... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
حزب اختلاف نے اپنے نام اور کام سے مودی جی کے ہوش اڑادئیے ۔ اس نے اپنا نام ‘انڈیا ‘ رکھا تو وزیر اعظم کو ایسٹ انڈیا کمپنی اور انڈین مجاہدین یاد آگئے اور تحریک عدم اعتماد پیش کی تو وہ ایوان پارلیمان سے راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے یعنی گیند بازی کے لیے میدان میں آئے تو پہلے ہی بال پر کلین بولڈ کردیا اور بلہ بازی کے لیے اترے تو پہلی گیند پر چھکا لگا دیا ۔ اس طرح اگر کسی کھیل کی ابتداء ہو تو اس کے انجام کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ۔ تحریک عدم اعتماد کی بحث پر جوابی تبصرہ وزیر اعظم کوکرنا ہوتا ہے ۔ اس کے لیے ایوان کی کارروائی کو سننا لازمی ہے ۔
ذہین اور باصلاحیت رہنما بحث کو بغور سماعت کرکے اس کا جواب تیار کرتا ہے تاکہ اسے پرزور طریقہ پر پیش کیا جاسکے ۔ اس لیے مودی جی اگر ایوان میں بیٹھنے کی ادا کاری بھی کریں تو لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہوجائیں گے کہ انہوں نے اپنی اختتامی تقریر خود تیار کی ہے لیکن یہ ان سے نہیں ہوگا کیونکہ دراصل اپنا خطاب خود تیار کرنے کے لیے صبرو تحمل کے ساتھ مطلوبہ صلاحیت بھی درکار ہے ۔ مودی جی خود کو عقل کُل سمجھنے والی رعونت بھی اس راہ کا روڑا ہے ۔اس لیے وہ دوسروں کی تیارکردہ تقریر پر محض کٹھ پتلی کی مانند ادا کاری کرتے ہیں ۔ ایسے میں اروند کیجریوال کا مکالمہ ‘وزیر اعظم کو پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے ‘ یاد آجاتا ہے ۔وزیر اعظم حزب اختلاف کے نام سے اس قدر چیں بجبیں ہوئے کہ اسے ”ایسٹ انڈیا کمپنی ”اور” انڈین مجاہدین ”سے جوڑ دیا۔ اس نام پر ہندو مسلم کارڈ کھیلنے والے مودی جی بھول گئے اسی سال مارچ میں جن مسلم نوجوانوں کو جئے پور بلاسٹ کے نام پر گرفتار کیا گیا تھا وہ سب رہا ہوگئے ۔ عدالت نے سرکاری ایجنسی پر جھوٹے ثبوت فراہم کرکے بے قصور لوگوں کو گرفتار کرنے کا سنگین الزام لگایا ۔ مالیگاوں دھماکہ پر بھی سارے مسلمان ملزم چھوٹ گئے لیکن کرنل پروہت اب بھی جیل میں چکی پیس رہا ہے ۔
پرگیہ ٹھاکر رکن پارلیمان ہونے کے باوجود ہنوز عدالت کے چکرکاٹ رہی ہے اور مودی سرکار نوسال کے بعد بھی ان کی پیشانی پر لگا دہشت گردی کا کلنک نہیں مٹاسکی ۔ بدقسمتی سے انٹر نیٹ پر ان سارے دھماکوں کے لیے انڈین مجاہدین کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے ۔ ایک مرتبہ ممبئی پولیس کے افسران نے بھی انڈین مجاہدین کو سرکار ی قرار دے دیا تھا مگر اس خبر کو غائب کردیا گیا ۔ انڈین مجاہدین کے نام گرفتار ہونے والوں کی رہائی دال میں کالا ثبوت ہے ۔وزیر اعظم کو حزب اختلاف نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی یاد دلا دی ۔ یہ برطانوی سرکار کی آلۂ کار تھی ۔ ہندو مہاسبھا اور سنگھ پریوار بھی جنگ آزادی مکے دوران غیر ملکی سامراج کے باجگذار تھے اس لیے دونوں میں یک گونہ مشابہت ہے ۔ ہندوتوا نوازوں کے پاس جب اقتدار نہیں تھا تو وہ کیفیت تھی لیکن حکومت سازی کے بعد انہوں نے بھی اڈانی کی ویسٹ انڈیا کمپنی کو اپنا آلۂ کار بنا رکھا ہے ۔ اس کا مرکزی دفتر کولکاتہ کے بجائے احمد آباد میں ہے ۔اڈانی گروپ کی بد معاشیوں اور بدعنوانیوں کے سامنے تو ایسٹ انڈیا کمپنی بھی پانی بھرتی ہے ۔ اس کے تحت چلنے والی بندرگاہ سے ہزاروں کروڈ کی منشیات پکڑی جاتی ہیں لیکن سرکاری سرپرستی کے سبب اس کا بال بیکا نہیں ہوتا ۔ ہنڈن برگ کی رپورٹ اس کو ننگا کرکے تیسرے نمبر سے تیسویں نمبر پر پہنچا دیتی ہے پھر بھی وزیر اعظم کی پیشانی پر شکن نہیں آتی ۔ ایسے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی دہائی دینے والے وزیر اعظم کو یہ بتانا چاہیے کہ ویسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ یہ رشتہ کیا کہلاتا ہے ؟ اور منی پور کے بابت ان کی چپیّ کیا کہلاتی ہے ؟
عدم اعتماد کی تحریک کے اجازت ملنے پر حزب اختلاف نے جب ‘چک دے انڈیا’ کا نعرہ لگایا تو بی جے پی والے جل بھُن کر خاک ہو گئے ۔ ایوان کے نرم مزاج اسپیکر اوم بڑلا تک اپنا آپہ کھو بیٹھے اور کانگریس کو نصیحت کرنے لگے کہ اتنی قدیم سیاسی جماعت ہو نے کے باوجود اس طرح کی بدتہذیبی آپ کو زیب نہیں دیتی۔ ایوان کے وقار کی دہائی دینے والے بھول گئے کہ وہاں اہل اقتدار کی جانب سے ہر ہر مہادیو، جئے شری رام اور مودی مودی جیسے نعرے لگتے رہے ہیں ۔اس وقت چونکہ وقار میں اضافہ ہوتا تھا اس لیے جنابِ صدر اسے روکنے کے بجائے مسکرا مسکرا کر تائید کیا کرتے تھے لیکن اب صرف ‘چک دے انڈیا’ کہہ دینے سے قیامت آگئی۔ سچ تو یہ ہے کہ جب سے حزب اختلاف نے اپنے وفاق کامخفف انڈیا رکھا ہے ان لوگوں کو اپنے ملک کے نام سے ہی نفرت ہوگئی ہے ۔ اس کا مظاہرہ کرتے ہوئے آسام کے بدزبان وزیر اعلیٰ نے اپنے ڈی پی سے انڈیا نکال کر بھارت کردیا ۔ سوال یہ ہے کہ ان کو اپنی غلطی کا احساس اس وقت کیوں نہیں ہوا جب مودی سرکار ڈیجیٹل انڈیا ، میک ان انڈیا اور سکِل انڈیا جیسے منصوبوں کا اعلان کررہی تھی۔
اب کیا یہ ملک آئین سے بھی انڈیا نکلوادیں گے ؟ تو اس سوال کا جواب ایوان بالا میں بی جے پی کے رکن نریش بنسل نے انڈیا کو دستور سے ہٹانے کا مطالبہ کرکے دے دیا۔ ان کے مطابق وزیر اعظم لال قلعہ سے غلامی کی ساری نشانیوں کو مٹانے کا اعلان کرچکے ہیں اور انڈیا نوآبادیاتی ذہنیت کا نمائندہ نام ہے ۔ نبسل کہتے ہیں مجاہدین آزادی کی قربانیوں سے ملک آزاد ہوا مگر آئین میں انڈیا ڈیٹ از بھارت لکھا گیا جبکہ صدیوں سے یہ بھارت ہے ۔اس لیے غلامی کی اس علامت کو ہٹا کر بھارت ماتا کو آزاد کیا جائے ۔ آزادی کی جنگ جب جاری تھی تو ان لوگوں نے معافی تو مانگی لیکن کوئی قربانی نہیں دی ۔ اب انگلی کٹا کر یعنی نام بدل کر شہید ہونا چاہتے ہیں ۔ویسے حزب اختلاف نے کمال حکمت سے بی جے پی کو انڈیا کی مخالفت پر مجبور کردیا ہے لیکن اس ہنگامہ کے ذریعہ سرکار منی پور کی ناکامی پر پردہ ڈالنا جاتی ہے ۔
منی پور میں برپا تشدد کو میتئی اور کوکی قبائل کے درمیان کا تنازع سمجھا جا تا تھا مگر اب ایک نیا زاویہ سامنے آیا ہے ۔ ذرائع ابلاغ میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ منی پور میں کم از کم 27 غیر قبائلی افراد لاپتہ ہیں، جن میں دو صحافی، دو نابالغ اور دو خواتین شامل ہیں۔ ان لاپتہ افراد کی عمریں 17 سے 47 سال کے درمیان ہیں۔ذرائع کے مطابق لاپتہ ہونے والے مقامی صحافیوں کے نام آتم سمریندر سنگھ اور یوم کھیبام کرن کمار سنگھ ہیں۔ یہ گمشدگیاں مئی ، جون اور جولائی میں منی پور کے مختلف اضلاع سے ہوئی ہیں۔ ریاست کے مختلف تھانوں میں اس تعلق سے ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔سپریم کورٹ کی سماعت کے ایک دن پہلے منظر عام پر آنے والی اس اندوہناک خبر سے متعلق عدالت کے رویہ پر عوام کی نگاہ ہے کیونکہ موجودہ ریاستی اور مرکزی حکومت نے توساری دنیا کو مایوس کیا ہے اور حکومت اس پر ایوان میں بحث سے منہ چرا رہی ہے ۔یہ حسن اتفاق ہے کہ راہل گاندھی کا مائک بند کرنے اور انہیں ایوان سے نکالنے والوں کی زبان گنگ ہوگئی ہے اور خود ان کا ایوان میں داخلہ مشکل ہوگیا ہے۔ اس کو قدرت کا انصاف کہتے ہیں ۔
منی پور کے معاملے نہ صرف مودی سرکار بلکہ پورے سنگھ پریوار کو سانپ سونگھ گیا ہے ، کوئی کھل کر کچھ نہیں بولتا ۔ سوشیل میڈیا میں درپردہ ان کے چیلے چاپڑ کوکی قبائلیوں پر مظالم کو جائز قرار دینے کے لیے کبھی انہیں باغی قرار دیتے ہیں تو کبھی ان کومنشیات کا سوداگر کہا جاتا ہے ۔ اب تو صدیوں سے وہاں رہنے والوں کو روہنگیا کی مانند میانمار سے در اندازی کرنے والا بھی کہا جارہا ہے ۔ یہ بکواس کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ اگر ایسا ہے تو بی جے پی نے اپنے ٹکٹ پر انہیں صوبائی اسمبلی میں کامیاب کرکے وزیر کیوں بنایا؟ وہ لوگ فوج میں شامل ہوئے اور کارگل کی جنگ میں حصہ لیا یہ اور بات ہے کہ اپنے اہل خانہ کو نہیں بچا سکے ۔ ویسے بی جے پی کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے کوکی ارکان اسمبلی کو مار مار کر ادھ مرا کر کے ان فسطائیوں نے اپنے تحفظ کی خاطر بی جے پی سے پینگیں بڑھانے والے مسلمانوں کو بھی عبرت کا پیغام دیا ہے ۔وزیر اعظم کی مانند راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کی خاموشی بھی چونکانے والی ہے ۔ آر ایس ایس کے کسی اہم رہنما نے ہنوز منی پور جانے کی ہمت نہیں کی ہے حالانکہ بھاگوت کو زیڈ پلس سیکیورٹی حاصل ہے ۔ وہ فی الحال آسام کے سہ روزہ دورے پر ہیں۔اپنے دورے کے دوران وہ کارکنان کے ایک تربیتی کیمپ سے خطاب کریں گے جو 12 جولائی کو شروع ہوا تھا اور یکم اگست کو اختتام پذیر ہوگا۔اس کیمپ میں وسطی آسام سے 151 ، شمالی آسام سے 95 جنوب سے 12 ، 4 اروناچل ، 44 تریپورہ اور 6 رضاکار منی پور سے بھی شامل ہیں ۔
پورا شمال مشرق جل رہا ہے لیکن دنیا و مافیہا سے بے نیاز یہ بے ضمیر لوگ اپنے کوئیں میں بند ہیں۔ اپنی دلیری کی داستانیں سنانے والے سنگھ پریوار میں اگر ہمت ہوتی تو آسام سے جانے سے قبل بھاگوت منی پور کا دورہ کرتے لیکن ایسے بزدلوں سے یہ توقع کرنا ہی فضول ہے ۔ اسی لیے ان لوگوں کے اوپر سے قوم کا بھروسہ اٹھ گیا ہے اور عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی ہے ۔مودی سرکار اور سنگھ پریوار کی بزدلی پر وسیم بریلوی کا ایک شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے
کچھ اتنا خوف کا مارا بھی اقتدار نہ ہو
وہ اعتماد دلائے ،تو اعتماد نہ ہو
٭٭٭
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