وجود

... loading ...

وجود

بجلی کی قیمت میں کپیسٹی چارجز کی شمولیت 

بدھ 19 جولائی 2023 بجلی کی قیمت میں کپیسٹی چارجز کی شمولیت 

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے طے پانے والے معاہدے کی روشنی میں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بجلی کے بنیادی نرخ میں تقریباً5 روپے فی یونٹ کا اضافہ کردیا ہے۔ بنیادی ٹیرف میں 4 روپے 96 پیسے فی یونٹ اضافے کے بعد یہ 24 روپے 82 پیسے سے بڑھ کر 29 روپے 78 پیسے ہو گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس دفعہ نیپرا کی جانب سے کپیسٹی چارجز شامل کرکے بجلی مہنگی کی گئی ہے، جس سے صارفین پر اربوں روپے کا بوجھ پڑے گا۔بجلی مہنگی ہونے سے متعلق نیپرا کی دستاویزات میں اہم انکشافات سامنے آئے ہیں، جن کے مطابق بجلی کی اصل اوسط پیداواری قیمت 6روپے 73 پیسے فی یونٹ ہے جب کہ نیپرا نے بجلی کی پیداواری قیمت میں 16 روپے 22 پیسے فی یونٹ کپیسٹی چارجز شامل کردیے ہیں، جس سے بجلی کی قیمت 6 روپے سے 22 روپے 95 پیسے فی ہونٹ ہوگئی۔دستاویزات کے مطابق نیپرا نے رواں مالی سال کے لیے بجلی کا پیداوری اوسط یونٹ ٹیرف مقرر کر دیا۔ رواں مالی سال میں 124 ارب 86 کروڑ یونٹ بجلی پیدا ہونے کا امکان ہے۔ بجلی کی خالص پیداواری لاگت 801 ارب 25 کروڑ آنے کا امکان ہے جب کہ پیداواری لاگت میں 2ہزار 25 ارب روپے کپیسٹی چارجز شامل کیے گئے ہیں۔نیپرا دستاویزات کے مطابق درآمدی کوئلے سے بجلی کی اصل پیداوری لاگت 16 روپے 71 پیسے فی یونٹ ہے اور 23 روپے کپیسٹی چارجز کے شامل کرکے درآمدی کوئلے سے بجلی کی پیداوری لاگت 40 روپے34 پیسے فی یونٹ مقرر کی گئی ہے۔اسی طرح کپیسٹی چارجز کے ساتھ فرنس آئل سے بجلی کی پیداواری لاگت 48 روپے 56 پیسے فی یونٹ اور ایل این جی سے بجلی کی پیداواری قیمت 51 روپے 42 پیسے فی یونٹ مقرر کی گئی ہے۔اتحادی حکومت کی جانب سے غریبوں کے ساتھ یہ ظلم کی انتہا ہے، غریب عوام پہلے ہی بجلی کے بھاری بل ادا کر کرکے ادھ موئے ہو چکے ہیں مگر اتحادی حکومت کی طرف سے ان پر ذرا بھی رحم نہیں کیا جارہا۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ بجلی کے نرخوں میں ہوشربا اضافہ اس حکومت کے دور میں ہو رہا ہے جو عوام کو مہنگائی سے نجات دلا کر انھیں ریلیف دینے کا عزم لے کر اقتدار میں آئی تھی مگر اس نے غریب کے منہ سے نوالہ بھی عملاً چھیننے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے ملنے والی خطیر رقم کے باوجود اگر مہنگائی کاخاتمہ نہیں ہو پا رہا تو یہ اتحادی حکومت کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حکومتی دعوے ہمیشہ یہی رہے ہیں کہ عام آدمی پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا، کیا بجلی میں ہونے والا یہ اضافہ عوام پر بدترین بوجھ نہیں؟ وہ پہلے ہی مہنگی بجلی خریدنے پر مجبور ہیں، وہ بھی انھیں پوری نہیں دی جاتی۔ اس اضافے سے ان کی کمر عملاً ٹوٹ جائے گی اور بہت سے لوگ اس صورتحال میں کوئی غیرقانونی راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوں گے۔ حکومت کو خود ہی اندازہ لگانا چاہیے کہ اس بدترین مہنگائی میں غریب آدمی بجلی اور گیس کے بھاری کس طرح ادا کر پائے گا اور کس طرح وہ اپنے گھر کا نظام چلائے گا۔ حکومت کو اپنے عوام کی مشکلات کا بخوبی ادراک ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے ان عوامی مسائل کو سامنے کیوں نہیں رکھا گیا۔ افسوس ہے کہ حکومت قسط ملنے پر پھولے نہیں سما رہی جبکہ عوام کا روزانہ کی بنیاد پر کچومر نکل رہا ہے۔ انتخابات کی آمد آمد ہے، موجودہ بڑھتی مہنگائی کے تناظر میں حکومت انتخابی مہم کے دوران عوام کا کس طرح سامنا کر سکتی ہے۔ مہنگائی سے زچ ہوئے عوام انتخابات میں اتحادی حکومت کے خلاف شدید ردعمل ظاہر کر سکتے ہیں جس کے لیے حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کو تیار رہنا چاہیے۔ اس وقت جبکہ حکومتی اتحادی جماعتوں کی قیادتیں قومی اسمبلی کی آئینی میعاد پوری ہونے پر نگران سیٹ اپ اور نئے انتخابات کی حکمت عملی طے کرنے کیلئے باہم مشاورت کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں اس حقیقت کا بہرصورت ادراک ہونا چاہیے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ نئے معاہدے اور دوسری اقتصادی مالیاتی پالیسیوں کے نتیجے میں عوام پر جس بے مہابا انداز میں مہنگائی مسلط کی جا چکی ہے، اس کے ہوتے ہوئے عوام ان جماعتوں کیلئے اپنے ووٹ کے ذریعے کلمہ خیر ادا کرنے پر ہرگز آمادہ نہیں ہوں گے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے تو پیٹرولیم نرخوں میں 7سے 9 روپے فی لٹر کمی کا اعلان کر کے اپنے تئیں بڑا تیر مار دیا ہے مگر آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت رواں مالی سال کے بجٹ میں پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی کی شرح میں 5 روپے فی لیٹر اضافہ کر کے حکومت پہلے ہی پیٹرولیم نرخوں میں اضافے کا راستہ نکال چکی ہے۔ گزشتہ پندھرواڑے پرپیٹرولیم نرخ برقرار رکھے گئے جبکہ لیوی کی شرح میں اضافے سے نرخ عملاً بڑھ گئے تھے۔ اب لیوی کی شرح میں مزید اضافہ تو نہیں کیا گیا اور پیٹرولیم نرخوں میں بھی معقول کمی کر دی گئی ہے مگر بجلی اور گیس کے نرخوں میں جس شرح کے ساتھ اضافہ کر کے مہنگائی کے نئے جھکڑ چلانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے اس سے عوام کو  پیٹرولیم کے نرخوں میں کمی کی صورت میں تھوڑا بہت ریلیف ملنے کے ثمرات بھی غارت ہو جائیں گے۔ اصولی طور پر تو وزیر خزانہ کو پیٹرولیم کے نرخوں میں کمی کا کریڈٹ لیتے ہوئے عالمی مارکیٹ میں اس وقت موجود پیٹرولیم کے نرخوں سے بھی عوام کو آگاہ کرنا چاہئے کیونکہ اس وقت عالمی مارکیٹ میں خام تیل کے نرخ 75.42 ڈالر فی بیرل ہیں جو گزشتہ 2 ماہ کی کم ترین سطح پر ہیں۔ اس تناسب حکومت کیلئے عوام کو مزید کم نرخوں پر  پیٹرولیم  اور ڈیزل فراہم کرنا کوئی خسارے کا سودا نہیں جبکہ روس سے درآمدی پیٹرولیم کی کھیپ بھی پاکستان آ چکی ہے جس کے حوالے سے حکومت عوام کو پیٹرولیم کے نرخوں میں خاطر خواہ کمی کا لالی پاپ دیتی رہی ہے اور اس کے برعکس آئی ایم ایف کے نئے بیل آؤٹ پیکیج کے ساتھ بندھی اس کی ناروا شرائط کی بنیاد پر 2023-24 کے مالی سال کے بجٹ میں جس بے مہابا انداز میں عوام پر براہ راست اور بالواسطہ نئے ٹیکس مسلط کیے گئے، مروجہ ٹیکسوں کی شرح اور ڈیوٹیوں میں اضافہ کیا گیا اور ٹیکس کی وصولی کا ہدف 9 ہزار200 ارب روپے سے بڑھا کر 9 ہزار 425، ارب روپے کیا گیا، یہ بوجھ بھی عوام بشمول تنخواہ دار طبقے کو ہی برداشت کرنا ہے جن کی قوتِ خرید مہنگائی کے عفریت کے آگے پہلے ہی دم توڑ چکی ہے۔ ابھی گزشتہ روز ہی آئی ایم ایف سے طے پانے والے معاہدے کی روشنی میں نیپرا نے بجلی کے بنیادی نرخ میں تقریباً 5 روپے فی یونٹ اضافے کی سمری حکومت کو بھجوائی تھی۔ اس طرح عوام کو اب بجلی عملاً 50 روپے فی یونٹ دستیاب ہو گی اور100یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارف کو بھی ساڑھے 18 سو روپے کا بجلی کا بل ادا کرنا پڑے گا۔ اس طرح چھوٹے درجے کے جن وفاقی اور صوبائی ملازمین کی تنخواہوں میں 35,30 فیصد اضافہ ہوا ہے وہ بجلی کے نئے نرخوں کی ہی نذر ہو جائے گا، جبکہ گیس کے نرخ پہلے ہی50 فیصد بڑھانے کے بعد اب حکومت نے مزید اضافے پر بھی غور و خوض شروع کر دیا ہے۔ وزارت توانائی کے ذرائع کے مطابق اوگرا کو بتایا گیا ہے کہ گیس کی قیمتوں پر ورکنگ جاری ہے اور اضافہ ہر صورت ہو گا کیونکہ اس حوالے سے حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ تحریری کمٹمنٹ کر رکھی ہے۔ ذرائع کے مطابق300 مکعب میٹر اور اس سے اوپر گیس استعمال کرنے والے صارفین کیلئے گیس پہلے ہی مہنگی ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ آخری 3 سلیبز کو نہ چھیڑا جائے مگر گیس کے نرخ آئی ایم ایف کی شرائط کے تابع بہرصورت مزید بڑھیں گے۔ جب پیٹرولیم کی مصنوعات، بجلی، گیس اور ادویات کے نرخ بڑھتے ہیں تو ہمارے معاشرے کے منافع خور طبقے کیلئے جو پہلے ہی عوام کو ذبح کرنے کے لئے چُھریاں کانٹے تیز کئے بیٹھے ہوتے ہیں، عوام کو مصنوعی مہنگائی کی مار مارنے کا مزید موقع مل جاتا ہے۔ عوام اس وقت عملاً مہنگائی کے آگے بے سدھ ہو چکے ہیں جن کیلئے روزمرہ استعمال کی اشیایہاں تک کے بہت سوں کیلئے آٹا خریدنا بھی کاردارد ہو چکا ہے جبکہ بچوں کی تعلیم اور ضروریات زندگی کے دیگر اخراجات وہ اپنی آمدنی اور تنخواہوں میں پورے کرنے کی قطعاً پوزیشن میں نہیں رہے۔ یہ طرفہ تماشہ ہے کہ حکومت کبھی پیٹرولیم کے نرخوں میں کمی کا کریڈٹ لیتی ہے تو اس کے ثمرات بھی عوام تک نہیں پہنچ پاتے کیونکہ پیٹرولیم کے نرخوں میں اضافے کو جواز بنا کر ٹرانسپورٹ کے بڑھائے گئے کرائے بھی جوں کے توں برقرار رہتے ہیں اور اسی جواز کے تحت بڑھنے والے دیگر اشیا کے نرخوں میں بھی کسی قسم کی کمی نہیں لائی جاتی اس طرح آج وسائل سے محروم عوام مہنگائی کے ہاتھوں عملاً زندہ درگور ہو چکے ہیں اور خطِ غربت کی لکیر کے نیچے کی آبادی میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ حالات کسی ملک کی مستحکم معیشت کی ہرگز عکاسی نہیں کرتے۔ایک طرف اتحادی حکومت عوام کو مسائل کے دلدل سے نکالنے کے دعوے کر رہی ہے اور دوسری جانب بجلی، گیس اور پیٹرولیم کی مصنوعات جیسی بنیادی اشیاء کے نرخ آئے روز بڑھا کر عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا جارہا ہے۔ مہنگی بجلی عوام کے لیے پہلے ہی وبال جان بنی ہوئی ہے۔ ہر دوسرے روز اس کے نرخوں میں اضافہ کرکے عوام کو عملاً زچ کرنے کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ نرخوں میں نیا اضافہ اس کا مزید کچومر نکال دے گا۔ عام آدمی اپنی معمولی آمدنی سے اپنے گھر کے اخراجات مشکل سے پورے کر رہا ہے اور اسی آمدنی سے وہ بجلی، گیس اورپیٹرولیم کے اخراجات بھی پورے کرنے پر مجبور ہے جبکہ حکمران طبقہ جو لاکھوں میں تنخواہیں وصول کر رہا ہے، اسے بجلی، گیس اور پیٹرول سرکار کی طرف سے مفت میسر ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اشرافیہ کو یہ اشیا اپنی جیب سے خریدنے کا پابند کیا جائے اور عام آدمی کو اگر مفت نہیں تو کم از کم ارزاں نرخوں پر بجلی گیس اورپیٹرول فراہم کرنے کا بندوبست کیا جائے۔ عام آدمی پہلے ہی بہت زیادہ بوجھ دبا ہوا ہے، مزید دبانا اسے زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے۔ بہتر ہے کہ یہ بوجھ اشرافیہ کی طرف منتقل کیا جائے اور عام آدمی کو حقیقی ریلیف دینے کا سوچا جائے۔ اگر عوام ایڑیاں رگڑ کر مر رہے ہوں اور معدودے چند حکمران اشرافیہ طبقے کے وارے نیارے ہوں جن پر کسی بھی حد تک بڑھنے والی مہنگائی اثرپزیر نہ ہو رہی ہو تو محروم طبقہ بھلا کیونکر اپنے حکمرانوں اور سیاسی قیادتوں کیلئے رطب اللسان ہو سکتے ہیں۔ حکومتی اتحادی قیادتیں اگر مقررہ آئینی میعاد کے اندر انتخابات میں سنجیدہ ہیں تو انہیں نگران سیٹ اپ کی طرف جانے سے پہلے پہلے عوام کو غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے مسائل پر بہرصورت مطمئن کرنا ہو گا، اس کے بغیر وہ عوام کی جانب سے اپنے لئے پزیرائی کی ہرگز توقع نہ رکھیں۔ 
                                               ٭٭٭


