... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2024 کے لوک سبھا انتخابات سے قبل منعقد ہونے والے حالیہ بلدیاتی الیکشن کو ترنمول اور بی جے پی کے درمیان سیمی فائنل کے طور دیکھا گیا اور اول الذکر نے زعفرانیوں کو بری طرح روند ڈالا۔ اس کے علاوہ ایک اور سیمی فائنل اشتراکیوں اور کانگریس کے درمیان بھی کھیلا جا رہا ہے ۔ وہ دونوں ٹیمیں ویسے تو خاصی کمزور ہیں لیکن مقابلہ توخیر مقابلہ ہی ہوتا ہے ۔گرام پنچایت میں جہاں سی پی ایم نے تقریباً تین ہزار نشستوں پر کامیابی حاصل کی وہیں کانگریس چار سو پیچھے رہی اور اسے تقریباً 2600نشستوں پر اکتفاء کرنا پڑا یعنی کانگریس کے ترنگے سے لال پرچم اونچا لہرایا۔ پنچایت سمیتی میں یہ کھیل الٹ گیا۔ وہاں سی پی ایم دوسو پر بھی نہیں پہنچ سکی جبکہ کانگریس ڈھائی سو سے آگے نکل گئی۔ ضلع پریشد کے اندر تو سی پی ایم کی حالت اور بھی خراب تھی ۔ اس کے پاس صرف تین اور کانگریس کے پاس بارہ نشستیں آگئیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں بنگالی عوام بی جے پی سے دور ہوکر ترنمول کی جانب جا رہے ہیں وہیں سی پی ایم کے لوگ بھی بی جے پی اور کانگریس کا رخ کررہے ہیں۔ اس کی علاقائی وجوہات ہیں ۔
سی پی ایم نے مغربی بنگال میں ایک طویل عرصہ حکومت کی اور2014کے قومی انتخاب تک اس کے پاس 29.71% موجود تھے مگر پھر اس پارٹی کے ساتھ ایسا کیا ہوگیا کہ وہ ڈھلان پر پھسلتی چلی گئی ۔٩ سال قبل 13 پارلیمانی نشستیں گنوا کر دو پر آنے والی دوبارہ سنبھل ہی نہیں سکی ؟ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ ایک بہت بڑی وجہ تو یہ ہے کہ فی الحال سی پی ایم کے پاس جیوتی باسو جیسا مقبول عام رہنما نہیں ہے اور عام ہندوستانی نظریات کے بجائے شخصیات سے زیادہ متاثر ہوتا ہے ۔ سی پی ایم میں مٹھی بھر لوگ ایسے ضرور تھے جو اشتراکی نظریہ کے حامی تھے اور اس کی سربلندی کے لیے انہوں نے بڑی قربانیاں دی تھیں۔ اقتدار کی باگ ڈور ہاتھ آئی تو سماج دشمن عناصر کی ایک بڑی تعداد بھی اپنے مفاد و تحفظ کی خاطر سی پی ایم کے ساتھ ہوگئی تھی۔ اس میں دونوں کا فائدہ تھا اس لیے کہ وہ اپنے دیہی علاقوں میں قوت بازو سے پارٹی کی کامیابی کو یقینی بناتے تھے ۔ ان کا نظریات و اقدار سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ اقتدار سے بے دخلی کے بعد ان کا پارٹی میں رہنے کے لیے کوئی جواز نہیں بچا اور ترنمول کی گود میں چلے گئے ۔ ممتا نے بھی ان کا خیر مقدم کیا ۔ مغربی بنگال میں اگر بی جے پی برسرِ اقتدار آجاتی تو یہ لوگ زعفرانی ہوجاتے اور پھر سے ان کا استقبال کیا جاتا کیونکہ جمہوری نظام ایسے لوگوں کو بیش قیمت اثاثہ سمجھا جاتاہے اور بلاشرکت نظریہ و فلسفہ یہ سکہ ّ خوب چلتا ہے ۔
اشتراکیوں کے ساتھ ایک بڑی تعداد بنگلہ دیش سے ہندوستان آنے والے مہاجرین کی تھی ۔اشتراکیت کے نعرے میں چونکہ دبے کچلے لوگوں کی خاطر ایک فطری کشش تھی اس لیے بڑی تعداد میں ان لوگوں نے سرخ پرچم کو تھام لیا۔ کمیونسٹ پارٹی نے ان کا فائدہ تو خوب اٹھایا مگر فکری تربیت کے لیے کچھ نہیں کیا ۔ وقت کے ساتھ ان میں سے بہت سارے خوشحال ہوگئے تو ایسے لوگوں کے نزدیک اشتراکی نعرے کی جانب رغبت کم ہوگئی۔ ان لوگوں کے دل میں چونکہ وطن کو گنوانے کا قلق تھا اس لیے جب بی جے پی نے ان کو ریزرویشن دینے کی بات کی۔ سی اے اے کے تحت شہریت کا گاجر دکھایا تو وہ اس کی جانب راغب ہوئے اور بام(دایاں بازو) کے بجائے رام بھگت بن گئے ۔ گزشتہ انتخاب کے دوران وزیر اعظم نے مہم کے بیچ بنگلہ دیش کا دورہ کرکے اس دیوتا کے مندر کی زیارت کی جس سے وہ بڑی عقیدت رکھتے ہیں۔ یہ دراصل ان کو رجھانے کی ایک کوشش تھی جسے ممتا نے اسی سماج کے کچھ رہنماوں کو ساتھ لے کر ناکام کردیا۔ دائیں محاذ نے پہلے رام اور پھر بام کا نعرہ لگا کر ان کے جانے کا راستہ سہل کردیا۔ اشتراکیوں کے ساتھ جو غیر فسطائی لوگ تھے وہ آج بھی ان کے ساتھ ہیں یا کانگریس کو پسند کرنے لگے ہیں ۔ اسی طرح ممتا بنرجی کے طویل اقتدار کی وجہ سے عوام میں جو فطری بیزاری پیدا ہورہی ہے وہ بھی کانگریس کے مفاد میں کام کررہی ہے لیکن پارٹی کے صوبائی سربراہ ادھیر رنجن چودھری کی نااہلی بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔
حالیہ انتخابات کا بدترین پہلوالیکشن کے دوران برپا ہونے والا وہ بھیانک تشدد ہے جس نے چالیس جانیں تلف کردیں ۔ ریاست کے گورنر سی وی آنند بوس اس کی آڑ میں ممتا کو ہٹا کر اپنا یعنی گورنر راج لانا چاہتے ہیں ۔ اسی لیے وہ دوران انتخاب رپورٹ دینے کے لیے دہلی پہنچ گئے ۔ دہلی میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ سے ملاقات کے بعد نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے گورنر نے کہا کہ یہ طلوع فجر سے عین پہلے گھنے اندھیرے کا وقت تھا۔ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ جلد طلوع ہونے والی ہے ۔ بوس نے کہا کہ مجھے صرف ایک ہی پیغام مل سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں جلد ہی کچھ اچھا ہونے والا ہے یعنی ان کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور آنے والی ہے ۔ اس کی راہ ہموار کرنے کے لیے بی جے پی نے بھی اپنی تحقیقاتی ٹیم بنگال بھیج دی حالانکہ اس سے کہیں زیادہ تشدد منی پور میں ہوا مگر نہ تو وہاں کے گورنر نے یہ زحمت کی اور نہ بی جے پی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم منی پور گئی۔ یہ بی جے پی کی خراب نیت کا ثبوت ہے ۔ ویسے بی جے پی نے اگر یہ حماقت کردی تو ممتا کے حق میں اٹھنے والی ہمدردی کی زعفرانیوں کوبہاکر بنگال کی کھاڑی میں غرق کردے گی ۔
انتخابی تشدد اور خون ریزی کے ان واقعات پر کلکتہ ہائی کورٹ نے جب ریاستی الیکشن کمیشن کی سخت سرزنش کرکے دریافت کیا کہ عدالتی احکامات کے باوجود ان واقعات پر قابو کیوں نہیں پایا جاسکا تو ریاستی الیکشن کمشنر نے اس کے لیے کافی تعداد میں مرکز ی فورسز نہ ملنے کی وجہ بتائی ۔اس طرح امیت شاہ کے اوپر تشدد کی بلا واسطہ ذمہ داری آجاتی ہے ۔ ابتداء میں الیکشن کمیشن نے صرف 22 کمپنیاں طلب کی تھیں مگر کلکتہ ہائی کورٹ نے مرکزی فورسز کی نگرانی میں انتخابات کی ہدایت کی تو اس نے مرکزی وزارت داخلہ سے 822 کمپنیوں کا مطالبہ کر دیا۔ اس کے بعد ریاست میں انتخابات کے مرکزی فورسز کی نگرانی میں کرائے جائیں یا نہیں اس پر اختلاف ہوگیا ۔ ہائی کورٹ کی ہدایات کے خلاف ممتا حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ۔ وہاں اس کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے ہائی کورٹ کی ہدایت کو برقرار رکھا۔ اپنے فیصلے میں جسٹس ناگارتنا نے کیا خوب کہا کہ انتخابات کا انعقاد تشدد کا لائسنس نہیں ہو سکتا اور ہائی کورٹ نے ماضی میں تشدد کے پیش نظر فیصلہ
سنایا ہے ۔عدالتی تاکید کے بعد بھی مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ صرف 660 کمپنیاں مہیا کراسکے ۔ اس طرح گویا دونوں سرکاروں نے تشدد کے خدشات اور پیش گوئی کے باوجود سیاسی بالادستی کیلئے عوام کی سلامتی سے کھلواڑ کیا۔
مغربی بنگال میں انتخابی تشدد روایت قدیم ہے ۔وہاں پر بائیں بازو کی حکومت کے دوران بھی انتخابات میں تشدد ہوا کرتا تھا اور ترنمول کانگریس کے برسرِ اقتدار ہونے کے باوجود بھی حالات نہیں بدلے ۔عام طور پر جبرو تشدد اچھی چیز نہیں ہے لیکن جن کے دماغ میں اقتدار کا خناّس گھسا ہوا ہو۔ جولوگ اقتدار کے نشے میں مست قتل و غارتگری پر فخر جتاتے ہوں وہ جب اپنے دام میں پھنس کرخود اس کا شکار ہو جائیں تو مظلومین کو یک گونہ خوشی ہوتی ہے ۔ مغربی بنگال میں اس بار بی جے پی کو دوہری مار پڑی ہے ۔ اس کو نہ صر ف پولنگ بوتھ کے باہر بلکہ اندر سے آنے والے نتائج میں بھی منہ کی کھانی پڑی ۔ دبنگ وزیر داخلہ اپنے سارے لاو ٔ لشکر کے باوجود عین توقع کے مطابق تشدد پر قابو پانے میں بری طرح ناکام رہے ۔ اپنی پارٹی کے کارکنان کو تحفظ فراہم کرنے ناکام ہوجانے والے وزیر داخلہ سے بھلا مخالفین کیا توقع کر سکتے ہیں ۔ آر ایس ایس کی شاکھاوں میں دی جانے والی لاٹھی چلانے تربیت بھی کارگر ثابت نہیں ہوئی ۔ پناّ پرمکھ کا نظام بھی درہم برہم ہوگیا ۔ مجبور نہتے لوگوں کو گھیر کر ہجومی تشدد کرنے والے گئو رکشک خود اپنی رکشا نہیں کرسکے اور اپنے بلوں میں گھس کر بیٹھ گئے ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انتظامیہ کے آشیرواد سے شیر نظر آنے والے زعفرانی بھیڑئیے اضافی تحفظ کے ہٹتے ہی بھیگی بلی بن گئے اور ساری ہیکڑی ہوا ہوگئی ۔ اس تشدد سے ٹی ایم سی کی بدنامی ہوتی ہے کیونکہ نظم و نسق بحال رکھنا اس کی ذمہ داری ہے ۔ ترنمول کو فی الحال اس کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔ اس میں سب سے زیادہ سیاسی فائدہ بی جے پی کو ہے جو عدم تحفظ کی زمین پر نفرت کی فصل اگاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ممتا نے انتخابی تشدد کے لیے رام ، شیام اور بام تینوں کو ذمہ دار ٹھہرایا اور بجا طور پر اس بی جے پی کو سرِ فہرست رکھا لیکن اب یہ جادو کم ازکم مغربی بنگال کی حدتک بے اثر ہوگیا ہے اور بلدیاتی انتخابات کے نتائج یہ پیغام دے رہیں کہ بی جے پی ایک بہت بڑی ناکامی کی جانب رواں دواں ہے ۔
٭٭٭