... loading ...
میر افسر امان
عبدالرحمان نام، ابو محمد کنیت اور زہری خاندان سے تعلق تھا۔ اصلی نام عبد عمرو تھا۔ جب ایمان لائے تو رسول اللہۖ نے ان کا نام عبدالرحمان رکھا۔ اسلام کے شروع کے دنوں میں،حضرت ابو بکر کی تبلیغ سے مسلمان ہوئے تھے۔ حضرت عبدالرحمان کو بھی دوسرے اصحاب کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کرنی پڑی تھی۔ حبشہ کی ہجرت کے بعد مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ مدینہ پہنچنے کے بعد رسول اللہۖ نے ان کا اسلامی رشتہ حضرت سعد بن الربیع انصاری سے جوڑا۔ حضرت سعد الربیع نے کہا میرا دھا مال اب آپ کا ہے ۔ اس پر حضرت عبدالرحمان نے ان کے لیے دعا فرمائی کہ اللہ تمھیں اس سے بھی زیادہ مال دے۔ کہا بھائی مجھے مارکیٹ کا راستہ بتا دو۔چناچہ ان کو یہودی قبیلہ بنی قینقاع کے بازار کی جگہ بتا دی گئی۔ بنی قینقاع کے بازار میںحضرت عبدالرحمان نے تجارت شروع کی۔ چند سالوں میں تجارت میں اللہ نے بڑی ترقی دی۔ انہوں نے سارے غزوات میں شرکت کی۔ غزوہ بدر میں شریک ہوئے۔ غزوہ اُحد میں بھی شریک ہوئے۔ اس غزوہ میں بدن پر بیس سے زیادہ آثار جراحت شمار کیے گئے۔ خصوصاً پائوں میں ضرب لگی جس سے ہمیشہ لنگڑا کرچلتے تھے۔ چھ ہجری شعبان کو رسول اللہۖ نے ان کو دومة الجندل کی مہم پر روانہ کیا۔ کہا کہ لڑائی سے پہلے مخالفوں کو اسلام کی دعوت دینا۔ اگر اسلام لے آئے تو ان کے بادشاہ کی لڑکی سے نکاح کرنا۔ قبیلہ کلب کے سردار عیسائی تھے۔وہ اور اس کے قبیلہ حضرت عبدالرحمان کی تبلیغ سے اسلام لے آئے۔ رسول اللہۖ کے فرمان کے مطابق کلب قبیلہ کے سردار کی بیٹی کو نکاح کا پیغام پہنچایا۔ قبیلہ کلب کے سردار اصبغ نے اپنی بیٹی کی شادی حضرت عبدالرحمان سے کر دی۔ غزوہ مکہ میں بھی شریک ہوئے۔ اس موقع پر حضرت خالد سے کسی معاملہ پر تلخ کلامی ہوئی۔ رسول اللہ ۖ کو معلوم ہوا تو حضرت خالد سے فرمایا۔ بس کرو خالد میرے اصحاب کو چھوڑو اگر تم راہ خدا میں اُحد پہاڑ کے برابر سونا صرف کرو تب بھی ان کے برابر نہ ہوگا۔ خلیفہ اوّل کے عہد میں حضرت عبدالرحمان ایک مخلص مشیر اور صائب الرائے رکن کی حیثیت سے ہر قسم کے مشوروں میں شریک رہے۔ تیس ہجری کو حضرت عمر فاروق نماز فجر پڑھا رہے تھے کہ عجمی غلام فیروز لولو نے خنجر سے حملہ کر دیا۔ حضرت عمر فاروق نے ہاتھ پکڑ کر حضرت عبدالرحمان کو مصلے پر کھڑا کر دیا۔حضرت عمر نے چھ افراد کے نام خلیفہ کے لیے پیش کیے تھے۔ ان میں حضرت ابو بکر اورعبد الرحمان کا نام شامل تھا۔حضرت عبدالرحمان نے حضرت ابو بکر کانام پیش کیا۔ حضرت ابو بکر کو سب نے خلیفہ منتخب کر لیا۔
عہد عثمانی میں حضرت عبدالرحمان نے خاموشی کی زندگی گزاری۔ کسی محاذ جنگ پر نہیں گئے۔اکتیس ہجری کو اللہ کو پیارے ہوئے۔جب ثقیفہ بن ساعدہ میں انصاریوں اور مہاجریں کے درمیان خلیفہ منتخب کرنے پر اختلاف ہوا تو حضرت عبدالرحمان نے ابوبکر اور حضرت عمر فاروق کے نام پیش کرنے پر اتفاق کیا اور حضرت ابو بکر خلیفہ مسلمین منتخب ہو گئے۔ خدائے تعالیٰ نے حضرت عبدالرحمان کو اصابت رائے اور دور اندیشی کا نہایت وافر حصہ عطا کیا تھا۔حضرت عبدالرحمان کا دامن فضل و کمال اور اخلاقی ، جواب دہی سے مالامال تھا۔ خوف خدا ،حب رسول ۖ فیاضی اور انفاق فی سبیل اللہ ان کے نہایت درخشاں اوصاف تھے۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ کھانا سامنے آیا تو بے اختیار رونے لگے۔ معلوم کیا گیا تو مسلمانوں کا گزشتہ فقر و فاقہ یاد آ گیا۔ کہا اب دنیا کشادہ ہو گئی ہے۔ اس قدر نعمتیں مل گئیں ہیں کہ مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کہیں زندگی میں ہی ہماری نیکیوں کا معاوضہ دے دیا ہے۔ اس کے بعد کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ ایک صحابی رسول ۖ اللہ ہونے کے ناتے ہمیشہ رسول اللہۖ کے ساتھ رہے۔ ایک دفعہ دیکھا رسولۖ اللہ موجود نہیں ہیں ۔ تلاش کرتے ہوئے نخلستان پہنچے۔رسول اللہ ۖ کو سجدے میں دیکھا۔ ایک دفعہ دسترخوان پر روٹی اور گوشت دیکھ کر بے اختیار رو پڑے پوچھا تو کہا کہ رسول اللہۖ کو تمام عمر پیٹ بھر کر جو کی روٹی نہیں ملی۔ رسولۖ اللہ نے فرمایا تھامیرے بعد جو میری ازواج مطہرات کی نگرانی و محافظت کرے گا وہ نہایت صادق اور نیکوکار ہو گا۔ یہ فرض حضرت عبدالرحمان کے متعلق تھا۔ وہ حج کے زمانے میں ازواج مطہرات کے لیے سواریوں کا انتظام فرماتے تھے۔ ان کو امہات المومنین کی خدمت و حفاظت کا فخر نصیب ہوا۔ ایک دفعہ ان کا تجارتی قافلہ مدینہ آیا۔ ان میں سات سو اونٹوں پر گہوں، آٹا اور دوسری اشیائے خورو نوش تھیں۔ حضرت عبدالرحمان نے اس سب مال کو اللہ کی راہ میں دے دیا۔ غزوہ تبوک پر اپنے مال کا آدھا جہاد کے لیے دے دیا۔ جس میں پانچ سو گھوڑے اور پانچ سو اونٹ تھے۔ ایک ایک دن میں تیس تیس غلام آزاد کراتے تھے۔ نماز نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرتے تھے۔ بیماری کی وجہ سے ان کو رسول اللہۖ نے ریشم پہننے کے اجازت دی تھی۔ قد طویل تھا۔ رنگ سرخ سپیدہ ریش دراز تھی۔ غزوہ اُحد میں زخم لگنے سے پائوں میں لنگ تھا۔ بیویوں کے ساتھ لطف و محبت سے پیش آتے تھے۔ کئی بچے اور بچیاں تھیں۔ رسولۖ اللہ نے فرمایاحضرت ابو بکر جنتی ہے۔حضرت عمر فاروق جنتی ہے۔ حضرت عثمان جنتی ہے۔ حضرت علی جنتی ہے۔ حضرت طلحہ جنتی ہے۔ حضرت زبیر جنتی ہے۔حضرت عبدالرحمان بن عورف جنتی ہے۔حضرت سعد جنتی ہے۔ حضرت سعید جنتی ہے۔ حضرت ابو عبیدہ جنتی ہے۔
٭٭٭