... loading ...
ڈاکٹر سید حسنین احمد ندوی قاسمی
راستہ انسان کو منزل مقصود تک پہنچانے کا ذریعہ ہے، خواہ یہ منزل دنیوی ہو یا اخروی، قرآن کی پہلی اورسب سے زیادہ پڑھی جانے والی سورہ فاتحہ میں بھی سیدھے راستے کو انسان کی آرزو بنا دیا گیا ہے جو اسے اس کے رب تک پہنچانے والا ہے،راستہ کی اسی اہمیت کی وجہ سے انسان جہاں بھی رہے، بسے یا قیام کرے، راستہ کی فکر اسے پہلے سے دامن گیر ہوتی ہے، قیام چاہے مستقل ہو یا عارضی، مسئلہ محل کا ہو یا جھونپڑی کا، پیش نظر کھیت کھلیان ہو یا صنعت وحرفت، راستہ کے بغیر کوئی پیش قدمی نہیں کی جاسکتی ہے، راستہ کی اس غیر معمولی اہمیت کی وجہ سے یہ ہمیشہ ہی انسان کے لیے مرکز توجہ رہا ہے اور انسان کے ساتھ ساتھ اس نے بھی کافی ترقی کرلی ہے یہاں تک کہ معاملہ پگڈنڈیوں، گلیوں او ر کوچوں سے بڑھ کر شاہراہوں، ہائیویز اورموٹرویز تک جا پہنچا اور بحر وبر ہی نہیں بلکہ فضا کی لا محدود وسعتوں میں بھی اس نے اپنے قدم جما لیے ہیں جس پر ہزاروں طیارے دن رات دندناتے پھرتے ہیں۔
موجودہ دور میں راستہ سے متعلق مستقل نظام وجود میں آچکا ہے، قانون کی لمبی چوڑی فہرست ہے جس میں معمولی سا بھی خلل ہماری تمدنی زندگی کے ڈھانچے کو درہم برہم کردیتا ہے، راستہ کی اہمیت کا یہ شعور جو انسانوں میں اب عام ہوا ہے، اسلام نے اس کی جانب بہت پہلے توجہ دلائی؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کم از کم چوڑائی سات ہاتھ یعنی دس فٹ ذکر فرمائی ہے۔
اجعلوا الطریق سبعۃ اذرع (ترمذی:۵۵۳۱)
راستہ کی چوڑائی کم از کم سات ہاتھ رکھو۔
اسلام نے حقوق وواجبات کی فہرست میں راستہ کے حق کا اضافہ کیا اور اس بات کو یقینی بنانے کا حکم دیا کہ راستہ مسافروں کے لیے مامون ومحفوظ ہو اور انھیں دوران سفر کسی پریشانی کا سامناکرنا نہ پڑے، اس کے لیے کسی بھی تکلیف دہ چیز کو راستہ سے ہٹانا بھی ایک عبادت بنا دیا گیا؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الإیمان بضع وسبعون شعبۃ أو بضع وستون شعبۃ فأفضلھا قول لا إلہ إلا اللہ وأدناھا إماطۃ الأذی عن الطریق (بخاری ومسلم)
ایمان کے بہت سے شعبے ہیں ان میں پہلا کلمہ یعنی لا الہ الا اللہ اورآخری راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے۔ انسان کے ہر جوڑ پر صدقہ ہے اور راستہ سے تکلیف دہ چیزوں کا ہٹانا بھی صدقہ ہے۔
راستہ سے تکلیف دہ وناپسندیدہ چیزوں کا ہٹانا کوئی عام سا صدقہ نہیں بلکہ یہ اتنا بڑا عمل خیر ہے جو انسان کی مغفرت کے لیے کافی بھی ہے۔
بینما رجل یمشی بطریق وجد غصن شوک علی الطریق فاخرہ فشکر اللہ لہ فغفرلہ (بخاری ومسلم)
راستہ چلتے ہوئے ایک شخص کو کانٹوں بھری ٹہنی نظر آئی تو اس نے اسے راستہ سے ہٹا دیا، اس پر اللہ نے اس کی مغفرت فرما دی۔
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لقد رأیت رجلا تتقلب فی الجنۃ فی شجرۃ قطعھا من ظھر الطریق کانت توذی الناس (مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ایک شخص صرف اس بنیاد پر جنت میں چلا گیا کہ اس نے راستہ میں موجود درخت کو کاٹ کر ہٹا دیا تھا جس سے لوگوں کو دشواری ہوتی تھی۔
قال رسول اللہ: نزع رجل لم یعمل خیرا قط: غصن شوک عن الطریق أما کان فی شجرۃ فقطعہ والقاہ واما کان موضوعا فأماطہ فشکر اللہ لہ بھا فأدخلہ الجنۃ (ابوداود:۰۴۲۵)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص نے کوئی اچھا کام نہیں کیا سوائے اس کے کہ کانٹوں بھری ٹہنی کو ہٹایا جو راستے پر تھی، یا درخت پر تو اس عمل پر اللہ نے اسے جنت میں داخل کردیا۔
ایسا شخص جس کا اکاؤنٹ نیکی کی کرنسی سے یکسر خالی تھا جب اس نے کانٹوں بھری ٹہنی کو راستہ سے اس خیال سے ہٹا دیا کہ گزرنے والے کو تکلیف نہ ہو تو اس کے اس عمل سے اللہ اتنا خوش ہوا کہ اس کو جنت میں داخل کردیا۔ اس طرح راستہ میں پڑی ہوئی کسی بھی ایسی چیز کو ہٹانا جس سے وہاں گزرنے والے کو دشواری ہوسکتی ہو یہ اللہ کے نزدیک اتنا پسندیدہ عمل ہے کہ ایسے شخص کے لیے جنت کی ضمانت بن جاتا ہے، لہٰذا اس کے برعکس کوئی بھی عمل جس کی وجہ سے راستہ سے گذرنا مشکل ہوجائے ظاہر ہے اسلام اسے کس طرح گوارہ کرسکتا ہے؛ چنانچہ گھر یا دکان کے سامنے راستہ پر بیٹھنا، ٹھہرنا یا خوش گپوں میں وقت گذارنا جس میں چبوترہ پارٹی بھی شامل ہے، اسلام کی نظر میں یہ انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے؛ اس لیے کہ راستہ پر ٹھہرنے سے وہاں سے گذرنے والوں کو نہ صرف راستہ کی تنگ دامنی کا شکوہ ہوتا ہے؛ بلکہ یہ بعض کے لیے الجھن کا باعث بھی ہوتا ہے، خاص طور پر با حیا خواتین کے لیے،اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستہ پر ایسی کسی بھی بزم آرائی سے منع فرمایا ہے، خواہ وہ بحالت قیام ہو یا یا قعود، لہٰذا اس سے سختی کے ساتھ اجتناب کرنا چاہیے؛ لیکن اگر کسی وجہ سے یہ ناگزیر ہو تو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ اس سے راہگیروں کو کوئی دشواری نہ ہو۔
ایاکم والجلوس علی الطرقات فقالوا: ما لنا بد انما ھی مجالسنا نتحدث فیھا قال: فاذا ابیتم الا المجالس فاعطوا الطریق حقھا قالوا وما حق الطریق قال غض البصر وکف الأذی ورد السلام وأمر بالمعروف ونھی عن المنکر (بخاری: ۸۱۵۵)
راستہ پر بیٹھنے سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تو صحابہ نے عرض کیا کہ یہ تو ہماری مجلسیں ہیں جہاں ہم بات چیت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر بیٹھنا ہی ہے تو راستہ کا حق ادا کرو، صحابہ نے دریافت کیا راستہ کا حق کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا:نظر نیچی رکھو، کسی کو تکلیف مت پہنچاؤ، سلام کا جواب دو، اچھائی کا حکم دو اور برائی سے روکو۔
عن ابی طلحہ قال کنا قعودا بالأفینہ نتحدث فجاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقام علینا فقال: ما لکم ولمجالس الصعدات اجتنبوا مجالس الصعدات فقلنا انما قعدنا لغیر ما بأس، قعدنا نتذاکرا ونتحدث قال: اما لا، فادوا حقھا: غض البصر ورد السلام وحسن الکلام (مسلم:۰۱۶۵)
ابو طلحہ نے بیان کیا کہ ہم ایک بار گھر کے سامنے بیٹھ کر باتیں رہے تھے کہ رسول اللہ تشریف لائے فرمایا تم لوگ راستہ پر کیوں بیٹھ جاتے ہو، اس سے بچو، ہم نے عرض کیا کہ ہم ایسے کام کے لیے بیٹھے ہیں جس میں کوئی حرج نہیں ہے، ہم تو آپس میں باتیں اور تبادلہ خیال کے لیے بیٹھے ہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کرنا ہی ہے تو اس کا حق اداکرو، وہ یہ ہے کہ نظر نیچی رکھو، سلام کا جواب دو اور اچھی بات کرو۔یہ حدیث راستہ میں یافٹ پاتھ پر مجلس جمانے کی ممانعت میں بالکل واضح ہے، ضرورتا بھی اس کی اجازت اس شرط کے ساتھ ہے کہ اس کا موضوع فحش تبصرے، غیبت اور شیخی کے بجائے امربالمعروف ونہی عن المنکر ہو، گذرنے والا کوئی بھی ہو، اسے گھورا نہ جائے اور نہ ہی کوئی ایسی حرکت کی جائے جس سے اسے ذہنی یا جسمانی اذیت ہو، اسی طرح ایسی جگہیں جہاں عام طور پر خواتین کا ہجوم ہوتا ہو جیسے گرلز کالج وغیرہ کے اطراف بلاکسی معقول وجہ کے راستہ میں ٹھہرنا درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس کا واحد مقصد خواتین کو گھورنا یا انھیں جنسی طور پر ہراساں کرنا ہے، جو حرام ہے، اس کے علاوہ گذرنے والوں کا اس حوالے سے جائزہ لینا کہ وہ کہاں سے آرہا ہے یا کہاں جارہا ہے، یا اس کیساتھ کیا سامان ہے، یہ سب دوسروں کی زندگی میں مداخلت کے مترادف ہے، جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے، لہٰذا اس قسم کی حرکت کرنے والے دوسروں کا راستہ سے گذرنا مشکل بنا دیتے ہیں اور غیروں کی عزت وحرمت کو مجروح کرتے ہیں، اور اس طرح گذر گاہوں سے نہ صرف سیئات بٹورتے ہیں؛ بلکہ اپنی عزت وحرمت کو داؤ پر لگاتے ہیں؛ اس لیے کہ ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے ذلت ورسوائی طے کر دی ہے۔
عن ابن عمر قال: صعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی المنبر فنادی بصوت رفیع فقال: یا معشرَ من أسلم بلسانہ ولم یفض الإیمان إلی قلبہ لا توذوا المسلمین ولا تتبعوا عوراتھم فإنہ من تتبع عورۃ أخیہ المسلم تتبع اللہ عورتہ ومن تتبع اللہ عورتہ یفضحہ ولو فی جوف رحلہ (جامع المسانید والمراسیل، رقم: ۲۷۳۹۶)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: اے لوگو! جو محض زبان سے ایمان لائے اور یہ ایمان دل تک نہیں پہنچا، مسلمانوں کو تکلیف مت دو،جو اپنے بھائی کی عزت کے درپے ہوگا تو اللہ اس کے درپے ہوگا اور اسے ذلیل کردے گا، خواہ وہ محفوظ جگہ چھپاہواہو۔
راستہ کی حق تلفی کے بہت سے طریقے ہیں جن میں اہم راستہ میں کسی اچھی چیز کا ڈال دینا ہے جو گذرنے والوں کے لیے تکلیف کا سبب بنے جیسے کچرا،ٹوٹی ہوئی کانچ، یا پھر کیل اسی طرح راستہ پر ضرورت سے فارغ ہونا وغیرہ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کو لعنتی قرار دیا ہے۔
قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اتقوا اللعانین قالوا: وما اللعانان یا رسول اللہ! قال الذی یتخلی فی طریق الناس أو فی ظلہم (مسلم: ۱۷۵)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دولعنت کرنے والوں (یعنی اپنے لیے لعنت کا سبب بننے والے دوکاموں) سے بچو، صحابہ نے دریافت کیا یہ دونوں کون ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو راستہ یا وہاں موجود سایہ میں ضرورت سے فارغ ہوتے ہیں۔
راستہ کے ساتھ ہونے والی زیادتی میں ایک اہم زیادتی دکانداروں کا اپنی دکان روڈ تک بڑھا دینا ہے، اس کے علاوہ بنڈی والے جو راستہ میں ہی اپنی بنڈیاں ٹھہرا کر کاروبار کرتے ہیں اس کی وجہ سے راستہ تنگ ہوجاتا ہے اور لوگوں کو آمد ورفت میں دشواری ہوتی ہے، معروف بزرگ شیخ ابو طالب المکی المتوفی۶۸۳ھ جن کے افادات امام غزالی نے اپنی کتاب احیاء علوم الدین میں نقل کیا ہے، انہوں نے بیان کیا ہے کہ ان کے زمانہ میں ثقہ اوردیندار لوگ راستہ پر دھندہ کرنے والوں سے لین دین معیوب سمجھا کرتے تھے، امام غزالی نے اپنی معروف کتاب احیاء علوم الدین میں منکرات الشوارع کے نام سے ایک مستقل فصل قائم کیا ہے اوراس میں تفصیل سے راستہ میں کی جانے والی ان تصرفات کا ذکر کیا ہے جس کی وجہ سے راستہ چلنے والے کو دشواری ہوتی ہے جیسے گھر کے سامنے ٹنٹ لگانا اور اس کا کھونٹا، سڑک پر گاڑنا، جانوروں کو روڈ پر باندھنا، پانی کی موری روڈ پر چھوڑنا، بالکونی، چھجہ وغیرہ راستہ کی جانب نکالنا، انہوں نے ایسے تمام عمل کو مکروہ قرار دیا ہے۔
راستہ کے سلسلہ میں ہمارے معاشرہ میں ایک انتہائی غلط روایت چل پڑی ہے، وہ مکان کی تعمیر میں راستہ کا کچھ حصہ اس میں شامل کرلینا ہے، اور اگر کوئی شریف النفس یہ نہ کرے جب بھی گھر کی سیڑھی ہر حال میں راستہ پر بناتے ہیں، اور اس سلسلہ میں بعض اتنی فیاضی سے کام کرلیتے ہیں کہ تقریبا پانچ فٹ سے کم جگہ پر اکتفا نہیں کرتے، محلہ کی گلیاں عام طور پر 20 فٹ سے 25 فٹ چوڑی ہوتی ہیں، جب اس کے دونوں جانب کے مکیں آگے بڑھ آتے ہیں تو پھر راستہ 10 سے 15 فٹ ہی بچ جاتا ہے، اس پر مستزاد ایک بڑی تعداد اپنی گاڑیاں راستہ پر ہی ٹھہراتی ہے اس کی وجہ سے یہ گلیاں اس قدر تنگ ہوجاتی ہیں کہ وہاں سے کوئی چھوٹی گاڑی بھی مشکل سے گذرتی ہے، اور اگر دونوں جانب سے گاڑی آجائے تو پھر تو اچھا خاصا مسئلہ بن جاتا ہے اور کبھی کبھی تو وہاں کے مکینوں کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، ہنگامی طبی صورتحال میں ایمبولنس کے پہنچنے سے پہلے ہی مریض دم توڑ دیتاہے اسی طرح آگ لگنے کی صورت میں فائر بریگیڈ کی گاڑی مطلوبہ جگہ تک جلد نہیں پہنچ پاتی ہے جس کی وجہ سے ایک چھوٹا سا حادثہ بڑے حادثہ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
راستہ کی زمین کا کوئی بھی حصہ خواہ وہ کم ہو یا زیادہ مکان کی تعمیر میں شامل کرنا غصب کے ضمن میں آتا ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من اخذ شبرا من ارض ظلما طوقہ اللہ یوم القیامۃ من سبع ارضین (بخاری: ۸۲۳۱)
جس نے ایک بالشت زمین بھی کسی کی ہڑپ لی تو اللہ قیامت کے دن سات تہہ زمین اس کے گلے میں لٹکائے گا۔
من أخذ شیئا من الأرض بغیر حقہ خسف بہ یوم القیامۃ إلی سبع أرضین. (بخاری:۱۱۴۲)
جس نے ناحق کسی کی زمین ہڑپ لی تو قیامت کے دن اسے اس کے ساتھ زمین کی سات تہہ تک دھنسا دیا جائے گا۔
راستہ کی زمین کے ہڑپ کرلینے کا طریقہ اس قدر عام ہوچلا ہے کہ اس کی قباحت وشناعت بہت سے دیندار لوگوں کے ذہنوں سے بھی محور ہوچکی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے مکانوں کی تعمیر کے دوران راستہ کی حرمت کا خیال نہیں رکھتے، اتنا ہی نہیں خالص دینی کام جیسے مساجد، عیدگاہ، وغیرہ کی تعمیر کے موقع پر بھی ایک دو فٹ راستہ کی زمین اس میں شامل کردیتے ہیں اور اگر یہ نہ کریں تو کم از کم سیڑھی ضرور راستہ پر بناتے ہیں، مسجد کی تعمیر بلا شبہ ایک بہت بڑا خیر کا کام ہے جو اس اہل خیر کو جنت تک پہنچائے گا؛ لیکن راستہ پر بنائی جانے والی سیڑھی جنت میں نہیں بلکہ جہنم میں ہی اتارے گی۔
عن سھل بن معاذ عن أبیہ قال: غزونا مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فضیق الناس المنازل وقطعوا الطریق فبعث النبی صلی اللہ علیہ وسلم منادیا ینادی فی الناس: من ضیق منزلا أو قطع طریقا فلا جھاد لہ (أبو داود: ۰۲۹۳)
سہل بن معاذ نے اپنے والد کے حوالے سے بیان کیا کہ ایک غزوہ میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، راستہ میں ایک جگہ پڑاؤ کیا تولوگوں نے خیمے لگانے میں راستہ کی جگہ تنگ کردی، اور عام گذر گاہ کو بھی نہ چھوڑا، اللہ کے رسول کو اس صورتحال کا پتہ چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعلان کرنے والا بھیجا، جس نے اعلان کیا کہ جو شخص خیمہ لگانے میں تنگی کرے یا راستہ میں خیمہ لگائے تو اس کا جہاد(قبول) نہیں ہے۔
بہت سے لوگ نماز کے اوقات میں خاص طور پر جمعہ کے دن اپنی گاڑیاں مساجد کے سامنے راستہ پر اس طرح پارک کردیتے ہیں کہ وہاں سے گزرنے والوں کو اس کی وجہ سے کافی دشواری ہوتی ہے، بعض لوگ تو بیچ راستہ میں ہی پارک کرکے چلے جاتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستہ کے حق کا خیال نہ رکھنے والوں کے جہاد جیسی عظیم عبادت کو رائیگاں قرار دیا ہے، تو پھر بعض مصلیوں کی یہ حرکت کیا ان کی نمازوں پر سوالیہ نشان نہیں لگادیتی ہے؟ لہٰذا مساجد کے سامنے راستہ پر اصلا گاڑی پارک ہی نہیں کی جانی چاہیے، اور اگر اس کے بغیر چارہ نہ ہو تو کوشش کرنی چاہیے کہ گاڑی بالکل کنارے پارک کریں؛ تاکہ راستہ نہ تنگ ہو،نہ بند ہو اورگذرنے والے آسانی سے گزریں۔راستہ کے معاملہ میں اس کامامون ومحفوظ ہونا بھی اہم ہے؛ تاکہ لوگ وہاں سے بے خوف وخطر گذرسکیں، اسلام نے اسے بڑی اہمیت دی ہے؛ اسی لیے ایسے لوگ جو راہ گیروں پر حملہ کرکے ان کا مال واسباب لوٹ لیتے ہیں یا انھیں قتل کردیتے ہیں اللہ نے قرآن میں ان کے لیے انتہائی سخت سزا تجویز کی ہے اور اسے اللہ ورسول کے ساتھ جنگ قرار دیا ہے۔
إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہ وَیَسْعَوْنَ فِی الأَرْضِ فَسَادًا أَنْ یُّقَتَّلُوْا أَوْ یُصَلَّبُوْا أَوْ تُقَطَّعَ أَیْدِیْھِمْ وَأَرْجُلُھُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ یُنفَوْا مِنَ الأَرْضِ ذٰلِکَ لَھُمْ خِزْیٌ فِیْ الدُّنْیَا وَلَھُمْ فِیْ الآخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ (المائدۃ: ۳۳)
جو لوگ زمین میں فساد وپھیلا کر اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں، ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کردئے جائیں یا انھیں صولی دے دی جائے، یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پیر کاٹے جائیں یا پھر انھیں ملک بدر کردیا جائے۔
اس سخت سزا کا مقصد یہی ہے کہ راستے مامون ومحفوظ ہوں اور لوگ بے خوف وخطر اس سے استفادہ کرسکیں۔اس لیے راستہ پر ایسا کوئی بھی عمل جس کی وجہ سے راہ گیروں کا جان ومال خطرہ میں پڑے جرم تصور کیا جائے گا، لہٰذ اٹریفک قوانین کی پاسداری شرعا ضروری ہوگی؛ اس لیے کہ اس کا مقصد راستہ کو ہر ایک کے لیے مامون ومحفوظ بنانا ہے، لہٰذا ٹریفک قوانین کی خلاف وزی یا راستوں پر کوئی ایسی حرکت جو راہگیروں کے لیے خطرہ یا پریشانی کا باعث بنے جیسے بہت تیز گاڑی چلانا، سڑک پر ریس لگانا، خطرناک طریقہ سے اُور ٹیک کرنا، بلا ضرورت تیز ہارن بجانا، ریڈ سگنل کراس کرنا نہ صرف قانوناً بلکہ شرعی اعتبار سے بھی قابل مواخذہ جرم ہے۔
٭٭٭