... loading ...
محمد خورشید اختر
پاکستان میں بچے، بچیاں بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں، مناسب رہنمائی اور راستہ نہ ملنے کی وجہ سے ان کی صلاحتیں ضائع یا منفی سرگرمیوں کی طرف نکل جاتی ہیں، ایک اندازے کے مطابق اس وقت چونسٹھ فیصد سے زیادہ نوجوان ہیں، جو ملک کو بنا سکتے ہیں اور اگر انہیں مناسب رہنمائی نہ ملی تو خدا نخواستہ نقصان دہ ہو گا، یہ اس وقت ترقی کا ایک بڑا ذریعہ اور راز بھی ھے، جس حکومت یا قیادت نے ان کو سمجھا وہ مستقبل کا معمار ہوگا۔
ان ہی نوجوانوں بلکہ بڑھتے بچوں میں کراچی میں پڑھنے والی تیرہ سالہ بسمہ سولنگی بھی ہے، جس کا تعلق سندھ کے دور افتادہ علاقے سانگھڑ کے گاؤں سے ہے، بسمہ سولنگی نے اپنی ٹیم سے مل ایک چشمہ تیار کیا جو گاڑی چلاتے ڈرائیور کو اونگھنے پر بیدار کر دیتا ہے۔ بسمہ کی اس ایجاد پر دنیا حیران ہوئی۔ ناسا خلائی تحقیق کا سب سے بڑا ادارہ ہے ، اس کے سائنسدان بھی حیران ہوئے، مشرق وسطی اور ناسا کی طرف سے بسمہ سولنگی کو دعوت ملی کہ وہ ناسا آئے۔ بسمہ خصوصی دعوت پر امریکا روانہ ہوئی اور ناسا کے مرکز کا تفصیلی وزٹ کیا، دنیا بھر نے پاکستان کی بیٹی کو سلام پیش کیا، بسمہ کے لیے اس کے والدین کے لیے اور پاکستان کے لیے یہ ایک بڑی خبر ہے۔ اس خبر سے امید جنم لیتی ہے اور اس وقت پاکستان کو سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ نوجوان نسل کی امید ہے۔
مجھے یاد ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکی یونیورسٹی نے امن کے موضوع پر مضمون نویسی کا عالمی مقابلہ کروایا تھا۔ میرے ماموں جو انگریزی زبان سمیت بیشتر علوم میں مہارت رکھتے تھے، انہوں نے ”امن” کے موضوع پر صرف دو صفحات کا مضمون لکھا، جس کو دنیا بھر میں دوسری پوزیشن ملی، یونیورسٹی نے انہیں اپنے ہاں بلانے اور تحقیق میں حصے لینے کی آفر کی۔ مگر بوجوہ وہ سعودیہ نہیں چھوڑ سکے، کچھ مزاج ایسا تھا، کچھ صحت اور ملازمت کے معاملات، یہ بات اس لیے تذکرے میں آئی کہ بین الاقوامی ادارے ہر علم، ہر تحقیق اور ہر منظر پر نظر رکھتے ہیں۔ وہ میرٹ کی بنیاد پر ہر شخص کو سہولت دیتے اور قدر دانی کرتے ہیں۔ہم ہمیشہ ہر چیز کو سازشی تھیوری کی نذر کر دیتے ہیں۔ آپ علم، تحقیق اور تخلیقی صلاحیتوں کے مالک لوگوں کی قدر نہیں کریں گے تو معاشرہ بانجھ ہو جائے گا۔ قدر دانی سب سے بڑی یہ ہے کہ میرٹ اور صلاحیت کو ہر جگہ ترجیح دی جائے۔ بسمہ سولنگی سندھ کی بیٹی ہے مگر اسی سندھ میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید میڈیکل یونیورسٹی کی طالبات آج کل ہراسمنٹ کی وجہ سے انتہائی پریشان ہیں ۔ کئی خود کشی کے واقعات ہو چکے ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اساتذہ اس میں شامل ہیں، یہ اتنی دکھ دینے والی بات ہے کہ دل مر جاتا ہے، ایک بچی فریاد کر رہی تھی کہ ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمیں اس مشکل سے نکالا جائے، ورنہ خود کشیاں ہوتی رہیں گی، بچی نے بتایا کہ نمبروں کے لیے، پاس کرنے اور داخلی امتحانات کے لیے ہراساں کیا جاتا ہے، کیسے استاد، کیسے مسیحا اور کس پتھر کے زمانے کا نظام ہے۔
یہ دو تصویریں ہیں ایک بسمہ سولنگی کی کمال کامیابی کی اور دوسرا المیہ یونیورسٹی کا، بسمہ وہ تیرہ سالہ طالبہ ہے جس نے ایک نسل کو امید،ایک ملک کو عزت اور والدین کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے، ہم اس کے والدین اور اسکول کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، ایسے کئی بچے، نوجوان کہیں گم ہیں جو ملک و قوم کے لیے نام پیدا کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت کاوش کرے تو پاکستان کا مستقبل بدل سکتا ہے۔ چاروں صوبوں کے چند اساتذہ اور ماہرین پر مشتمل ٹیلنٹ ہنٹ ٹیم بنائی جائے جو تمام اسکولوں اور کالجوں کا دورہ کرے، جو کم از کم صلاحیتوں کا جائزہ لے کر ایسے طلباء کو ایک تحقیقی اور تخلیقی ماحول دے ۔چاہے یہ کام وفاق کرے یا صوبے انجام دیں، مگر ٹیم کا انتخاب بھی شفاف طریقے سے کیا جائے، جس بچے یا نوجوان میں صلاحیت دیکھیں ،اس کے لیے والدین اور حکومت مل کر سائنسی تحقیق کا ادارہ تشکیل دیں جہاں بچوں کو ہر طرح کی سہولت دی جائے، اس کام کو انٹرنیشنل اداروں کے ساتھ بھی منسلک کیا جا سکتا ہے، آج بھارت کو دیکھیں نوے کی دہائی میں جو لوگ باہر پڑھنے بھیجے گئے تھے، آج وہ بھارت کی ترقی اور جدید ٹیکنالوجی کا اہم جزو ہیں، ہم نے کورونا وائرس کی شدت کے دوران کچھ سیکھا تھا وہ بھی بھول گئے۔ بسمہ سولنگی جیسے ہیرے بلوچستان کے پہاڑوں، خیبرپختونخوا اور شمالی علاقوں کی ہریالی، کشمیر کے بلند و بالا درختوں کے سائے میں، پنجاب اور سندھ کے شہر و دیہات میں چھپے ہیں ۔انہیں تلاش کرنا اور تراشنا حکومت اور سماج کا کام ہے، بسمہ سولنگی کے کام اور نام کو ہی دیکھ کر کام شروع کر دیں، سیاست اور پیسہ ادھر ہی رہ جائے گی، جو چیز کام آئے گی وہ تعلیم و تحقیق ہے،بسمہ کا کارنامہ ایور گرین ہے جس کی ہریالی چار سو پھیلے گی۔
٭٭٭