... loading ...
مفتی غلام مصطفی رفیق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محرم الحرام اسلامی سال کاپہلاقمری مہینہ ہے،اس کے محترم،معززاورقابل شرف ہونے کی بناء پراسے ”محر م الحرام”کہاجاتاہے۔ نیزقرآن کریم میں بارہ مہینوں میں سے جن چارمہینوں کوخصوصی حرمت اورتقدس حاصل ہے ان چارعظمت والے مہینوں میں سے بھی پہلامہینہ بالاتفاق محرم الحرام کامہینہ ہے،رجب،ذی قعدہ اورذی الحجہ بھی شامل ہیں۔عرب کے لوگ زمانہ جاہلیت میں بھی ان مہینوں کی تعظیم کرتے تھے اورباہمی خونریزیاں،جنگ وجدال بند کردیتے تھے،اسلام میں ان مہینوں کی حرمت اورعظمت اورزیادہ ہوگی،ان مہینوں میں طاعت،مقبول تراورمعصیت قبیح ترقراردی گئی۔مسلم شریف کی ایک روایت میں ماہ محرم کواس کے شرف کی وجہ سے ”شھراللہ”یعنی اللہ کامہینہ کہاگیاہے۔محرم الحرام کی اسی بزرگی اوربرتری کی بناء پرحدیث میں ارشادفرمایاگیاہے:رمضان کے بعدسب مہینوں سے افضل محرم الحرام کے روزے ہیں اورفرض نمازوں کے بعدتہجدکی نمازافضل ترہے۔(مسلم)
اس ماہ معظم کے ایام میں عاشوراء یعنی دسویں تاریخ کوخصوصی عظمت حاصل ہے،اوراس کی بنیادکئی واقعات ہیں جنہیں ابوالانس حضرت آدم علیہ السلام کی ولادت سے قیامت کے وقوع کے دن تک بیان کیاجاتاہے،تاریخ انسانی کے کئی بڑے اہم واقعات کواس دن کی طرف منسوب کیاجاتاہے،تاہم محدثین کے اصول کے مطابق ان میں سے کوئی بھی بات مستندثبوتوں کے ساتھ منقول نہیں۔یہ بھی یادرہے کہ محرم الحرام کی عزت وعظمت ہنگامی یاناگہانی نہیں بلکہ محرم کی یہ شان ازلی وابدی ہے،ماہ محرم الحرام اپنے اس امتیازمیں کسی مکان وزمان کا پابند نہیں،بلکہ خودزمان ومکان کسب شان میں محرم الحرام کے پابندہیں۔ البتہ اس مہینے کے بارے میں سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے دو اعمال سندصحیح کے ساتھ ثابت ہیں جن کے کرنے کاترغیبی حکم دیاگیاہے:
1۔اس ماہ کی دسویں تاریخ یعنی یوم عاشوراء کاروزہ رکھنا۔اس بارے میں بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ روایت منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تواہل کتاب کواس دن کاروزہ رکھتے ہوئے پایا،جب اس کاسبب دریافت کیاگیاتوانہوں نے کہاکہ اس دن بنی اسرائیل نے حضرت موسی علیہ السلام کی معیت میں فرعون کے ظلم سے نجات پائی تھی اور فرعون مع اپنے ساتھیوں کے دریائے نیل میں غرق ہوااس لیے بطورشکریہ کے حضرت موسی علیہ السلام نے اس دن کاروزہ رکھا تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپھرہم اس کے تم سے زیادہ حق داراورحضرت موسی کے زیادہ قریب ہیں۔چنانچہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کاروزہ رکھااوردوسروں کوبھی حکم فرمایا۔البتہ مسلم شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ:جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے دن خودروزہ رکھنے کومعمول بنایااورصحابہ کرام کواس کاحکم دیاتوبعض صحابہ نے عرض کیاکہ:یارسول اللہ!اس دن کویہودونصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں (اوریہ گویاان کاقومی ومذہبی شعار ہے)توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان شاء اللہ جب اگلاسال آئے گا تو ہم نویں کوبھی روزہ رکھیں گے (تاکہ تشابہ والی بات باقی نہ رہے)عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لیکن اگلے سال ماہ محرم آنے سے قبل ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے پردہ فرماگئے۔تواس روایت میں یہودکے ساتھ اشتباہ سے بچنے کے لیے یہ بھی فرمایاکہ:اگرآئندہ سال زندہ رہاتوان شاء اللہ ہم اس کے ساتھ نویں تاریخ کاروزہ بھی رکھیں گے۔ اس لیے فقہاء لکھتے ہیں کہ اس کے ساتھ نویں تاریخ کاروزہ بھی ملالیناچاہیے،بہتریہ ہے کہ نویں،دسویں تاریخ کاروزہ رکھاجائے،اگرنویں کاروزہ نہ رکھ سکے تو پھردسویں تاریخ کے ساتھ گیارہویں تاریخ کاروزہ ملالیناچاہیے،تاکہ مسلمانوں کاامتیازبرقراررہے۔اگرچہ بعض اکابرعلماء کی تحقیق یہ ہے کہ فی زمانہ چونکہ یہودونصاریٰ اس دن کاروزہ نہیں رکھتے بلکہ ان کاکوئی کام بھی قمری حساب سے نہیں ہوتا،اس لیے اب اس معاملہ میں یہودکے ساتھ اشتراک اورتشابہ نہیں رہا،لہذا اگرصرف دسویں تاریخ کاروزہ رکھاجائے تب بھی حرج نہیں۔اس ماہ کی دسویں تاریخ کے روزے کی فضیلت بھی صحیح احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے،چنانچہ مسلم شریف میں حضرت ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میں اللہ سے امیدرکھتاہوں کہ اس دن کے روزہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ایک سال(گزشتہ) کے گناہوں کاکفارہ فرمادیں گے ”۔
2۔اس دن اپنے اہل وعیال پرکھانے پینے میں فراوانی اوروسعت کرنی چاہیے،احادیث مبارکہ سے اس عمل کابھی ثبوت ہے،چنانچہ مشکوۃ شریف کی روایت حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشادنقل فرماتے ہیں کہ”جو شخص عاشورہ کے دن اپنے اہل وعیال کے خرچ میں وسعت اختیارکرے گاتو اللہ تعالیٰ سارے سال (اس کے مال وزرمیں)وسعت عطافرمائے گا”۔
بزرگوں میں سے حضرت سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے بارہا اس کاتجربہ کیاتوایساہی پایا۔مذکورہ بالاتفصیل سے یہ واضح ہوگیاکہ عاشوراکے دن صحیح احادیث کے ذریعہ یہ دوہی کام آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں۔ایک دسویں تاریخ کاروزہ رکھنااوردوسرااپنے زیرکفالت افرادپررزق میں فراوانی اختیارکرنا۔اللہ تعالیٰ ہمیں دین اسلام کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق نصیب فرمائے، آمین۔
٭٭٭