... loading ...
ریاض احمد چودھری
5 اگست 2019 کوبھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں تحریک آزادی کی صدا کو دبانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے قانون میں تبدیلی کی اور کشمیریوں پر ظلم و ستم کے نئے دور کا آغاز کیا۔یوں تو کشمیریوں پر ظلم و ستم برسوں پہلے شروع ہوا تھا اور کشمیر کی تقسیم اور بندر بانٹ اونے پونے داموں کرنے کا آغاز کیا گیا تھا مگر ان سب کے باوجود کشمیریوں کی صدائے حریت بھی برسوں سے ہی گونج رہی ہے۔ لاکھ انکار کے باوجودیہ حقیقت ہے کہ بھارت ریاستی دہشت گردی کا اسپانسرڈ ملک ہے۔ 5اگست کے دن ایک غاصبانہ قبضہ ہوا۔ ہم مقبوضہ بھارتی کشمیر کہتے ہیں جو درست نہیں۔ اب اسے بھارت کا غیرقانونی قبضہ کیا گیا مقبوضہ کشمیر کہنا ہے۔پوری پاکستانی قوم 5 اگست کو یوم استحصال کے طور پر منا رہی ہے۔ صبح 10 بجے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جائے گی اور سائرن بجائے جائیں گے۔ کشمیر کے موضوع پر مختلف تقریبات کا اہتمام بھی کیا گیا ہے جن میں تقاریر، مباحثے اور ملی نغمے شامل ہیں۔
اسی حوالے سے بزم اقبال لاہور میں ڈائریکٹر محترم تحسین فراقی کی زیر صدارت ایک مذاکرے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کی طرف سے بھی اس دن کو منانے کیلئے خاص تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ کشمیر کے عوام آزادی حاصل کر کے رہیں گے۔ہم حکومت پاکستان کی طرف سے کشمیریوں کو یکجہتی کا واضح پیغام دینا چاہتے ہیںکہ حق خود ارادیت کے مقصد کے لیے پاکستانی قوم کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ تحریک آزادی کے لیے کشمیری لیڈ کریں ہم ان کے پیچھے کھڑے ہیں۔ کشمیریوں کی ترجمانی اور ان کی آواز دنیا میں اٹھائیں گے۔ مایوس نہیں کریں گے۔ ہماری نظر سری نگر پر ہے۔ ہماری منزل سری نگر ہے۔کیا ہم یہ حقیقت بھول جائیں کہ بھارت نے انتظامیہ کے بزور بازو کشمیریوں کا تشخص مٹایا۔ ان کا جھنڈا چھینا اور ان کی شناخت ختم کی۔ ریاست جموں و کشمیر کو 3 ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی لیکن کشمیریوں نے اسے ذہنی طور پر قبول نہیں کیا۔ چاہے وہ ہندو پنڈت ہو، چاہے لداخ میں رہنے والا بدھ مت یا وادی میں رہنے والا مسلمان ہے کسی نے ذہنی طور پر اسے تسلیم کیا ہے اور نہ ہی قبول کیا ہے اور ان کی جدوجہد آزادی جاری ہے۔کشمیری آج بھی بھارتی فوج کے ہاتھوں بدترین ظلم کے شکار ہیں۔
مقبوضہ کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازع علاقہ ہے جسے بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)کی سرکار نے ضم کرنے کی کوشش کی ہے جسے کشمیریوں اور پاکستان نے مسترد کیا۔4 سال گزرنے کے باوجود آج بھی کشمیر میں کیمونیکیشن بلیک آئوٹ جاری ہے۔ کشمیر میں آج بھی بنیادی انسانی حقوق معطل ہیں۔پاکستانی قوم کشمیریوں کے ساتھ کل بھی کھڑی تھی اور آج بھی کھڑی ہے۔بھارت نے وادی کی حیثیت ختم کرنے کے بعد مسلم اکثریت کو بدلنے کی سازش بھی کی۔ ری آرگنائزیشن ایکٹ نافذ اور اس کے ساتھ ڈومیسائل قوانین بھی شامل کئے جس کا مقصد بھارت کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے ارادے کھل کر سامنے آگئے۔دنیا دیکھ رہی ہے کہ بھارت کیا حرکتیں کر رہا ہے۔بھارتی آئین کی دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں کشمیر کو وفاق میں ایک خصوصی حیثیت حاصل تھی۔ اس خصوصی حیثیت میں ریاست کو اپنا آئین بنانے اور نافذ کرنے کا حق حاصل تھا۔ اس کے علاوہ متعدد معاملات میں بھارتی وفاقی آئین کا نفاذ جموں کشمیر میں ممنوع تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور آرٹیکل 35 اے بھی منسوخ کیا گیا جس کے تحت مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے سوا بھارت کا کوئی بھی شہری یا ادارہ جائیداد نہیں خرید سکتاتھا جبکہ سرکاری نوکریوں، ریاستی اسمبلی کیلئے ووٹ ڈالنے اور دوسری مراعات کا قانونی حق صرف کشمیر میں پیدا ہونیوالے کشمیری باشندوں کو حاصل تھا۔ان دونوں آرٹیکلز کی منسوخی کے بعد مقبوضہ کشمیر کی صورتحال یکسر تبدیل ہو کر رہ گئی۔
آئین کے آرٹیکل 35 اے کے تحت اس بات کا فیصلہ کرنے کا اختیار کشمیری ریاست کو حاصل تھا کہ ریاست کا مستقل باشندہ کون ہے۔ بھارتی آئین کا یہ آرٹیکل کشمیر کی مسلم اکثریتی شناخت کے تحفظ کا سب سے بڑا ذریعہ تھا لیکن اب بھارتی شہری مقبوضہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور یہاں کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلا جا سکتا ہے۔یہ ویسا ہی منصوبہ ہے جس پر اسرائیل نے فلسطینی علاقوں پر قبضے کے لیے استعمال کیا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں تعینات لاکھوں بھارتی فوجیوں نے پہلے ہی اس متنازعہ علاقے میں زمین کے بڑے بڑے قطعات پر قبضہ کر رکھا ہے۔راقم الحروف نے کشمیر میں بھارتی اقدام پر بھارت کو خبردارکیا تھا کہ موجودہ حالات میں ہماری امن پسندی کو بھارت کمزوری نہ سمجھے لہٰذا ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو یہ دو ملکوں کی جنگ نہیں رہے گی بلکہ خطہ اور دنیا اس کے اثرات محسوس کرے گی۔ کشمیری ہمارے اور ہم ان کے ہیں، ان کا دکھ ہمارا دکھ ہے اور ان کی آنکھ سے بہنے والا آنسو ہمارے دل میں گرتا ہے۔مسئلہ کشمیر کا صرف ایک ہی حل ہے اور وہ ہے رائے شماری۔ مودی نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے کشمیر پر ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر حملہ کیا ہے۔ سلامتی کونسل اور دنیا کو چیلنج کیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ کشمیر میں بہنے والے لہو کے چھینٹے ہمارے دلوں پر گرتے ہیں۔ بھارت نہ بھولے کہ کشمیر کے تین فریق ہیں۔ پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام۔ ہم کشمیر کا پرامن حل چاہتے ہیں۔
٭٭٭