... loading ...
ریاض احمدچودھری
پاکستان میں وسیع پیمانے پر کرپشن کا آغاز ایوب خاں کے زمانے میں ہوا۔ ایوب خاں کا خاندان اور ان کے عزیز و اقارب سیاسی اور سرکاری اثرورسوخ کی وجہ سے مالی وسائل سمیٹ رہے تھے۔ اس صورتحال میں اہم عہدوں پر فائز سرکاری افسر بھی قومی دولت لوٹنے کیلئے سرگرم عمل ہوگئے۔ اس دور میں سرکاری افسر ، جن میں وفاقی سیکرٹری، صوبائی چیف سیکرٹری ، کمشنر اور اعلیٰ پولیس افسروں سمیت دیگر محکموں میں فائز اعلیٰ افسر بھی شامل تھے ، بری طرح کرپشن میں ملوث تھے۔ وطن عزیز میں کرپشن کے خلاف پہلی بارٹھوس اور تاریخی اقدام سابق صدر جنرل یحییٰ خاں نے 1969ء میں مارشل لاء لگانے کے بعدکیا۔ انہوں نے اعلیٰ سول اور پولیس افسروں سمیت تین سو پانچ افسروں کو کرپشن اور بدعنوانی کے الزام میں معطل کیا۔ لیکن اس سے قبل قائد اعظم کے زمانے میں ہی پہلا اور مؤثر احتساب ان کی کابینہ میں ہوا تھا۔ایوب کھوڑو وفاقی کابینہ میں شامل تھے۔جب ان کے بارے میں شکایت ملی کہ وہ کرپشن میں ملوث ہیںتو قائد اعظم نے ان کے خلاف کرپشن کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا۔ ان کو کابینہ سے الگ کر دیا گیا اور ان کے خلاف مقدمہ بنا تو پہلی بار کسی سندھی نے سندھ کارڈ استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن قائد نے ان کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی ۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کو بیوروکریٹس نے بدعنوان بنایا۔ انہوں نے انہیں راستے بتائے۔ ایبڈو کے تحت ممتاز دولتانہ نا اہل ہوگئے۔ ان پر بی ایس سی انجینئر کو ملازمت دینے کا الزام تھا جسے وہ جانتے تک نہ تھے مگر اس الزام پر نا اہل قرار پائے۔ اس وقت مولوی مشتاق حسین مرحوم ایڈووکیٹ جنرل اور پراسیکیوٹر تھے۔ شیخ محمد رشید پیپلزپارٹی والے بھی اسی زمانے میں نا اہل ہوئے۔ اس وقت بیوروکریسی کرپٹ اوربے حد بدنام تھی۔ سول بیوروکریسی میں بہت زیادہ کرپشن تھی۔ اس کا آغاز 1958ء میں فیروز خان نون کے جانے کے بعد اور جنرل ایوب خاں کے آنے پر ہوا۔ مثال کے طورپر ایس آئی حق جو چیف سیکرٹری مغربی پاکستان تھے، ان کا داماد محمد عارف کوئٹہ میں وکیل تھا۔ ان کو بھی ملوں کے اعزازی شیئر دیئے گئے۔ چیف سیکرٹری کے رشتے داروں کو بھی فائدے پہنچائے جاتے تھے۔ کمشنر علاقے کا وائسرائے سمجھا جاتاتھا۔ ڈی سی اس کا نائب ہوتاتھا۔ ان افسروں کے پاس اس قدر اختیارات تھے کہ کرپشن میں ملوث ہونے کے باوجود انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔
ایوب خاں کے دور میں کرپشن زیادہ پھیلی۔ اس وقت اسماعیلیوں، سنیوں اور میمنوں کا مقابلہ تھا۔ صنعتکاروں کے بیس بائیس خاندانوں میں چند اسماعیلی تھے، کچھ خاندان سنی اور کچھ بوہرہ فرقہ سے تعلق رکھتے تھے۔دادا فیملی اور داؤد فیملی سنی تھے اور باوانی فیملی بھی سنی تھی۔ اسماعیلیوں میں حبیب، ہاشوانی اور دیگر ایسے لوگ شامل تھے۔ آغاخاں کی بڑی دھوم تھی۔ اسماعیلیوں کی کوشش تھی کہ کاروبار پر ان کی اجارہ داری ہو۔ سیٹھ احمد داؤد نے اسماعیلیوں کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی۔ انہوں نے جنرل ایوب خاں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے بیٹوں اختر ایوب اور گوہر ایوب کو صنعتی شعبے میں لائیں، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ایوب خاں کے سسر جنرل حبیب اللہ بھی صنعتکار بن گئے۔ جنرل حبیب اللہ کے بیٹے جنرل علی قلی خاں بھی یہی کام کرنے لگے اور بڑے صنعتکار بن گئے۔ میں نے احمد داؤد سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا تو انہوں نے بتایا کہ اسماعیلی مشرقی اور مغربی پاکستان سے آگے آرہے تھے ان کا رواستہ روکنے کیلئے ہمارے پاس اور کوئی چارہ کار نہیںتھا۔ اس لئے ہم ایوب خاں کو اس طرف لائے۔ ایوب خاں چین گئے تو احمد داؤد کو بھی لے گئے۔ کرنافلی پیپر مل تیرہ ارب کے سرمائے سے لگی تھی۔ یہ مل مشرقی پاکستان میں سیٹھ احمد داؤد کی بہت بڑی سرمایہ کاری تھی۔ احمد داؤد کی جانب سے قرآن پاک کی طباعت کیلئے برائے نام قیمت پر کاغذ فراہم کیا جاتا تھا۔ جنرل ایوب خاں نے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کو فنڈز دینے کی طرح ڈالی جس سے کرپشن کر فروغ ملا۔
ملک میں کرپشن بہت عام ہو چکی تھی اور بعض مقتدر افراد اور سیاسی رہنما ؤں کی جانب سے کرپشن کا دفاع کیا جا رہاتھا۔ایک دفعہ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری نے ریمارکس دیے تھے کہ اب کرپشن کا کھلے عام دفاع کیا جانے لگا ہے اور کرپشن کے خلاف آواز نہیں اٹھائی جا رہی۔ بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں میں کئی عہدوں پر فائز بعض اہم رہنما کرپشن میں بری طرح ملوث ہیں اور اپنے اپنے دور حکومت میں دونوں ہاتھوں سے قومی دولت لوٹ چکے ہیں۔ یہ لوگ اپنے ادوار میں سرکاری فنڈز خورد برد کرتے رہے۔ اگرچہ سپریم کورٹ ، میڈیا اور سول سوسائٹی کرپشن کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود کرپشن کے خلاف ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جا سکے۔ گزشتہ ادوار میں لوٹ مار اور بندر بانٹ کے باعث مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے اور عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو رہی ہے۔ ایک طرف بڑے بڑے عہدوں پر فائز سرکاری افسر اورلیڈر قومی دولت کی لوٹ مار کے باعث عیش و عشرت میں مگن رہے اور دوسری طرف غریب اور فاقہ کش افراد خود سوزی اور خود کشی کرنے پر مجبور رہے۔ قومی دولت اور وسائل کی لوٹ کھسوٹ کی وجہ سے پی آئی اے، پاکستان سٹیل مل اور پاکستان ریلوے سمیت پبلک سیکٹر کے کئی ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے۔
جنرل یحییٰ خاں کے دور میں جب راقم الحروف ملتان میں ‘جسارت’کا ایڈیٹر تھا تو سید قاسم رضوی بطور کمشنر ملتان میں تعینات تھے۔ انہوںنے اسلامیہ کالج میں تقریر کی تو ‘امروز’ کے رپورٹر نے ان کے بیان کو غلط رنگ دے کر توڑ موڑ کر شائع کیا۔ قاسم رضوی اس بات پر بہت ناراض تھے۔ انہوں نے آغا شیر احمد خاموش ایڈووکیٹ سے رابطہ کیا ۔ آغا صاحب تحریک پاکستان کے کارکن اور بہت اچھے شاعرتھے۔ وہ میرے گہرے دوست تھے ، اکثر میرے پا س تشریف لاتے تھے۔ میں بھی اکثر ان کے ہاں ملاقات کیلئے جایا کرتاتھا۔ انہوں نے مجھے فون کیا کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا میں آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ نہیں میں قاسم رضوی کمشنر کو ساتھ لے کر آپ کے پاس آنا چاہتا ہوں۔ میں نے گزارش کی کہ میں ان سے قطعا ً ملنا نہیں چاہتا۔ جب یہ لائل پور میں ڈپٹی کمشنر تھے تو انہوں نے میرے خلاف جھوٹا مقدمہ بنانے کی کوشش کی جس میں یہ ناکام ہوگئے تھے۔ اس وقت غلام حیدر چیمہ ڈپٹی ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ تھے۔ انہوں نے رپورٹ پیش کی تھی کہ ا س طرح کا کوئی کیس ریاض احمد چودھری کے خلاف نہیں بن سکتا۔ میںنے کہا کہ ان کے بس میں جو کچھ ہواوہ کر گزرے۔ اب تو میں اس موقع کی تلاش میں ہوں کہ میں ان کے بارے میں اپنا قلم استعمال کروں اور جو کچھ انہوں نے کیا میں اس کا جواب دوں۔
1969ء میں ملتان کے گیریژن کمانڈر میجر جنرل ابوبکر عثمان مٹھا تھے، وہ بہت ہی دیانت دار اور محب وطن فوجی افسر تھے۔ دانشور اور معاملہ فہم تھے۔ میں اکثر ان سے کہا کرتا تھا کہ بیوروکریسی میں کرپشن بہت زیادہ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان ان کی سلطنت بن چکا ہے۔ ڈپٹی کمشنر اپنے علاقے کا بادشاہ ہوتا ہے تو کمشنر اپنے علاقہ کا شہنشاہ ہے۔ اتنی کرپشن ہے کہ لوگوں کے مسائل اور معاملات حل نہیں ہوتے۔ اکثر غیر قانونی تقرریاں ہوتی ہیں۔ میں نے جی او سی میجر جنرل عثمان مٹھا سے بڑھتی ہوئی کرپشن کے خلاف اقدام اٹھانے کی اپیل کی۔ اس زمانے میں کور کمانڈر تو نہیں ہوتے تھے گیریژن کمانڈر ہوتے تھے۔ مارشل لاء کے تحت تمام اہم فیصلے گیریژن کمانڈروں کے اجلاس میں کیے جاتے تھے۔ انہوں نے گریژن کمانڈروں کے اجلاس کے ایجنڈے میں کرپشن کے خلاف اقدام کی تجویز شامل کرائی۔ دسمبر 1969ء کے پہلے ہفتے کے دوران یہ تجویز منظور ہوگئی اور کرپٹ سرکاری افسروں کو مارشل لاء کے تحت سزائیں دینے کا فیصلہ ہوا کہ ان افسروںکے خلاف مارشل لاء قوانین ، ضابطہ 85 اور 59 کے تحت کارروائی کی جائے اور ان کو سزائیں دی جائیں گی۔
جنرل مٹھا صاحب پنڈی سے واپس آئے تو مجھے اپنے دفتر میں بلایا کہ آپ کہتے تھے کرپشن بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ اب آپ میرے دفتر میں آئیں ۔ جن افسروں کے بارے میں جانتے ہیں ان کے بارے میں رپورٹ تیار کریں تاکہ ان کے خلاف کوئی کارروائی ہو سکے۔ یہ ہمارے لئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ میں نے جنرل صاحب سے کچھ وقت مانگا۔ انہوں نے کہا کہ اب تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔ چنانچہ انہوں نے بھی دوسرے گیریژن کمانڈروں کی طرح بدعنوان سرکاری افسروں کے خلاف سمری بنانے کا کام شروع کر دیا۔ جب تمام اعلیٰ افسروں کے بارے میں سمریاں تیار ہو گئیں تو مجھے سرکاری ذرائع سے اطلاع ملی کی تین سو کے قریب اعلیٰ افسروں کو بدعنوانی کی بنا پر فارغ کیا جار ہا ہے۔ میں نے اس بارے میں ‘پاکستان ٹائمز’ لاہور ، پنڈی میں ایک تفصیلی رپورٹ تیار کر کے شائع کی جس میں ستائیس اعلیٰ افسروں کے نام بھی شامل تھے۔ ان میں سرفہرست قاسم رضوی کا نام تھا۔ دس اور کمشنر تھے ان میں محمد عثمان اور سید حماد رضابھی شامل تھے جو ملتان کے کمشنر رہ چکے تھے۔ اسی طرح پنڈی کے کمشنر ایم ایچ شاہ بھی تھے، جو جسٹس نسیم حسن شاہ کے بھائی تھے۔ یہ بھی ان افسرں میں شامل تھے جن کو ملازمت سے فارغ کیا گیا۔ مغربی پاکستان کے چیف سیکرٹری شیخ اکرام الحق، ملتان میں ان کے بھائی ڈی ایس ریلوے انعام الحق، بھی کرپشن میںملوث تھے۔ اس طرح بہت سے وفاقی سیکریٹری تھے جن کو میں جانتا تھا، انہوں نے بڑی بڑی جائیدادیں بنا رکھی تھیں۔ خبروں کی اشاعت کے بعد ان کا پرسنل اسٹاف مجھے فون کر کے پوچھتا رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ خبر پڑھنے کے بعد یہ افسر بہت خوفزدہ ہیں۔ میں ان کو بتاتا تھا کہ ملک میں مارشل لاء نافذ ہے، اگر یہ چاہیں تو میرے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں۔ ان کاا سٹاف مجھے بتاتا تھا کہ یہ بدعنوان افسر گھبرائے ہوئے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ یوں لگتا ہے جیسے سمری ریاض احمد چودھری نے تیار کی ہے اور اس میں ان کا ہاتھ ہے۔ بہر حال چند ہفتوں کے بعد سات دسمبر 1969ء کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر جنرل یحییٰ خاں نے بدعنوانی اور کرپشن میں ملوث 83 سی ایس پی اور اعلیٰ سول پولیس افسروں سمیت 303اعلیٰ افسروں کی معطلی کا اعلان کر دیا۔ ان لوگوں میں چیف سیکریٹری مغربی پاکستان شیخ اکرام الحق، وفاقی سیکرٹری عاشق حسین مزاری ، ایس ایس جعفری، الطاف گوہر، ایس کے رحیم، سید دربار علی شاہ، ابو نصر، اکبر عادل، سید قاسم رضوی، آصف مجید ، اے کے ایم موسیٰ ، مصطفی زیدی، ایم عثمان کمشنر ، سید ایم ایچ شاہ کمشنر راولپنڈی، سید حماد رضا کمشنر ملتان، اللہ نواز ترین،ڈی آئی جی کراچی ، شیخ انعام الحق ڈی ایس ریلوے ملتان کے نام شامل تھے۔ معطلی سے قبل افسروں کو موقع دیا گیا کہ اپنی صفائی پیش کریں۔ جس پر بعض افسروں نے اپنی صفائی پیش کی اور الزام ثابت نہ ہونے پر ملازمت پر بحال ہوگئے۔ ان میں سے ڈاکٹر عبدالحق چیئرمین انٹرمیڈیٹ و سیکنڈری ایجوکیشن بورڈ ملتان اور چودھری فیض احمد وڑائچ ایڈیشنل کمشنر ریونیو ملتان بھی شامل تھے۔ یہ دونوں بہت اچھی شہرت کے حامل افسر تھے ۔ میں نے ان دونوں کے بارے میں جنرل مٹھا سے بھی بات کی۔ انہوں نے مختلف ایجنسیوں کے ذریعے انکوائری کرائی تو وہ اچھے کردار کے حامل پائے گئے چنانچہ ان کو فی الفور بحال کر دیا گیا۔
جنرل یحییٰ کے دور میں سرکاری ملازمت سے برطرف ہونے والے افسروں نے ایس ایس جعفری کی قیادت میں اپنی تنظیم قائم کر لی۔ ان افسروں نے سپریم کورٹ میں اپیل کی اجازت کیلئے درخواست دے دی۔ راقم الحروف نے جنرل ضیاء الحق کو خط لکھا کہ یہ سارے افسر بحال ہو کر دوبارہ کرپشن کریں گے۔ نیز ملازمت سے معطلی کے دور کے بقایا جات بھی طلب کریں گے اور اس کے ساتھ ترقیاں بھی چاہیں گے۔ چنانچہ صدر ضیاء الحق نے اس مقدمہ کی سماعت کے بارے میں عدلیہ کے اختیارات پر پابندی لگادی۔ جب سپریم کورٹ میں یہ اپیل زیر سماعت تھی تو عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس شیخ انوار الحق تھے جو سابق چیف سیکرٹری شیخ اکرام الحق اور سابق ڈی ایس ریلوے ملتان شیخ انعام الحق کے فرسٹ کزن تھے۔ سپریم کورٹ کے اس بنچ میں جسٹس سید نسیم حسن بھی شامل تھے جو راولپنڈی کے برطرف شدہ کمشنر سید ایم ایچ شاہ کے بڑے بھائی تھے۔ مارشل لاء کے ضابطے کے تحت یہ اپیل خارج ہو گئی اور تین سو کرپٹ بیوروکریٹ بحال نہ ہو سکے۔ قانون ماہرین کے مطابق بدعنوان افسروں کی درخواست منظور ہو جاتی تو تین سو کرپٹ افسر نہ صرف اپنی برطرفی کی تاریخ سے تنخواہیں اور دیگر واجبات وصول کرتے بلکہ اپنی سینیارٹی کا بھی تقاضا کرتے۔ اس طرح کرپشن اور بدعنوانی کا ایک نیا دور شروع ہو جاتا۔