... loading ...
ریاض احمدچودھری
نامور برطانوی جریدے برٹش ہیرالڈ نے نام نہاد بھارتی جمہوریت کا بھانڈا پھوڑتے ہوئے جولائی کے شمارے میں مودی سرکار کے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، مذہبی تقیسم، نسل پرستی اور گرتے صحافتی معیار پر تشویش ناک سوالات اٹھا دیے۔ جریدے نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ اقلیتوں کے خلاف تشدد پر بڑھتے واقعات پر مودی کی مجرمانہ خاموشی کی بنیادی وجہ انتہا پسند اکثریت کی خوشنودی ہے۔ جنوری 2023 میں بھارتی ریسلنگ کے صدر برج بھوشن شرن سنگھ پر خواتین ریسلر کی طرف سے جنسی استحصال کے الزامات کے باوجود مودی نے کسی بھی قسم کا ایکشن لینے سے گریز کیا۔ رپورٹ میں ٹوئٹر کے سابقہ CEO جیک ڈورسی نے مودی سرکار پر ٹوئٹر معطل کرنے، دفاتر پر انکم ٹیکس حکام کے چھاپے اور ملازمین کے گھروں پر سرچ آپریشن کی دھمکی کا بھی حوالہ دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق مودی سرکار نے پستی کی تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے مودی مخالف ڈاکومنٹری نشر کرنے پر BBC کے دفاتر اور ملازمین کے گھروں پر چھاپے مار کر ہراساں کیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ سابق امریکی صدر بارک اوباما کا مودی سرکار کی اقلیتوں کی حالت زار پر بیان بھارت میں گرتی جمہوری اقدار کی عکاسی کرتا ہے۔ جبکہ بھارتی ریاست منی پور میں گزشتہ 2 ماہ سے جاری خانہ جنگی کے باعث 250 سے زائد چرچ نذرآتش، 115 افراد ہلاک جب کہ 4000سے زائد مقامی باشندے نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ مودی سرکار سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر Divide and Rule کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے منی پور اور پورے ہندوستان میں مذہبی تقسیم کو کشیدہ کر چکی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارت دنیا بھر میں انٹرنیٹ بندش کے لحاظ سے گزشتہ 4سالوں سے سر فہرست رہا۔ اس کے علاوہ ذرائع ابلاغ کی بندش میں بھارت یوکرین پر بھی سبقت لے گیا۔ جب کہ مودی کی سرپرستی میں 2002 کے گجرات فسادات اور 2023 کے منی پور فسادات میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ مودی سرکار کا مقصد منی پور میں جاری خانہ جنگی کو سنگین نہج پر پہنچا کر بھارتی فوج کی ریاست میں مستقل تعیناتی ہے۔ بھارتی فوج مودی سرکار کا سیاسی ہتھیار ہے اور فوج کی منی پور میں مستقل تعیناتی مخالف سیاسی اور صحافتی قوتوں کو دبانے کے لئے استعمال کی جا رہی ہے۔رپورٹ کے مطابق مودی سرکار منی پور میں پولیس کو صرف کوکی قبیلے کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف بلڈوز پالیسی، کئی ریاستوں میں حجاب پر پابندی، 2019 کے شہریت کے نئے قوانین اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کی ناجائز تنسیخ مودی کی انتخابی فوائد کے لئے ہندو پالیسی کا ثبوت ہے۔ Reporters without borders کے مطابق مودی سرکار نے صحافتی آزادی کا میڈیا پر بڑھتے کنٹرول، تنقیدی آوازوں کی بندش اور پیشہ ور صحافیوں کی حراسگی کے باعث بھارتی میڈیا شدید بحران کا شکار ہے۔ مودی امریکی دورے پر انسانی حقوق کے متعلق Wall Street Journal کی سبرینہ صدیقی کو مودی کے پیروکاروں کی طرف سے سوشیل میڈیا پر شدید ہراسگی کا سامنا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ خطے میں دہشت گرد گروہوں سے نمٹنے کا عزم قائم رکھتے ہیں۔بھارت میں 2022 مذہبی اقلیتوں کے خلاف ظلم و تشدد کا سال رہا۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں اس مسئلے کو اٹھایا تھا۔بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں ایک ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی ہے جس کی وجہ سے مودی سرکار کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔انسانی حقوق کے عالمی گروپ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ہمیشہ مظلوم کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھائی ہے۔ 5 اگست کے بھارتی اقدام کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل نے دنیا بھرکو مقبوضہ کشمیر کاحال بتایا ، دکھایا اورسنایا۔ پاکستان کی شاندار سفارتکاری اور ایسی ہی تنظیموں کی وجہ سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارت کو منہ کی کھانا پڑی۔ اس کے علاوہ دیگر بین الاقوامی فورمز اور ذاتی طورپر بھی مختلف ممالک بھارت پر مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کی داد رسی کی جائے۔
بجائے اس کے کہ مودی مقبوضہ کشمیر کے حالات درست کرتے انہوں نے طاقت کے زعم میں ایسی ہی تنظیموں کی بیخ کنی کو اپنا نشانہ بنا لیا ہے۔ چنانچہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بھارت میں متعدد دفاتر پر سینٹرل بیورو آف نویسٹی گیشن (سی بی آئی) نے غیر ملکی فنڈنگ کے قوانین کی مبینہ خلاف ورزی پر چھاپے مارے۔ لہذاانسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی حکومت کے انتقامی اقدامات اور مقبوضہ کشمیر سے متعلق آوازیں دبانے کی کوشش کے باعث بھارت میں اپنے دفاتر بند کر دیے۔گزشتہ ماہ جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں ایمنسٹی نے دعویٰ کیا تھا کہ دہلی پولیس نے ہونے والے فسادات کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کیں۔ دہلی پولیس نے ایمنسٹی کی رپورٹ کو یکطرفہ، متعصبانہ اور بدنیتی پر مبنی ہے قرار دیا تھا۔ایمنسٹی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا ایک برس مکمل ہونے پر بھارتی حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ حراست میں لیے گئے تمام سیاسی رہنماں، کارکنوں اور صحافیوں کو رہا کرے۔انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی عالمی تنظیم نے کہا کہ رواں ماہ کے آغاز میں بینک اکائونٹس کو منجمد کرنے کے عمل نے دفاتر بند کرنے پر مجبور کیا۔
٭٭٭