... loading ...
ریاض احمدچودھری
وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی نے عمران خان کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے اعلیٰ عدلیہ سے نوٹس لینے کی اپیل کی ہے کہ حیرانی کی بات یہ ہے گرفتاری کا آرڈر اسلام آباد پولیس کے پاس تھا جبکہ گرفتاری پنجاب پولیس نے کی۔ آرڈر عمران خان کو اڈیالہ جیل منتقل کرنے کا تھا لیکن ان کو اٹک جیل لے جایا جاتا ہے۔ وائس چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ اٹک جیل میں بی کلاس تک کی سہولت بھی موجود نہیں ہے۔ سابق وزیراعظم کو9 بائی11 کے سیل میں رکھا گیا ہے۔ ان کو بھجوایا جانے والا کھانا ان کو نہیں دیا گیا۔ مزید یہ کہ وکلاء کو ان تک رسائی دینے سے انکار کر دیا گیا۔ عمران خان کی رہائی کیلئے اپیل دائر کرنی ہے۔ وکالت نامے پر جب تک عمران خان کے دستخط نہیں ہوں گے اپیل کیسے فائل کر سکتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ طبی معائنہ کروانا ہر ملزم کا بنیادی حق اور جیل حکام کا فرض ہے۔ اٹک میں تو ایک مستند ڈاکٹر کا عہدہ موجود ہی نہیں ہے۔ صرف ایک ڈسپنسر دستیاب ہوتا ہے۔ عمران خان کی جان کو خطرات لاحق ہیں۔ کور کمیٹی کی پہلی ترجیح عمران خان کا تحفظ اور ان کی رہائی ہے جس کیلئے ہم تگ و دو کر رہے ہیں۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری اوران کواٹک جیل منتقل کرنے پر انتہائی دکھ اور افسوس ہوا میں اس کی پرزور مذمت کرتا ہوں۔ عمران خان کو فیئر ٹرائل کا حق ملنا چاہئے تھا۔ امید ہے عمران خان کو ہائیکورٹ، سپریم کورٹ سے انصاف ملے گا اورانہیں جلد رہائی ملے گی۔ اس سے قبل بھی مئی میں جب عمران خان کو گرفتارکیا گیا تو سپریم کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔لہذا اب بھی عدالت انہیں رہا ئی کا حکم جاری کر دے گی۔ ڈسٹرکٹ و سیشن جج ہمایوں دلاور نے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا کا حکم سنایا اور ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دئیے جس کی بنیاد پر پولیس نے انہیں ان کی اقامت گاہ زمان پارک سے حراست میں لے کر اٹک جیل منتقل کر دیا۔
عمران خان نے عدالت کے سوالنامے کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے خلاف پی ڈی ایم کے کہنے پر سیاسی بنیادوں پر مقدمہ درج کیا گیا ہے جو انہیں 180 مقدمات میں الجھا کر سیاست سے باہر کرنا چاہتی ہے۔کسی سیاسی رہنما پر 200 مقدمے ایک مذاق ہے۔ موجودہ حکومت جو کئی جماعتوں کا مربہ ہے، نے سیاسی انتقام لیا ہے۔ دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ ایک جماعت کے لیڈر کو بدترین سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جائے۔ عمران خان نے اپنے دور حکومت میں صرف مجرموں کو سخت سے سخت سزا دینے کی بات کی تھی مگر موجودہ حکومت پی ٹی آئی کی مقبولیت سے خوفزدہ ہے اور وہ انتخابات سے بھاگنا چاہتی ہے۔ کور کمیٹی پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ یہ پہلی دفعہ ہو رہا ہے کہ ہمارے رہنماؤں کو جھوٹے مقدمات میں قید کیا جا رہا ہے۔ عدالت سے رہائی کے احکامات ملتے ہی کسی دوسرے مقدمے میں پکڑ لیا جا تا ہے۔ س وقت تحریک انصاف کے ایک درجن سے زائد رہنما گرفتار ہیں جبکہ ان میں سے کچھ کو عدالت کی جانب سے ریلیف ملنے کے بعد رہائی بھی ملی ہے جبکہ کچھ ایسے ہی ہیں جنھیں ضمانتیں تو ملیں مگر رہائی کے فوراً بعد انھیں دوبارہ حراست میں لے لیا گیا۔مثال کے طور پر، ڈاکٹر شیریں مزاری کو پہلے ایم پی اورتحت گرفتار کیا گیا عدالت نے ان کی رہائی کا حکم دیا لیکن انھیں رہا ہونے کے فوراً بعد اقدام قتل اور اسلحے کی نمائش کے ایک کیس میں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا اور دوبارہ ضمانت کے بعد انھیں ایک بار پھر ایم پی او کے قانون کے تحت گرفتار کیا گیا ۔پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان کو اڈیالہ جیل کے باہر سے دوبارہ حراست میں لے لیا گیا ۔ علی محمد خان کو خیبر پختونخوا پولیس نے حراست میں لیا۔ عمران خان کے قریبی ساتھی کو رہائی کے بعد تیسری بار گرفتارکیا گیا۔ شہریار آفریدی کو بھی اڈیالہ جیل سے رہائی کے فوری بعد گرفتار کر لیا گیا تھا۔عدالت نے شہریار آفریدی کو 15 روز کی نظر بندی کے بعد رہا کیا تاہم انہیں رہا ہوتے ہی راولپنڈی پولیس نے دوبارہ گرفتار کیا۔
سیکریٹری جنرل عمر ایوب کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو قید کے دوران بیٹر کلاس میں رکھا گیا تھا جس میں ٹی وی، اخبار، لکھنے پڑھنے کیلئے کتب، اسٹیشنری، ایئر کنڈیشن یا روم کولر، چھوٹا فریج و بستر اور مشقتیوں کی اجازت ہوتی ہے تاہم چیئرمین پی ٹی آئی کیلئے ان سہولیات کو ہوم ڈیپارٹمنٹ یا عدالت کی اجازت سے مشروط کیا گیا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی جس بیرک میں قید ہیں اس کے گرد محکمہ جیل خانہ جات کے کمانڈوز اور باہر جیل پولیس کے اہلکار تعینات ہیں، جیل کے بیرونی اطراف ضلعی پولیس اور رینجرز کی پٹرولنگ بھی جاری ہے۔ کور کمیٹی نے کہا کہ نہایت جانبدارانہ ٹرائل اور ناقص و متعصبانہ فیصلے کی آڑ میں گرفتاری تک چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ہر اقدام سے انتقام جھلکتا ہے۔ نہایت نامناسب طریقے سے گرفتار کرنے کے بعد سے اب تک چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں کچھ بھی معلومات مہیا نہیں کی گئیں۔