... loading ...
حمیداللہ بھٹی
پاکستان کے چین سے بڑھتے تعلقات پر کچھ قومی حلقے پریشان ہیں۔ بظاہر یہ تعلقات مجبوری ہیں ایک طرف ملک کو اگر بھارتی ریشہ دوانیوں کا سامنا ہے تو معاشی خطرات الگ دردِ سر ہیں۔ اسی لیے چینی تعان حاصل رکھناناگزیر ہے۔ مگر دوستی میں غیرمحتاط ہوجانا دانشمندی نہیں۔ ملک نہ صرف چینی مصنوعات کی منڈی بنتا جارہا ہے بلکہ واجب الادا غیر ملکی قرضوں میںچین کے مہنگے قرضوں کاحصہ خوفناک حد تک بڑھ چکاہے۔ دوستی میں چین ہر حوالے سے فائدے میں ہے۔ وہ اپنی مصنوعات کے ذریعے کمائی کرنے کے ساتھ مہنگے قرضے دیکر بھاری سود بٹور رہا ہے جس سے پاکستانی معیشت کولاحق خطرات میں اضافہ ہواہے مگر ہمارے حلقہ ارباب اختیار کو شاید خطرات کی نوعیت کا احساس ہی نہیں۔ اسی لیے بدستورآنکھیں بند کیے پاک چین دوستی کا راگ الاپنے میں مشغول ہیں ۔حالانکہ حکمرانوں کا فرض ہے کہ غیر ملکی مفادات کی نگہبانی کے بجائے اپنے شہریوں کے مفادکاتحفظ کریں۔ لیکن ایسا لگ رہا ہے پاکستان کو چین کی چراگاہ بناکر بھی وہ خوش ہیں۔ یہ دوستی کا نشہ ملکی مفاد کے منافی ہے کیونکہ یہ نشہ معاشی اور غیر ملکی خطرات روکنے میں مدد گار نہیں۔ اب تو اِس میں شبہ نہیں رہا کہ کچھ عالمی طاقتوں کو چین کی طرف پاکستانی جھکائو ناپسند ہے۔ ناپسندیدگی کی بناپریہ طاقتیں پاکستان کو زک پہنچانے کی سازشیں کرسکتی ہیں۔ چینی نائب وزیرِ اعظم کے دورے کے اگلے دن امریکی دفترخارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کا یہ کہنا کہ چینی نائب وزیرِ اعظم کے دورے کو بنظرغائر دیکھ رہے ہیں اور چینی سرمایہ کاری میں شفافیت چاہتے ہیں۔عالمی طاقتوں کے بارے میں خدشات کا پردہ چاک کرنے کے لیے کافی ہے۔
پاک چین اقتصادی راہداری کی دس سالہ تقریبات میں مہمانِ خصوصی کی حثیت سے شریک ہونے کے لیے گزشتہ ماہ کے آخری روز 31 اگست کوچین کے نائب وزیرِ اعظم He Lifeng پاکستان کاایک روزہ دورہ مکمل کر کے واپس وطن جا چکے ہیںمگر حکمران حلقوں میں ابھی تک خوشی کی سرشاری ہے اور چین کے نائب وزیراعظم کی پاکستان آمد کو ایک بڑی کامیابی کے طورپر پیش کیا جارہا ہے۔ اِس دورے سے قبل وفاقی وزیرمنصوبہ بندی احسن اقبال نے بھی چین کا چارروزہ سرکاری دورہ کیا لیکن یہ دورے بڑی کامیابی نہیں بلکہ خطے میں پاکستان اگلا میدان جنگ بننے کا موجب ہو سکتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ چین اب پاکستان سے مالی اور دفاعی تعاون کے ساتھ مختلف قسم کے دبائوڈالنے لگا ہے ۔وہ ایک طرف اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے اضافی نفری لگواچکا ہے تواب منصوبوں میں نقائص دور کرنے کی آڑ میں پاکستانی مفاد کے منافی شرائط منوانے لگا ہے مگر پاکستانی حکمران دوستی کے نشے میں تمام ایسے فیصلوں کو بخوشی منظوری دینے پر آمادہ و تیار ہیں جن کی چین خواہش کرتا ہے، بغیر سوچے سمجھے اور ملکی مفاد کا تحفظ کیے بغیر یہ طرزِ عمل ہمیں کسی بڑے نقصان سے دوچار کر سکتا ہے۔ سری لنکن معیشت کو اپنے مفاد کے مطابق بنا نے کے نتائج کسی سے پوشیدہ نہیں۔ جس سے سری لنکا دیوالیہ ہونے کے ساتھ سیاسی عدمِ استحکام کا بھی شکارہوا۔ ہمارے حکمران بھی ویسے ہی خطرات کے بھنورمیں پھنس کر خوش ہیں۔ یہ پالیسی غلط ہے، بہتر ہے دوستی اپنی جگہ،مگر جب کسی طاقت سے معاہدے کریں تو ملکی مفاد کا تحفظ یقینی بنایاجائے۔
