچے اُڑا دے گی تو پہ درپہ ایسے فیصلے کرنے کی حماقتیں ہرگز نہ کی جاتیں عوامی مفاد کے منافی فیصلوں کے باجود جیت کے یقین کا مطلب یہی ہے کہ حکمران جانتے ہیں جب بھی الیکشن ہوئے عمران خان اور تحریکِ انصاف کا یا تو کوئی جاندار کردار نہیں ہو گا یا اگر ہوگا تو وہ محض خانہ پُری کی حد تک ہی رہے گا حکمران صفوں میں موجود اطمینان عمران خان کی قید اور بڑھتی مشکلات کی بناپر باعث ِ تعجب نہیں رہتا۔
آخری دوہفتوں میں حکومت نے ایسے حالات میں ریکارڈ قانون سازی کی ہے جب درجن بھر حکومتی ممبران اور چنداپوزیشن اراکین ایوان میں براجمان دکھائی دیے قلیل تعدادکے باوجودنہ تو کسی نے کورم کی نشاندہی کرنے کی جسارت کی نہ ہی قانون سازی کے متعلق بحث کرانے کا نُکتہ اُٹھایا ایسا لگ رہا تھا جیسے سب کچھ کسی طے شدہ منصوبے کا حصہ ہو لیکن یہی ممبران نجی محافل میں ہونے والی قانون سازی کے متعلق بے چین اور اپنی قیادت کوبُرابھلا کہتے نظر آتے ہیں ۔یہ قیاس کرنا کہ قیادت اپنے ممبران کی بے اطمینانی سے لاعلم ہے درست نہیں بلکہ اس اعتماد کی وجہ مستقبل میں نظر آتی جیت ہے۔ اسی لیے عوامی ناخوشی او رممبران کی بے اطمینانی کے باوجود ایسے اقدامات پر آمادہ کو تیار ہیںجو چاہے جمہوری اقدار بھلے خطرے میں ڈالیں لیکن وقتی فوائد کی لذت سے محرومی کا اندیشہ نہ رہے ۔
توشہ خانہ کیس میںنااہلی کے بعد عمران خان کی چیئرمین پی ٹی آئی کے طورپراب جماعتی سربراہی بھی خطرے میں ہے کیونکہ عدالت کا فیصلہ موصول ہونے کے بعدالیکشن کمیشن اُس الیکشن ایکٹ کے تحت کاروائی کر سکتا ہے جس کے مطابق رُکن پارلیمنٹ بننے کی اہلیت نہ رکھنے والا کسی جماعت کی سربراہی کا اہل بھی نہیں رہتا فیصلہ ہوصول ہوتے ہی الیکشن کمیشن کا فوری اجلاس ہونے کا امکان یقینی ہے ۔قارئین کو یاد ہو گا کہ سپریم کورٹ جیسی ملک کی سب سے بڑی عدالت پنجاب میں چودہ مئی کو الیکشن کرانے کے اپنے ہی فیصلے پر توباوجودکوشش کے عملدرآمد نہ کر اسکی مگر ایڈیشنل سیشن جج کی طرف سے فیصلہ سنائے جانے کے فوری بعد عملدرآمد کرتے ہوئے عمران خان کونہ صرف فوری گرفتار کر لیا جاتا ہے بلکہ اڈیالہ جیل منتقل کرنے کی کاروائی بھی چند گھنٹوں میں مکمل ہو جاتی ہے ۔یہاں خاص طور پر قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ فیصلہ اسلام آباد میںسنایا جاتا ہے لیکن زمان پارک لاہور میں عملدرآمد کرنے میں بھی چند لمحے لگتے ہیں جیسے پولیس کو نااہلی ،سزا اور جرمانے پر مشتمل فیصلہ آنے کے متعلق پہلے ہی علم ہوتب ہی فیصلے سنائے جانے سے قبل ہی پولیس لاہور پہنچ گئی ۔اسی بنا پر کچھ فہمیدہ حلقے کہتے ہیں کہ سب کچھ طے شدہ منصوبے کے مطابق ہوا ہے۔ ایک عدالتی فیصلے پر اس طرح تیز ترین عملدرآمد کی ملک میں پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔
فیصلہ سناتے ہی منصف کا برطانیہ عازم سفرہو جانا قیاسات کو تقویت دیتا ہے حالانکہ برطانیہ کی یونیورسٹی آف ہل میں ٹریننگ سیشن کے لیے پہلے فیضان حیدر کانام تجویز کیاگیا تھا لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار نے چاراگست کوہمایوں دلاورکی نئی نامزدگی کا سیشن جج کو خط لکھا ۔پانچ اگست کو عمران خان کے خلاف فیصلہ سنایاگیااور منصف بیرونِ ملک روانہ ہو گئے اِس روانگی میں تعجب کے کئی پہلو ہیں یہ سچ ہے کہ ملک کے کئی بڑے نام اقتدار کے دوران توشہ خانے سے مالی فوائد حاصل کرچکے مگر سزاکاحقدار صرف اکیلے عمران خان کوٹھہرانا عوامی حلقوں کے لیے خاصاحیرت انگیزہے۔ شاید اسی لیے توشہ خانہ کو تماشہ خانہ کہا جانے لگا ہے۔ مزید باعثِ تعجب بات یہ ہے کہ عمران خان کو سزا دینے کے باوجود فوری طورپر حالات سے الیکشن کا اشارہ نہیں ملتا اب جبکہ مشترکہ مفادات (سی سی آئی)کے اجلاس میں نئی مردم شماری کی متفقہ طورپر منظوری دی جا چکی نے الیکشن التوا کا جواز فراہم کردیا ہے کیونکہ نئی حلقہ بندیوں کے لیے تین سے چارماہ کا وقت درکارہے۔ علاوہ ازیں نئی ترمیم کے تحت الیکشن کی تاریخ کا اعلان اب الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے اسی لے انتخابی عمل کے التوا کی باتیں جھٹلانے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی ۔ماسوائے اِس کے کہ ناقص کارکردگی کی بناپر حکمران جماعتوں کومتوقع شکست کا خوف الیکشن میں جانے سے روکتا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے منظر عام سے ہٹنے پر حکمران اتحادوقتی طورپر خوش ہے مگریہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عدالتِ عالیہ اور عدالت ِ عظمٰی سے اپیل کا حق ابھی موجودہے، جہاں سے ضمانت اور رہائی جیسا ریلیف ملنا ممکن ہے۔ بے شک کاتبِ تقدیر کے فیصلوں کے آگے دنیاوی فیصلوں کی کوئی حیثیت نہیں ۔
٭٭٭

 


متعلقہ خبریں


مضامین
خواتین کا عالمی دن مسرت اور سیمل کی یاد وجود جمعرات 28 نومبر 2024
خواتین کا عالمی دن مسرت اور سیمل کی یاد

ہندوتوا کا ایجنڈا، مسلمان اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ وجود جمعرات 28 نومبر 2024
ہندوتوا کا ایجنڈا، مسلمان اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ

دریائے سندھ پر مزید کینالوں کی تعمیر ، سندھ کے پانی پر ڈاکہ! وجود جمعرات 28 نومبر 2024
دریائے سندھ پر مزید کینالوں کی تعمیر ، سندھ کے پانی پر ڈاکہ!

روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر