... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارت میں تقریبا تمام مذہبی مقامات خصوصا مساجد پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے ایک ہندو تنظیم نے سپریم کورٹ میں 1991 کے قانون کی ایک شق کو چیلنج کیا ہے جس میں 15 اگست 1947 کو تقسیم ہند سے قبل موجود مقدس مقامات کی خصوصی مذہبی حیثیت کو برقرار رکھا گیا تھا۔ یہ درخواست ہندو تنظیم ”مہاسنگ ”کی جانب سے دائر کی گئی تاکہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے 1991 کے ایکٹ کی دفعہ 4 کواپنے قانونی اختیار سے تجاوزاور غیر آئینی قراردلوایا جاسکے۔ بھارتی ریاست مہاراشٹر کی انتظامیہ نے ہندوتوا گروپس کے دباؤ میں آکر ایک تاریخی مسجد کو سیل کر دیا، جہاں انتہاپسند ہندو جماعت مندر بنانا چاہتی ہے۔ بھارت میں ہندوتوا گروپوں سے مہاراشٹر کے قصبے ایرنڈول میں 800 برس پرانی مسجد کے بارے میں دعویٰ کیا کہ یہ مسجد ایک مندر کو ڈھا کر بنائی گئی تھی۔ اس لئے یہاں دوبارہ مندر تعمیر کیا جائے گا۔ اب مسجد کے ٹرسٹی نے اورنگ آباد ہائیکورٹ میں مقدمہ دائر کر دیا جس میں مقامی حکومت کو فریق بنایا گیا ہے۔ مقدمے میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ مسجد کو کھولنے اور وہاں عبادت کی اجازت دینے کا حکم جاری کریں۔ یہ بنیادی مذہبی آزادی کا کیس ہے۔
مسجد کی ٹرسٹ کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈووکیٹ شاہد ندیم نے عدالت کو بتایا کہ مسجد ایک رجسٹرڈ وقف جائیداد ہے جس کو سیل کرنے کا اختیار کلکٹر کے پاس نہیں ہوتا۔ و وقف املاک سے متعلق معاملات کو وقف ٹربیونل کے ذریعہ حل کیا جانا چاہئے۔ مسجد ٹرسٹی کے وکیل نے مسجد کے وقف جائیداد ہونے سے متعلق ویڈیو اور دستاویزی ثبوت بھی عدالت میں جمع کرائے۔دوسری جانب ہندوتوا گروپ جسے پانڈو ورا سنگھرش سمیتی کے نام سے جانا جاتا ہے’ نے کہا کہ یہ مسجد پانڈو ورا کے ڈھانچے کو گرا کر بنائی گئی تھی۔ اس لئے یہ زمین متنازعہ ہے اور کیس کا فیصلہ ہونے تک اس مقام کو سیل رکھا جائے۔متذکرہ قانون کے تحت کسی مندر کو مسجد اورکسی مسجد کو مندر میں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ۔ ہندو تنظیم نے دعویٰ کیا کہ اس قانون نے ایک اور عقیدے ”مسلمانوں”کی طر ف سے طاقت کے ذریعے مذہبی املاک پر کئے جانے والے قبضے کے خلاف کارروائی سے روک دیا ہے جس کے نتیجہ میں ہندو عدالت میں کوئی بھی مقدمہ دائر کرکے یا آئین کی دفعہ 226کے تحت ہائی کورٹ میں کوئی مقدمہ دائر کرکے ہندو اوقاف کی املاک یامندروں پر جن پر 15اگست 1947سے پہلے ہی قبضہ کیا جاچکا ہو کی واپسی کیلئے کوئی کوشش نہیں کر سکتے۔ مسلمانوں کی تنظیم جمعیت علمائے ہند نے ہندو تنظیم کی طرف سے دائر عرضداشت کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ میں ایک دائردرخواست میں استدعا کی کہ عدالت 1991کے ایکٹ کے خلاف دائر ہندو تنظیم کی درخواست کو سماعت کیلئے منظور نہ کرے سماعت سے مسلمانوں میں خوف پیدا ہوگا۔
بابری مسجد کی شہادت میں ہندو فاشزم نے بدترین انتہا پسندی کا مظاہرہ کیا۔ اس بہیمانہ کاروائی نے جمہوریت سیکولرازم اور قانون کی حکمرانی کے تمام دعوؤں کو بے نقاب کر دیا۔ بابری مسجد کی شہادت کے نتیجے میں بھارتی نیشنلزم کے ماتھے پر ہزاروں افراد کے خون کے ایسے داغ لگ گئے ہیں جو کبھی مٹائے نہیں جا سکتے۔ بھارت میں اگر مذہبی طور پر مسلمان محفوظ نہیں رہ سکتے تو اجتماعی طور پر دوسری لسانی اور ثقافتی تنظیمیں بھی قائم نہیں رہ سکتیں۔ بھارت میں جمہوری اقدار کا یہ عالم ہے کہ صدیوں سے محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے شودروں کو اچھوت سمجھا جاتا ہے اور سکھوں پر ناقابل بیان مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔بابری مسجد کی تباہی کے بعد ہندو انتہا پسند گروپ بہت عرصہ سے گیان واپی مسجدکی زمین ہتھیانے کے لئے مسلسل دعویٰ کر رہا ہے ۔ 1936 میں علاقے کے ہندوؤں سے مسجد تنازع کے بعد مسلمانوں نے بنارس کی سول عدالت میں ایک مقدمہ بھی دائر کیا۔ 1937ء میں عدالت نے مسلمانوں کو مسجد میں نماز پڑھنے اور مسجد کے احاطے میں دفن بزرگ کے مزار پر عرس کرنے کی بھی اجازت دے دی۔ 1991ء میں پی وی نرسیماراؤ کی حکومت نے تمام مذاہب کی عبادتگاہوں کے متعلق ایک قانون پاس کیا جس کے مطابق مذہبی عبادتگاہوں اور ان کی جگہوں کو اسی طرح اور اسی حالت میں برقرار رکھا جائے گا جس حال میں 15 اگست 1947ء میں تھے۔ اس قانون کے باوجود 1991 ء میں آر ایس ایس کے انتہا پسند سومناتھ ویاش نے وارانسی کی عدالت میں مسجد کی زمین کے حصول کیلئے درخواست دی تاکہ اس پر کاشی وشواناتھ مندر تعمیر کیا جا سکے۔
اگر بھارتی مسلمان مودی کو مندر بنانے اجازت دے بھی دیں تو مودی اور انتہا پسند آر ایس ایس فوراً سے بیشتر مسلمانوں کی تمام عبادتگاہوں کو تباہ و برباد کرنے کی کوشش کریں گے۔ گیان واپی مسجد بھارت میں بسنے والے ان مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے جو اپنی وفاداریاں ابھی بھی بھارت کے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اب نیا بھارت مودی کا بھارت ہے۔جہاں اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ مودی کی طاقت ور سیاست اور بھارتی ہندو سماج کاکشمیریوں سمیت تما م بھارتی مسلمانوں کے خلاف شرمناک رویہ قابل افسوس ہے۔ آج کل جیسا کہ پوری دنیا میں ہر قسم کی انتہا پسند ی کی مخالفت کی جا رہی ہے، تو دنیاوی سماج بھارتی انتہا پسند اور دہشت گردی کی طرف سے اپنی آنکھیں اور کان کیوں بند کیے بیٹھا ہے۔