متعلقہ خبریں


امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود - پیر 08 جولائی 2024

مولانا محمد سلمان عثمانی حضرت سیدناعمربن خطاب ؓاپنی بہادری، پر کشش شخصیت اوراعلیٰ اوصاف کی بناء پر اہل عرب میں ایک نمایاں کردار تھے، آپ ؓکی فطرت میں حیا ء کا بڑا عمل دخل تھا،آپ ؓ کی ذات مبارکہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ نبی مکرم ﷺ خوداللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا مانگی تھی ”...

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود - بدھ 01 مئی 2024

بھارت میں عام انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی اختتام کے قریب ہے، لیکن مسلمانوں کے خلاف مودی کی ہرزہ سرائی میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جارہاہے اورمودی کی جماعت کی مسلمانوں سے نفرت نمایاں ہو کر سامنے آرہی ہے۔ انتخابی جلسوں، ریلیوں اور دیگر اجتماعات میں مسلمانوں کیخلاف وزارت عظمی کے امی...

نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود - بدھ 13 مارچ 2024

مولانا زبیر احمد صدیقی رمضان المبارک کو سا ل بھر کے مہینوں میں وہی مقام حاصل ہے، جو مادی دنیا میں موسم بہار کو سال بھر کے ایام وشہور پر حاصل ہوتا ہے۔ موسم بہار میں ہلکی سی بارش یا پھو ار مردہ زمین کے احیاء، خشک لکڑیوں کی تازگی او رگرد وغبار اٹھانے والی بے آب وگیاہ سر زمین کو س...

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود - منگل 27 فروری 2024

نگران وزیر توانائی محمد علی کی زیر صدارت کابینہ توانائی کمیٹی اجلاس میں ایران سے گیس درآمد کرنے کے لیے گوادر سے ایران کی سرحد تک 80 کلو میٹر پائپ لائن تعمیر کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ اعلامیہ کے مطابق کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے پاکستان کے اندر گیس پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی،...

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود - هفته 24 فروری 2024

سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر گزشتہ روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر جسے اب ا یکس کا نام دیاگیاہے کی سروس بحال ہوگئی ہے جس سے اس پلیٹ فارم کو روٹی کمانے کیلئے استعمال کرنے والے ہزاروں افراد نے سکون کاسانس لیاہے، پاکستان میں ہفتہ، 17 فروری 2024 سے اس سروس کو ملک گیر پابندیوں کا سامنا تھا۔...

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود - جمعه 23 فروری 2024

ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جنوری میں مہنگائی میں 1.8فی صد اضافہ ہو گیا۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ شہری علاقوں میں مہنگائی 30.2 فی صد دیہی علاقوں میں 25.7 فی صد ریکارڈ ہوئی۔ جولائی تا جنوری مہنگائی کی اوسط شرح 28.73 فی صد رہی۔ابھی مہنگائی میں اضافے کے حوالے سے ادارہ ش...

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف وجود - پیر 19 فروری 2024

عالمی جریدے بلوم برگ نے گزشتہ روز ملک کے عام انتخابات کے حوالے سے کہا ہے کہ الیکشن کے نتائج جوبھی ہوں پاکستان کیلئے آئی ایم ایف سے گفتگو اہم ہے۔ بلوم برگ نے پاکستان میں عام انتخابات پر ایشیاء فرنٹیئر کیپیٹل کے فنڈز منیجر روچرڈ یسائی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے بیرونی قرض...

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود - جمعرات 08 فروری 2024

علامہ سید سلیمان ندویؒآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تعلیم او رتزکیہ کے لیے ہوئی، یعنی لوگوں کو سکھانا اور بتانا اور نہ صرف سکھانا او ربتانا، بلکہ عملاً بھی ان کو اچھی باتوں کا پابند اور بُری باتوں سے روک کے آراستہ وپیراستہ بنانا، اسی لیے آپ کی خصوصیت یہ بتائی گئی کہ (یُعَلِّ...

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق وجود - بدھ 07 فروری 2024

بلوچستان کے اضلاع پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی امیدواروں کے دفاتر کے باہر دھماکے ہوئے ہیں جن کے سبب 26 افراد جاں بحق اور 45 افراد زخمی ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق بلوچستان اور خیبر پختون خوا دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں ہیں، آج بلوچستان کے اضلاع پشین میں آزاد امیدوار ا...

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر  کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں وجود - منگل 06 فروری 2024

مولانا محمد نجیب قاسمیشریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق کی مکمل طور پر ادائیگی کرے۔ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے قرآن وحدیث میں بہت زیادہ اہمیت، تاکید اور خاص تعلیمات وارد ہوئی ہیں۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،...

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

پاکستان میں صارفین کے حقوق کی حفاظت کا کوئی نظام کسی بھی سطح پر کام نہیں کررہا۔ گیس، بجلی، موبائل فون کمپنیاں، انٹرنیٹ کی فراہمی کے ادارے قیمتوں کا تعین کیسے کرتے ہیں اس کے لیے وضع کیے گئے فارمولوں کو پڑتال کرنے والے کیا عوامل پیش نظر رکھتے ہیں اور سرکاری معاملات کا بوجھ صارفین پ...

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

خبر ہے کہ سینیٹ میں عام انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد پر توہین عدالت کی کارروائی کے لیے دائر درخواست پر سماعت رواں ہفتے کیے جانے کا امکان ہے۔ اس درخواست کا مستقبل ابھی سے واضح ہے۔ ممکنہ طور پر درخواست پر اعتراض بھی لگایاجاسکتاہے اور اس کوبینچ میں مقرر کر کے باقاعدہ سماعت کے بعد...

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا

مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر