وجود

... loading ...

وجود

حکومت کے خاتمے سے قبل جوڑ توڑ

جمعه 04 اگست 2023 حکومت کے خاتمے سے قبل جوڑ توڑ

آئین کے تحت موجودہ حکومت کی رخصتی میں اب 2 ہفتے بھی نہیں رہے اور اگر وزیراعظم شہباز شریف اسمبلی کی مدت پوری ہونے سے ایک دن پہلے بھی اسمبلی توڑنے کا اعلان کردیں تو آئین کے عین مطابق 90 دن یعنی 12 نومبر تک عام انتخابات کا انعقاد ہونا ہے۔ایک ایسے وقت میں جبکہ حکومت کا جانا ٹھہر گیاہے، وزیراعظم شہباز شریف نے انتخابات نئی مردم شماری کے مطابق کرانے کا عندیہ دے کرانتخابات کے انعقاد کے بارے میں موجود غیر یقینی کی صورت حال میں اضافہ کردیاہے بلکہ اس بات کا برملا اظہار کردیاہے کہ موجودہ آئین کے مطابق وقت پر انتخابات کرانے کے حوالے سے مخلص نہیں ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان میں آئندہ عام انتخابات ملک میں سال رواں (2023) کے دوران ہونے والی ڈیجیٹل مردم شماری کی بنیاد پر ہوں گے اور مردم شماری کے نتائج کی منظوری دینے والے ادارے مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کا اجلاس منعقد ہونے کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز ایک ٹی وی چینل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں نئی مردم شماری کی بنیاد پر انتخابات کرانا ہوں گے،اور مجھے اس میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آرہی۔انہوں نے کہا کہ مردم شماری کے نتائج کو حتمی شکل دیے جانے کے فوراً بعد سی سی آئی کو بھیج دیے جائیں گے۔ غور کیاجائے تووزیر اعظم شہباز کا یہ بیان خود ان کے سابقہ دعووں سے انحراف ہے، جن میں انہوں نے کہا تھا کہ آئندہ الیکشن 2017 کی مردم شماری کی بنیاد پر کرائے جائیں گے۔مسلم لیگ نواز کے رہنما اور وفاقی وزیر احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اگر نئی مردم شماری کے نتائج مکمل ہو جاتے ہیں اور نوٹیفائی کر دیے جاتے ہیں تو پھر قانون کے تحت الیکشن کمیشن کو اس نئی مردم شماری کے تحت حلقہ بندی کرنا ہوتی ہے۔ 2017 میں بھی ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہوا تھا، جب مردم شماری کا عبوری نتیجہ آگیا تھا اور کچھ لوگ سپریم کورٹ گئے کہ نئی مردم شماری کے مطابق انتخابات ہوں لیکن اس وقت کی حکومت نے ایک آئینی ترمیم کے ذریعے پرانی مردم شماری کے تحت انتخابات کروائے تھے،لیکن اب صورت حال پہلے جیسی نہیں ہے، اب ایوان کے نامکمل ہونے کے باعث آئینی ترمیم ممکن نہیں ہے۔ اس لئے اب  اس کا حتمی فیصلہ الیکشن کمیشن کو کرنا ہو گا۔مشترکہ مفادات کونسل، جس میں چاروں صوبوں کے وزرا ئے اعلیٰ شامل ہوتے ہیں اور وزیر اعظم کے زیر صدارت منعقد ہوتی ہے، میں ڈیجیٹل مردم شماری کا نوٹیفکیشن جاری ہو گا اور اگر یہ ممکن نہ ہوا تو الیکشن کمیشن پرانی حلقہ بندیوں پر الیکشن کرانے کا مجاز ہے۔اگر نوٹیفکیشن ہو جاتا تو نئی حلقہ بندیوں پر 4 ماہ کا عرصہ لگے گا س طرح الیکشن میں تاخیر کاجواز پیداہوجائے گا۔
     پاکستان کے آئین کو جہاں سے بھی پرکھا اور پڑھا جائے یہ معاملہ سیدھا سیدھا ہے کہ حکومت کی رخصتی کے بعد وزیراعظم اور قائد حزبِ اختلاف کی مشاورت سے آنے والے نگران وزیراعظم 90 روز میں شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنا کر اقتدار نئی حکومت کے سپرد کر دیں گے۔لیکن اس کے باوجود حکومت کے بااثر وزرا ء اور خود وزیراعظم شہباز شریف نے ایسی باتیں شروع کردی ہیں جن کی وجہ سے انتخابات میں تاخیر کی پیشگوئی کرنے والوں کی قیاس آرائیوں کو تقویت ملتی ہے اور ایک دفعہ پھر یہ سوال زیر بحث آنے لگاہے کہ کیا ایک لمبے عرصے کی نگران حکومت لانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں؟اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ نگران وزیراعظم کا فیصلہ نوازشریف کی رضامندی کے بغیر ناممکن ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ معیشت پر دسترس رکھنے والے اسحاق ڈار نوازشریف کے سب سے زیادہ بااعتماد اور انتہائی قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔ ان تمام حقائق کو مدنظر رکھ کر جواب تلاش کر نابہت مشکل نہیں ہے۔ان تمام حقائق کے پیش نظریہ واضح ہوتاہے کہ ابھی بھی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو نگران وزارت عظمیٰ کے ایک مضبوط امیدوار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا انتخابات بروقت یعنی نومبر میں ہو جائیں گے؟اس کا سیدھا سیدھا جواب یہ ہے کہ ’آئین یہی کہتا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیے۔لیکن تمام ہی اہم اسٹیک ہولڈرز اس بارے میں تذبذب کا شکار نظر آتے ہیں اوربیشتر اپنی نجی گفتگو میں یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ عام انتخابات بروقت یعنی نومبر میں ہی ہوں گے۔مردم شماری اور حلقہ بندیاں اور پھر ان پر اعتراضات ایسے معاملات ہیں جس سے عام انتخابات میں کم از کم 8 ہفتے کی تاخیر ہو سکتی ہے یعنی عام انتخابات اگلے برس فروری یا اس کے فوراً بعد تک جا سکتے ہیں۔
     اب جبکہ موجودہ عبوری حکومت کی مدت پوری ہورہی ہے اور کسی بھی دن اسمبلیوں کے خاتمے کا اعلان ہوجائے گا اس کے ساتھ ہی نگراں حکومت کو اقتدار سنبھال لینا چاہئے لیکن نگراں حکومت کے بارے میں جو باتیں سننے میں آرہی ہیں ان سے حکمرانوں کی اقتدار کی بھوک کا پتہ چلتا ہے اور یہ قیاس آرائیاں درست معلوم ہوتی ہیں کہ نگراں سیٹ اپ طویل عرصے کے لیے لایا جارہا ہے۔ پہلے اسحق ڈار کا نام چلایا گیا اس پر ردعمل دیکھا گیا۔پھر خاموشی ہوئی اس کے بعد اچانک کہیں سے ڈوری ہلائی گئی اور اعتراض اختلاف وغیرہ کرنے والے سب ایک ہوگئے اور راتوں رات بلکہ ایک گھنٹے میں نگراں حکومت کے اختیارات انتخابی قوانین سمیت 29 بل منظور کرلیے گئے۔ اب یہ خبر شدمد کے ساتھ پھیلائی جارہی ہے کہ انتخابات مارچ تک جاسکتے ہیں۔ دوسری طرف جے یو آئی کے ایک رہنما حافظ حمد اللہ کہتے ہیں کہ نگراں سیٹ اپ کے لیے ن لیگ سے بات چیت شروع ہوگئی ہے۔ ان کے اس بیان سے معلوم ہوتاہے کہ اتحادی پارٹیوں کے درمیان بندر بانٹ شروع ہوگئی ہے، حکومت اپنے آخری دنوں میں جتنی تیزی سے کام کر رہی ہے، قانون سازی کی جا رہی ہے اور ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح ہو رہے ہیں۔ وہ اپنی جگہ درست ہو سکتے ہیں تاہم کچھ ایسی خبریں آ رہی ہیں کہ حکومت اس اسمبلی کی مدت کے دوران چند ایسے فیصلے بھی کرنا چاہتی ہے جو سیاسی حوالے سے متنازع فیصلے کہلائیں گے۔ بہتر ہوگا ان کاموں میں نہ پڑا جائے اور ایسی روایات قائم نہ کی جائیں جو آگے چل کر خود جمہوری قوتوں کے لئے مشکلات کا باعث بن جائیں۔ انتخابات کو شفاف اور غیر جانبدار بنانے کا تقاضا یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو ان میں حصہ لینے کا یکساں موقع دیا جائے، تحریک انصاف ایک بڑی سیاسی جماعت ہے اسے انتخابات سے باہر کر کے انتخابی عمل کی شفافیت کو برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ بھی کوئی اچھی بات نہیں ہو گی کہ صرف اس ڈر سے کہ تحریک انصاف کہیں انتخابات میں اکثریت ہی نہ حاصل کر لے،ا نتخابات غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیے جائیں۔ ملک میں سیاسی استحکام صرف اسی صورت میں آ سکتا ہے کہ انتخابات بروقت کرا کے اقتدار نئی منتخب حکومت کو سونپ دیا جائے، اس بار جب انتخابات ہوں گے تو دنیا بھر کی نظریں پاکستان پر لگی ہوں گی، غیر ملکی مبصرین اور صحافیوں کی ایک بڑی تعداد بھی پاکستان میں ہو گی ان کی موجودگی میں اگر الیکشن کی شفافیت برقرار نہ رکھی گئی تو بڑے سوالیہ نشانات لگ جائیں گے، مسلم لیگ (ن) کا معاملہ بظاہر یہ نظرآتا ہے کہ وہ نوازشریف کے بغیر انتخابات میں نہیں جانا چاہتی نوازشریف کو واپس لانے کیلئے حکومت کی اب تک کی کوششیں بار آور ثابت نہیں ہوسکیں، جب ملک میں شہباز شریف یعنی نواز شریف کے چھوٹے بھائی کی حکومت ہے اور وہ نواز شریف کی واپسی کو یقینی بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکی توپھر ایک نگران سیٹ اپ میں نوازشریف کیلئے راہ کیسے ہموار کی جاسکے گی، یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ویسے بھی مسلم لیگ (ن) بظاہر تحریک انصاف کی موجودگی سے خوفزدہ نظر آتی ہے گزشتہ 16 ماہ کی حکومت نے جس جماعت کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ مسلم لیگ (ن) ہے، خود لاہور کے اندر اس کی مقبولیت پر منفی اثر پڑا ہے، ایسے میں اس کے پاس بچنے کیلئے کچھ بھی نہیں سوائے نوازشریف کے۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی رہنما اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اگر انتخابات میں جانا ہے تو پھر نوازشریف کو پاکستان لانا ہوگا۔ بہر حال یہ سیاسی معاملات جس طرح بھی چلیں البتہ اس معاملے پر سبھی سیاسی قوتوں کو متحد ہو جانا چاہئے کہ انتخابات وقت پر کرائے جائیں اور ان کی شفافیت پر کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے۔لیکن سوال یہ پیداہوتاہے کہ اس وقت جبکہ حکومت میں شامل ہر چھوٹی بڑی پارٹی حکومت کے خاتمے سے پہلے اپنے مفادات کے تحفظ کی ضمانت مانگ رہی ہے اور حکمراں جماعتوں میں ایک بندر بانٹ جاری ہے، اس ماحول میں ایک غیر جانبدار نگراں حکومت کیسے آسکتی ہے۔ ظاہر ہے حکومت میں شامل تمام جماعتیں اپنے کاموں کو تحفظ اور تسلسل دینے کے لیے ایسے نگراں سیٹ اپ کی کوشش کریں گی جو معاملات کو جوں کا توں رکھ کرموجودہ حکمراں اتحاد کو انتخابات جیتنے میں مدد فراہم کرسکے۔ اس سے حکمرانوں کا آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے دعووں اور عوام اور ملک کے ساتھ ان کے خلوص کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس صورت حال سے پی ٹی آئی کے ان دعووں کو تقویت ملتی ہے کہ یہ لوگ صرف اس کے خوف سے الیکشن سے دور بھاگ رہے ہیں۔جبکہ یہ حقیقت ہے کہ قوم جو کچھ چاہتی ہے حکمراں اور مقتدر طبقات وہ نہیں ہونے دینا چاہتے۔ معاملہ صرف پی ٹی آئی کے حامیوں کو ان کے حق سے محروم کرنے کا نہیں ہے۔ سوال مینڈیٹ پر ڈاکے کا ہے جس کی بظاہر تمام تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔


متعلقہ خبریں


امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود - پیر 08 جولائی 2024

مولانا محمد سلمان عثمانی حضرت سیدناعمربن خطاب ؓاپنی بہادری، پر کشش شخصیت اوراعلیٰ اوصاف کی بناء پر اہل عرب میں ایک نمایاں کردار تھے، آپ ؓکی فطرت میں حیا ء کا بڑا عمل دخل تھا،آپ ؓ کی ذات مبارکہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ نبی مکرم ﷺ خوداللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا مانگی تھی ”...

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود - بدھ 01 مئی 2024

بھارت میں عام انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی اختتام کے قریب ہے، لیکن مسلمانوں کے خلاف مودی کی ہرزہ سرائی میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جارہاہے اورمودی کی جماعت کی مسلمانوں سے نفرت نمایاں ہو کر سامنے آرہی ہے۔ انتخابی جلسوں، ریلیوں اور دیگر اجتماعات میں مسلمانوں کیخلاف وزارت عظمی کے امی...

نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود - بدھ 13 مارچ 2024

مولانا زبیر احمد صدیقی رمضان المبارک کو سا ل بھر کے مہینوں میں وہی مقام حاصل ہے، جو مادی دنیا میں موسم بہار کو سال بھر کے ایام وشہور پر حاصل ہوتا ہے۔ موسم بہار میں ہلکی سی بارش یا پھو ار مردہ زمین کے احیاء، خشک لکڑیوں کی تازگی او رگرد وغبار اٹھانے والی بے آب وگیاہ سر زمین کو س...

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود - منگل 27 فروری 2024

نگران وزیر توانائی محمد علی کی زیر صدارت کابینہ توانائی کمیٹی اجلاس میں ایران سے گیس درآمد کرنے کے لیے گوادر سے ایران کی سرحد تک 80 کلو میٹر پائپ لائن تعمیر کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ اعلامیہ کے مطابق کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے پاکستان کے اندر گیس پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی،...

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود - هفته 24 فروری 2024

سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر گزشتہ روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر جسے اب ا یکس کا نام دیاگیاہے کی سروس بحال ہوگئی ہے جس سے اس پلیٹ فارم کو روٹی کمانے کیلئے استعمال کرنے والے ہزاروں افراد نے سکون کاسانس لیاہے، پاکستان میں ہفتہ، 17 فروری 2024 سے اس سروس کو ملک گیر پابندیوں کا سامنا تھا۔...

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود - جمعه 23 فروری 2024

ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جنوری میں مہنگائی میں 1.8فی صد اضافہ ہو گیا۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ شہری علاقوں میں مہنگائی 30.2 فی صد دیہی علاقوں میں 25.7 فی صد ریکارڈ ہوئی۔ جولائی تا جنوری مہنگائی کی اوسط شرح 28.73 فی صد رہی۔ابھی مہنگائی میں اضافے کے حوالے سے ادارہ ش...

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف وجود - پیر 19 فروری 2024

عالمی جریدے بلوم برگ نے گزشتہ روز ملک کے عام انتخابات کے حوالے سے کہا ہے کہ الیکشن کے نتائج جوبھی ہوں پاکستان کیلئے آئی ایم ایف سے گفتگو اہم ہے۔ بلوم برگ نے پاکستان میں عام انتخابات پر ایشیاء فرنٹیئر کیپیٹل کے فنڈز منیجر روچرڈ یسائی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے بیرونی قرض...

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود - جمعرات 08 فروری 2024

علامہ سید سلیمان ندویؒآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تعلیم او رتزکیہ کے لیے ہوئی، یعنی لوگوں کو سکھانا اور بتانا اور نہ صرف سکھانا او ربتانا، بلکہ عملاً بھی ان کو اچھی باتوں کا پابند اور بُری باتوں سے روک کے آراستہ وپیراستہ بنانا، اسی لیے آپ کی خصوصیت یہ بتائی گئی کہ (یُعَلِّ...

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق وجود - بدھ 07 فروری 2024

بلوچستان کے اضلاع پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی امیدواروں کے دفاتر کے باہر دھماکے ہوئے ہیں جن کے سبب 26 افراد جاں بحق اور 45 افراد زخمی ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق بلوچستان اور خیبر پختون خوا دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں ہیں، آج بلوچستان کے اضلاع پشین میں آزاد امیدوار ا...

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر  کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں وجود - منگل 06 فروری 2024

مولانا محمد نجیب قاسمیشریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق کی مکمل طور پر ادائیگی کرے۔ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے قرآن وحدیث میں بہت زیادہ اہمیت، تاکید اور خاص تعلیمات وارد ہوئی ہیں۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،...

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

پاکستان میں صارفین کے حقوق کی حفاظت کا کوئی نظام کسی بھی سطح پر کام نہیں کررہا۔ گیس، بجلی، موبائل فون کمپنیاں، انٹرنیٹ کی فراہمی کے ادارے قیمتوں کا تعین کیسے کرتے ہیں اس کے لیے وضع کیے گئے فارمولوں کو پڑتال کرنے والے کیا عوامل پیش نظر رکھتے ہیں اور سرکاری معاملات کا بوجھ صارفین پ...

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

خبر ہے کہ سینیٹ میں عام انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد پر توہین عدالت کی کارروائی کے لیے دائر درخواست پر سماعت رواں ہفتے کیے جانے کا امکان ہے۔ اس درخواست کا مستقبل ابھی سے واضح ہے۔ ممکنہ طور پر درخواست پر اعتراض بھی لگایاجاسکتاہے اور اس کوبینچ میں مقرر کر کے باقاعدہ سماعت کے بعد...

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا

مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر