وجود

... loading ...

وجود

آئی ایم ایف سے قرض کا حصول

اتوار 16 جولائی 2023 آئی ایم ایف سے قرض کا حصول

وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹوبورڈ نے پاکستان کے ساتھ 3ارب ڈالر کے ا سٹینڈبائی پروگرام کی منظوری دینے کے ساتھ ہی اس پروگرام کے تحت پاکستان کو 1.2ارب ڈالر فوری طور پر جاری کردیے ہیں۔ آئی ایم ایف کی طرف سے بیان میں کہا گیا کہ ا سٹینڈ بائی معاہدے کا مقصد پاکستان کے معاشی اصلاحات کے پروگرام،معیشت کو استحکام دینا،مختلف کس قسم کے خطرات کے خلاف حفاظت فراہم کرنا اور ملک کے عوام کے لیے سماجی اور ترقیاتی اخراجات کے لیے گنجائش پیدا کرنا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ا سٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب پاکستان کو مشکل معاشی صورتحال کا سامنا ہے۔اس معاہدے سے پاکستان کو اندرونی اور بیرونی عدم توازن کو ختم کرنے میں مدد ملے گی اور اس سے کثیر الاقوامی اداروں اور پارٹنرز سے مالی مدد کے حصول کے لیے ایک فریم ورک دستیاب ہوگا۔آئی ایم ایف سے قرض کے اجرا کے ساتھ ہی متحدہ عرب امارات سے ایک ارب ڈالر اسٹیٹ بینک کو موصول ہوگئے ہیں۔ بدھ کو سماجی رابطے کے ذریعے ٹوئٹر پر جاری اپنے پیغام میں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ ا سٹینڈ بائی ایگریمنٹ کی منظوری سے فوری سے درمیانی مدت کے معاشی چیلنجز پر قابو پانے کے لیے پاکستان کی اقتصادی پوزیشن کو تقویت ملے گی اور آئندہ حکومت کو آگے بڑھنے کے لیے مالیاتی وسائل میسر آئیں گے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کا 3 ارب ڈالرز قرض جاری کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر یہ تنبیہ کی ہے کہ پاکستان کوبجٹ اہداف پر عملدرآمد‘طے شدہ پالیسیوں پر سختی سے کاربند رہنااورمالیاتی نظم وضبط بہتر بنانا ہوگا‘ پاکستان کو سخت مانیٹری پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے جبکہ ادارہ جاتی اور توانائی شعبے کیلئے مزید اصلاحات ناگزیر ہو چکی ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کو ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ بیسڈ کرنا ہو گا۔ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوانے کہاہے کہ نیاپروگرام پاکستان کیلئے میکرو اکنامک استحکام لانیکا موقع ہے‘پاکستان کو اس پروگرام پر پوری لگن سے عمل کرنا ہوگا‘ بجٹ 2024 کے ذریعے پرائمری سرپلس مالی استحکام کی جانب خوش آئندقدم ہے
آئی ایم ایف نے اس قرض کے اجرا سے قبل ملک کی بڑی سیاسی پارٹیوں خاص طورپر حکومت کی جانب سے راندہ درگاہ بنانے کی کوششوں کی ہدف تحریک انصاف کے سربراہ سے بھی اس معاہدے پر عملدرآمد کی ضمانت مانگی تھی۔ اس اعتبار سے تحریک انصاف کا یہ دعویٰ کسی حد تک درست ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ یہ معاہدہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے تعاون کا نتیجہ ہے۔ اگر وہ اس پر کوئی اعتراض کردیتے تو شاید یہ معاہدہ ایک دفعہ پھر لٹک جاتا،قرض کے اجرا سے قبل آئی ایم ایف کا ملک کی خاص طور پر حکومت کے عتاب کی شکار سیاسی پارٹی سے صلاح مشورے سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ ملک کی موجودہ بحرانی کیفیت اور سیاسی کشیدگی میں آئی ایم ایف محض ایک ایسی حکومت کے ساتھ اتفاق کرنا کافی نہیں سمجھتا جس کی عوامی سطح پر پزیرائی نہ ہونے کے برابر ہو اور جس کے اقتدار کی سانسیں بھی آخر ی لمحات میں داخل ہورہی ہوں۔اس لیے آئی ایم ایف نے سیاسی استحکام کے ملفوف مشورے دیے لیکن حکومت نے ان مشوروں پر کان نہیں دھر ا اور یوں آئی ایم ایف کو آگے بڑھ کر ”میثاق معیشت“کے اس تصور کو عملی جامہ پہنانا پڑا جس کی تجویز شہباز شریف وزیر اعظم بننے سے پہلے پیش کرتے چلے آئے تھے۔وزیر اعظم بننے کے بعد انہوں نے میثاق معیشت کو بھول بھال کر سیاسی حریف جماعت کو کچلنے کا کام سنبھال لیا۔ ڈیڑھ سال سے پی ڈی ایم کی حکومت نے دل سوزی اورعرق ریزی سے صر ف دو ہی کام کیے ہیں۔ اول یہ کہ حکمران اتحاد میں شامل رہنماؤں پر قائم بدعنوانی کے مقدمات کا خاتمہ دوئم یہ کہ سب سے بڑے سیاسی حریف عمران خان کودبانا۔اس سے آدھی توجہ معیشت پر دی گئی ہوتی تو آج رضا ربانی کو آئی ایم ایف کو ایسٹ انڈیا کمپنی سے تشبیہہ نہ دینا پڑتی۔آئی ایم ایف کے وفد کی پیپلزپارٹی کے نمائندوں کے ساتھ ملاقات خبر نہ بن سکی کیونکہ پیپلزپارٹی اس وقت حکومت کا حصہ ہے اور اس کے وزیر تجارت سید نوید قمرآئی ایم ایف سے ملاقات کرنے والوں میں خود بھی شامل تھے۔پیپلزپارٹی سے ملاقات کا مطلب حکومت سے ہی ملاقات ہے مگر اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف آمدہ انتخابات میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کو ایک کیمپ میں کھڑا نہیں دیکھ رہا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو آئی ایم ایف کو حکومت میں شریک ایک جماعت سے بات چیت کرنے کی کیا ضرورت تھی۔اسحاق ڈار سے ہونے والے مذاکرات کا مطلب حکومت سے مذاکرات تھا اور حکومت کا مطلب مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے غالب حصے کی حکومت ہے۔ آئی ایم ایف نے ان مذاکرات کو پوری حکومتی سیاسی قیادت کا فیصلہ نہ جان کر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی قربتوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ آئی ایم ایف کی اصل ملاقات وہ تھی جو لاہور کے زمان پارک میں ہوئی اور اس نے ملکی کی سیاست کے موجودہ سیاسی منظراور بیانیوں کی جنگ کا میدان ہی بدل ڈالا۔جس طرح آئی ایم ایف کے وفد کا پیپلزپارٹی کے وفد کے ساتھ ملاقات میں خبرنہیں تھی اسی طرح اس وفد کی زمان پارک کی یاتر اایک بہت بڑی خبرثابت ہوئی ہے۔حکومت پی ٹی آئی کو سیاسی رنگ سے آؤٹ کرنے کا تہیہ کیے بیٹھی ہے اور بلکہ اپنے تئیں پارٹی کا تیا پانچہ کر چکی ہے۔پارٹی کے ہزاروں افراد جیلوں میں ہیں جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔پارٹی کے سربراہ پر قائم مقدمات کی تعدادغالباً 200سے تجاوز کرچکی ہیں اور ان کی صبحیں اور شامیں عدالتوں کے کٹہروں میں اپنی صفائیاں دینے میں گزر تی جا رہی ہیں۔میڈیا پر ان کا نام لینا ممنوع ہے اور آئی ایم ایف کے وفد سے ملاقات میں ایک ٹی وی چینل نے جس طرح عمران خان کی تصویر کو دھندلا کیا اس نے سنسر شپ کو کہانی کو ایک نیا رنگ وآہنگ دیا اور جدید ذرائع ابلاغ کے دور میں یہ سنسر شپ کی تاریخ کا ایک نیا دور اور انداز ہے۔حد تو یہ کہ ٹی وی چینل پر کرکٹ کی ڈاکیو منٹریز میں بھی ایک سبز سا ہیولا ہاتھوں میں ورلڈ کپ اُٹھائے میدان میں فاتحانہ چال چلتا ہوا نظر آتا ہے۔خود فریبی سی خود فریبی ہے کہ ان حیلوں بہانوں سے تاریخ کا دھارا موڑا جا سکتا ہے۔سیاسی عداوت میں اپنی تاریخ کو کھرچنا کس قدر عجیب رویہ ہے۔حکومت نے پی ٹی آئی کوایک سیاسی جماعت کی بجائے شرپسندوں کا ٹولہ،ماسٹر مائنڈ اور فتنہ سمیت کئی موٹی موٹی اصطلاحات اور القابات سے نواز رکھا ہے۔