آنے جانے سے ملکوں کے تعلقات کو وسعت ملتی ہے کیونکہ ملاقاتوں میں باہمی دلچسپی کے امور پر گفت وشنید سے ایک دوسرے کا نکتہ نظر جانا جاتا ہے مگر چین کی بات ہو تو پاکستانی حکمران بس سنتے ہیں، کچھ کہتے نہیں اور دوستی کے نشے میں ہدایات لیکر کام کرنے لگے ہیں۔ماضی میں ایسا ہی کچھ طرزِعمل ہمارے حکمرانوں کا امریکہ کے بارے میں رہا جس سے پاکستان کا عالمی کردار ایک طفیلی ریاست جیسا بن کر رہ گیا۔ جس کے نتیجے میں ملکی سلامتی کو درپیش خطرات میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ڈھیروں نقصان اُٹھانے کے باوجود اپنے طرزِ عمل کوملکی مفاد کے مطابق نہیںبنایاجاسکا۔ اسی بناپر خدشہ ہے کہ امریکہ کے بعد پاکستان اب چینی چراگاہ بننے کی روش پر گامزن ہے ۔ بہتر یہ ہے کہ ہمارے حکمران پاکستانی بن کر سوچیں اور جب معاہدے کریں تو قومی مفاد کا تحفظ یقینی بنائیں ۔
بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ کی افادیت سے کسی کو انکار نہیں ۔بدقسمتی سے یہ منصوبہ اب معاشی کی بجائے دفاعی بنتا جارہا ہے جس کی تصدیق دفاعی منصوبوں میں تعاون کے اضافے سے ہوتی ہے حالانکہ اِس وقت پاکستان کو سب سے زیادہ معیشت پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ مگر بظاہر معیشت کو اب بھی ثانوی حیثیت حاصل ہے۔ سمجھنے والی بات یہ ہے کہ قرضے لیکر امورِ مملکت چلانے سے معیشتیں بہتر نہیں ہوتیں ۔بلکہ ہنگامی بنیادوں پرپیداواری منصوبے شروع کرنے اور درآمدات سے برآمدات بڑھانے سے بہتری آتی ہے، لیکن حکمران صفوں میں ایسی کسی سوچ کا فقدان ہے بلکہ اِس حوالے سے عجب بے نیازی ہے اور وقت گزار پالیسی پر تکیہ ہے جس سے عوام پر غیر ضروری بوجھ میں اضافہ ہو تاجارہا ہے اور ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچاتے بچاتے عوام کو دیوالیہ کے قریب پہنچا دیا گیاہے۔ مگر اب بھی دوستی کا خمار کم نہیں ہوا۔ بلکہ چین کی تابعداری آخری حدوں کو چھونے لگی ہے۔ اب ایسی اطلاعات بھی منصہ شہود پر آنے لگی ہیں کہ اہم عہدوں پر چین اپنے ہم خیال اور خیر خواہوں کو تعینات کرانے لگا ہے۔ اِس حد تک دخل اندازی کی کسی بھی ملک کو اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ باربارنقصان اُٹھانے کے باوجودحکمرانوں کاسمجھنے اور سنبھلنے سے انکار ناقابلِ فہم ہے ۔اب تو ایسا تاثر گہرا ہونے لگا ہے کہ امریکہ کے بعد پاکستان نے محض اِ س حدتک اپنی پالیسی تبدیل کی ہے کہ وہ پہلے امریکہ پر انحصارکرتا تھااب چین کی طفیلی ریاست ہے آزاداور خود مختار ریاست کا تاثر معدوم ہے۔
ہی لیفنگ 2017سے 2023تک چین کے نیشنل ڈیولپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن کے چیئرمین رہے۔ اِس دوران انھوں نے پاکستان پر خاص طورپر توجہ دے کر سی پیک کی منصوبہ بندی پر عمل درآمد کرانے کی کوشش کی اور اِس دوران کسی نے اختلافِ رائے کی جرأت کی تو حکومت کو ایسے آفیسر کاتبادلہ کرانے کاحکم جاری کردیا۔ اب بھی دس سالہ تقریبات میں شرکت اعلیٰ سطح کے تبادلوں اور مذاکرات کاحصہ تصور کیا جارہا ہے۔ عالمی معاملات میں دوطرفہ حمایت،اقتصادی و مالی تعاون اور تجارتی روابط میں وسعت لانے کے لیے نئی راہیں تلاش کرنے کاجائزہ لینے کے ساتھ سی پیک فریم ورک کے تحت جاری تعاون کی خاطر مشترکہ ورکنگ گروپوں کے باقاعدہ اجلاس منعقد کرنے سمیت اگلے مرحلے کے لیے شروع ہونے والے منصوبوں پر عملدرآمد یقینی بنانے کافیصلہ کیا گیاہے ۔لیکن خدشہ ہے کہ چینی نائب وزیرِ اعظم کا حالیہ دورہ پاکستان دوست ملک کے دبائو کا نیا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ کسی عالمی طاقت کی طفیلی ریاست بننے کے بجائے پاکستان ایک آزاد وخودمختارملک کا تاثر بنائے اب بھی ہمارے حکمران دوستی کے نشے میں ملکی مفاد کا سودا کرنے کی پالیسی پر کاربندرہے تو معاشی جڑیں کھوکھلی کرانے کے بعد قومی سلامتی کویقینی نقصان ہونے کاخدشہ قوی تر جائے گا۔
٭٭٭