... loading ...
ریاض احمد چودھری
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے واضح طورپر کہا تھا ”میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور صرف اردو، اور اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں ہو گی۔ دیگر اقوام کی تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی اور کام کر سکتی ہے،پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے وہ صرف اور صرف اردو ہی ہو گی۔”
قلم کاروان کی ادبی نشست میں “وطن عزیزمیں نفاذاردو” کے عنوان سے شہزادمنیراحمدنے قائداعظم کے مشرقی پاکستان میں اعلان قومی زبان سے اپنے مقالے کاآغازکیا۔انہوں نے اردوزبان کی مختصرتاریخ بیان کی اوراس کے بعد دنیاکی بڑی بڑی جنگوں اور انقلابات میں زبان کے کردارپر روشنی ڈالی، فاضل مقالہ نویس نے بتایا کہ وطن عزیزکو کمزورکرنے کے لیے بھی لسانی تفرقات ابھارے جاتے رہے ہیں۔انہوں نے سقوط ڈھاکہ کی ایک وجہ لسانی تعصب کوبھی قراردیا۔اپنے مقالے میں انہوں نے تفصیل سے بتایاکہ باسیان وطن عزیزکو ایک ہی تسبیح میں پرونے والا سب سے مضبوط دھاگہ رابطے کی ایک زبان اردوہی ہوسکتی ہے۔ بدیسی زبان کے باعث ہم مسلسل پسماندگی کاشکارہیں اورترقی کاواحدراستہ اردوکوتعلیمی،عدالتی اوردفتری زبان بناناہے۔ عدالتی نظام میں صرف انگریزی زبان کی وجہ کس قدر وقت کاضیاع ہوتاہے اورانصاف میں تاخیرہوتی جاتی ہے۔ کروڑوں بچے نظم تعلیم سے باہر ہیں کیونکہ انگریزی انہیں سمجھ نہیں آتی۔ وطن عزیزکے بڑے بڑے سیاسی و انتظامی وعدالتی عہدوں پر انگریزی تعلیم یافتہ افرادبیٹھے ہیں اورانہوں نے ریاست کے نظام کوجمودکاشکارکیاہواہے۔ غلامی زدہ اشرافیہ نے انگریزی زبان کے ذریعے ملک کوترقی کرنے سے روک رکھاہے اورنوجوان مجبوراََ ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔
پانچ ہزار سالہ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کی کسی بھی قوم نے اس وقت تک ترقی نہیں کی جب تک اس نے اپنی زبان کو ہر شعبہ میں ذریعہ اظہار نہیں بنایا۔ نجانے ہم کس احساسِ کمتری اور غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ اردو زبان کو بطور سرکاری اور دفتری زبان نافذ کرنے میں ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔مائیں بڑے پیار سے اپنے بچوں کو یہ زبان سکھاتی ہیں۔ اس میں ادبی، سیاسی، قومی، معاشی، معاشرتی، طبی، جغرافیائی، سائنسی اور مذہبی علوم کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ اس میں قرآن پاک کے تراجم، بے شمار تفاسیر اور احادیث شائع ہوچکی ہیں۔ گویا یہ نہ صرف پاکستانیوں بلکہ مسلمانوں کی ایک معتبر اور ثقہ بند زبان ہے۔ پاکستانی اور ہندوستانی پوری دنیا میں پھیل چکے ہیں۔ پاکستان کی تبلیغی جماعت پوری دنیا میں جاتی ہے جو تبلیغ کے ساتھ ساتھ اردو کی ترویج کا بھی سبب بنتی ہے۔ اس کی وسعت اور مقبولیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش، کشمیر، افغانستان اور بھارت کے کروڑوں انسان اردو بولتے، لکھتے، پڑھتے اور سمجھتے ہیں۔ ان ملکوں سے اردو میں لاکھوں کتابیں چھپتی ہیں۔ بہت سے اخبارات، ماہنامے اور سالنامے شائع ہوتے ہیں۔ پاکستان اوربھارت میں اس کے فروغ کے لیے بہت سے ادارے سرگرم عمل ہیں۔ دستور پاکستان کے آرٹیکل 251 کے مطابق پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور یوم آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے۔ انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری اغراض کے لیے استعمال کی جاسکے گی، جب تک کہ اس کے اردو سے تبدیل کرنے کے انتظامات نہ ہوجائیں۔ قومی زبان کی حیثیت کو متاثر کیے بغیر، کوئی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعہ قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم، ترقی اور اس کے استعمال کے لیے اقدامات تجویز کرسکے گی۔ لہٰذا اردو کو سرکاری اور دفتری زبان کے لحاظ سے مکمل طور پر نافذ کرنا پاکستان کے بیس بائیس کروڑ عوام کا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جمہوری اور قانونی استحقاق بھی ہے۔ یقین نہ آئے تو اردو کے حق میں رائے دہی کرا کے دیکھ لیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ عوام کی خواہشات و جذبات کا احترام کرتے ہوئے اور ملک و قوم کے اجتماعی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اردو کو فوری طور پر نافذ کیا جائے۔
اردو اپنے لب و لہجہ ، رکھ رکھاؤ، روز مرہ محاوروں، اندازِ بیان، موضوع و مواد اور مختلف الفاظ کے استعمال اور ایجاد کے لحاظ سے ایک مکمل زبان ہے۔ اس نے اپنی ساخت، مرکبات کے اصول اور قواعد میں ہر زبان سے فائدہ اٹھایا ہے لیکن بحیثیت مجموعی وہ کسی کی پابند نہیں ہوئی، بلکہ اس نے اپنی لغت، اپنا اسلوب، صرفی و نحوی قاعدے واحد جمع، تذکیر و تانیث کے اصول الگ بنا لیے ہیں اور انہی کی پابندی اردو کی فصاحت و بلاغت اور حسن کا معیار متعین کرتی ہے۔اپنی زبان کے علاوہ کوئی اور زبان سیکھنا جرم اور گناہ تو نہیں ہے، مگر اپنی زبان کا ترک ایسا جرمِ عظیم ہے جو پوری قوم کو تنزل میں دھکیل دیتا ہے۔ اپنی زبان کو چھوڑ کر دوسروں کی زبان کے پیچھے اس قدر پڑ جانا کہ رات دن اسی کو منہ مروڑ کر بولنے کی کوشش کی جائے کہ جیسے ساری کامیابی اسی میں ہے، حالانکہ معاملہ اس کے اْلٹ ہے۔ کسی دوسری زبان کی تحصیل بطور ثانوی زبان ہونی چاہیے اور بطور ثانوی زبان ہی اسے اہمیت دینی چاہیے، جبکہ اپنی زبان کو اولین حیثیت دینی چاہیے۔ دنیا میں کتنے چھوٹے بڑے ملک ہیں جنہوں نے ہماری طرح انگریزی کا سہارا بھی نہیں لیا، ترقی بھی ہم سے زیادہ کی ہے اور اپنی زبان کا دامن بھی مضبوطی سے تھاما ہوا ہے، اپنی زبانوں میں پی ایچ ڈی تک کروا رہے ہیں۔
اصل میں قومی زبان کا حق یہ ہوتا ہے کہ پوری قوم اسے بالاتفاق ذریعہ اظہار بنائے اور سرکاری سطح سے اسے ہر شعبے میں نافذ کیا جائے مگر ہمارے ہاں بدقسمتی سے یہ دونوں چیزیں ناپید ہیں، قوم مقامی زبانوں کی ترویج و اشاعت کا رونا روتی رہتی ہے اور حکومتی سطح پر انگریزی کو اہمیت دی جاتی ہے۔