عمران خان کو سیاست سے باہر کی دنیا کا آدمی قرار دے کر سیاسی میدان سے نکال باہر کرنے کی کوششیں زوروں پر ہیں۔ ایسے میں آئی ایم ایف کا وفد اہتمام کے ساتھ زمان پارک کی یاترا کرتا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ عالمی اقتصادی ادارہ سرکاری بیانیے کو قبول نہیں کررہا اور حکومت کی تمام کوششوں کے باجود زمان پارک جانے سے رکتانہیں۔جس سے یہ مترشح ہے کہ عالمی اقتصادی ادارہ جو اس وقت پاکستان کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے آگے بھی معاملات طے کر نے پر مجبور ہے اور پی ٹی آئی کے معاملے میں حکومت کے بیانیوں کو قابل اعتنا سمجھنے کے بجائے پاکستان کے زمینی حقائق پر نظریں جمائے ہوئے ہے اور پاکستان کے زمینی حقائق یہ ہیں کہ حکومت پوری قوت کے باوجود عمران خان کو سیاسی منظر سے غائب نہیں کر سکی اور ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام میں ان کی مقبولیت بلند سے بلند تر ہو رہی ہے۔حکومت نے عمران خان کی پارٹی کو تو مینج کر لیا ہے مگر ان کے ووٹر کو کیسے مینج کیا جائے گا؟آئی ایم ایف جس پس منظر کا حامل ادارہ ہے اس میں تو یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ کسی ایسی شخصیت سے ملاقات کرکے اسے جوازیت عطا کرے جسے وہ دہشت گردی شرپسند اور کسی تشدد کا ماسٹر مائنڈ سمجھتا ہو۔گویا کہ حکومت کا موقف عالمی سطح پر من وعن تسلیم نہیں کیا گیا ہے بلکہ پاکستانی میڈیا سے غائب ہونے کے بعد عمران خان نے اپنا مقدمہ عالمی میڈیا میں لڑنے کا جو فیصلہ کیا تھا وہ اپنا رنگ دکھانے لگا ہے اور عالمی سطح پر انہیں اسٹیبلشمنٹ کی پراکسی کی بجائے اب سول سپر میسی کے نئے علمبردار کے طور پر دیکھنے کا رجحان پیدا ہونے لگا ہے۔ایسے میں عمران خان نے یقیناآئی ایم ایف کے وفد کو حکومت پاکستان کے ساتھ اپنے تمام گلے شکوؤں سے بھی آگاہ کیا ہوگا لیکن ان تمام کے باوجود معاہدے کی حمایت کا مشروط اعلان کرکے اپنی حب الوطنی کا ثبوت دیااور ان کی اس ضمانت کے بعد ہی آئی ایم ایف سے قرض کی قسط مل سکی ہے۔یوں اسحاق ڈار کی تجویز یعنی میثاق معیشت کو عملی جامہ پہنایا گیا مگر یہ کام حکومت کے بجائے آئی ایم ایف نے براہ راست کر لیا جس پر سینیٹر رضا ربانی بے ساختہ بول پڑے کہ آئی ایم ایف کی ملاقاتوں سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی واپسی ہوئی ہے جو نامورلوگوں کو اس بات پر آمادہ کرتی تھی کہ وہ کمپنی کے فیصلوں کی حمایت کریں۔انہوں نے اسے پاکستان کی سیاسی خود مختاری کے زوال پزیر ہونے سے تعبیر کیا۔رضا ربانی اگر اس کا تاریخی جائزہ لیتے تو اچھا تھا کہ ملک کی سیاسی خودمختاری کے لڑھکاؤ کا عمل اسی وقت شروع ہوا تھا جب پاکستان نے آئی ایم ایف سے پہلا قرض لے کر اس سے عیاشیوں کا راستہ اپنایا تھا۔پاکستان میں آئی ایم ایف کا قرض دینے سے پہلے سیاسی جماعتوں سے ضمانتیں حاصل کرنے کی مثال پہلے موجود نہیں۔البتہ چیمبر زآف کامرس مزدور یونینوں سمیت معاشرے کے دوسرے طبقات سے ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں جو آئی ایم ایف کی شرائط سے کسی نہ کسی حد تک براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔حکومت نے سیاسی اور معاشی استحکام کے قیام کا موقع ضائع کردیا او رچارو ناچار یہ کام آئی ایم ایف نے خود سنبھال لیا اور اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔


متعلقہ خبریں


امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود - پیر 08 جولائی 2024

مولانا محمد سلمان عثمانی حضرت سیدناعمربن خطاب ؓاپنی بہادری، پر کشش شخصیت اوراعلیٰ اوصاف کی بناء پر اہل عرب میں ایک نمایاں کردار تھے، آپ ؓکی فطرت میں حیا ء کا بڑا عمل دخل تھا،آپ ؓ کی ذات مبارکہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ نبی مکرم ﷺ خوداللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا مانگی تھی ”...

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود - بدھ 01 مئی 2024

بھارت میں عام انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی اختتام کے قریب ہے، لیکن مسلمانوں کے خلاف مودی کی ہرزہ سرائی میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جارہاہے اورمودی کی جماعت کی مسلمانوں سے نفرت نمایاں ہو کر سامنے آرہی ہے۔ انتخابی جلسوں، ریلیوں اور دیگر اجتماعات میں مسلمانوں کیخلاف وزارت عظمی کے امی...

نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود - بدھ 13 مارچ 2024

مولانا زبیر احمد صدیقی رمضان المبارک کو سا ل بھر کے مہینوں میں وہی مقام حاصل ہے، جو مادی دنیا میں موسم بہار کو سال بھر کے ایام وشہور پر حاصل ہوتا ہے۔ موسم بہار میں ہلکی سی بارش یا پھو ار مردہ زمین کے احیاء، خشک لکڑیوں کی تازگی او رگرد وغبار اٹھانے والی بے آب وگیاہ سر زمین کو س...

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود - منگل 27 فروری 2024

نگران وزیر توانائی محمد علی کی زیر صدارت کابینہ توانائی کمیٹی اجلاس میں ایران سے گیس درآمد کرنے کے لیے گوادر سے ایران کی سرحد تک 80 کلو میٹر پائپ لائن تعمیر کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ اعلامیہ کے مطابق کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے پاکستان کے اندر گیس پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی،...

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود - هفته 24 فروری 2024

سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر گزشتہ روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر جسے اب ا یکس کا نام دیاگیاہے کی سروس بحال ہوگئی ہے جس سے اس پلیٹ فارم کو روٹی کمانے کیلئے استعمال کرنے والے ہزاروں افراد نے سکون کاسانس لیاہے، پاکستان میں ہفتہ، 17 فروری 2024 سے اس سروس کو ملک گیر پابندیوں کا سامنا تھا۔...

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود - جمعه 23 فروری 2024

ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جنوری میں مہنگائی میں 1.8فی صد اضافہ ہو گیا۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ شہری علاقوں میں مہنگائی 30.2 فی صد دیہی علاقوں میں 25.7 فی صد ریکارڈ ہوئی۔ جولائی تا جنوری مہنگائی کی اوسط شرح 28.73 فی صد رہی۔ابھی مہنگائی میں اضافے کے حوالے سے ادارہ ش...

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف وجود - پیر 19 فروری 2024

عالمی جریدے بلوم برگ نے گزشتہ روز ملک کے عام انتخابات کے حوالے سے کہا ہے کہ الیکشن کے نتائج جوبھی ہوں پاکستان کیلئے آئی ایم ایف سے گفتگو اہم ہے۔ بلوم برگ نے پاکستان میں عام انتخابات پر ایشیاء فرنٹیئر کیپیٹل کے فنڈز منیجر روچرڈ یسائی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے بیرونی قرض...

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود - جمعرات 08 فروری 2024

علامہ سید سلیمان ندویؒآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تعلیم او رتزکیہ کے لیے ہوئی، یعنی لوگوں کو سکھانا اور بتانا اور نہ صرف سکھانا او ربتانا، بلکہ عملاً بھی ان کو اچھی باتوں کا پابند اور بُری باتوں سے روک کے آراستہ وپیراستہ بنانا، اسی لیے آپ کی خصوصیت یہ بتائی گئی کہ (یُعَلِّ...

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق وجود - بدھ 07 فروری 2024

بلوچستان کے اضلاع پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی امیدواروں کے دفاتر کے باہر دھماکے ہوئے ہیں جن کے سبب 26 افراد جاں بحق اور 45 افراد زخمی ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق بلوچستان اور خیبر پختون خوا دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں ہیں، آج بلوچستان کے اضلاع پشین میں آزاد امیدوار ا...

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر  کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں وجود - منگل 06 فروری 2024

مولانا محمد نجیب قاسمیشریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق کی مکمل طور پر ادائیگی کرے۔ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے قرآن وحدیث میں بہت زیادہ اہمیت، تاکید اور خاص تعلیمات وارد ہوئی ہیں۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،...

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

پاکستان میں صارفین کے حقوق کی حفاظت کا کوئی نظام کسی بھی سطح پر کام نہیں کررہا۔ گیس، بجلی، موبائل فون کمپنیاں، انٹرنیٹ کی فراہمی کے ادارے قیمتوں کا تعین کیسے کرتے ہیں اس کے لیے وضع کیے گئے فارمولوں کو پڑتال کرنے والے کیا عوامل پیش نظر رکھتے ہیں اور سرکاری معاملات کا بوجھ صارفین پ...

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

خبر ہے کہ سینیٹ میں عام انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد پر توہین عدالت کی کارروائی کے لیے دائر درخواست پر سماعت رواں ہفتے کیے جانے کا امکان ہے۔ اس درخواست کا مستقبل ابھی سے واضح ہے۔ ممکنہ طور پر درخواست پر اعتراض بھی لگایاجاسکتاہے اور اس کوبینچ میں مقرر کر کے باقاعدہ سماعت کے بعد...

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا

مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر