وجود

... loading ...

وجود

اللہ سے جنگ کر کے معیشت بہتر نہیں ہو سکتی

هفته 15 جولائی 2023 اللہ سے جنگ کر کے معیشت بہتر نہیں ہو سکتی

ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کر کے معیشت بہتر ہو گی نہ ترقی اور خوشحالی آئے گی۔حکومت نے وعدہ کے باوجود سودی نظام کے خاتمہ کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔اسلامی ملک کا پورا معاشی نظام انگریز کے دیے ہوئے1839ربا ایکٹ پر کھڑا ہے۔ آئین پاکستان سود کے خاتمے کی بات کرتا ہے، اسلامی نظریاتی کونسل کی واضح سفارشات ہیں اور وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ بھی موجود ہے لیکن سود کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو اس وقت 22فیصد ہے۔دنیا میں اس تناسب کی کہیں مثال نہیں ملتی۔
موجودہ حکومت کے سربراہ ایک مذہبی شخصیت ہیں جنھیں اتحادیوں پر دیگر بہت سے تحفظات ہیں مگر انھوں نے سود کا مسئلہ کبھی نہیںاٹھایا۔حکومت کی مدت 12اگست کو ختم ہو جائے گی۔ توقع تھی کہ حکومتی اتحاد کا حصہ مذہبی جماعت کے رہنما کم از کم سود کے خاتمے کے لیے اپنے اتحادیوں کو راضی کر لیں گے، مگر یہ کارخیر سر انجام نہ دیا جا سکا۔ امیر جماعت اسلامی نے کہا ہے حکومت وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کا آغاز کرے۔ ربا سے پاک معیشت کی تشکیل کے لیے حکومت سے تعاون کرنے کو تیار ہیں۔حکومت نے بجٹ میں سودی معیشت کو سہارا دیا تو پورے کرپٹ نظام کے خلاف ایسی تحریک چلائیں گے کہ حکمرانوں کو دن میں تارے نظر آئیں گے۔ آج سے مہنگائی اور سود کے خلاف تحریک کا آغاز کر دیا۔سودی نظام کے خلاف جدوجہد جاری رہے گی۔ان کا کہنا تھا کہ سودی معیشت کے خلاف اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے ن لیگ، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی سمیت تمام پارٹیوں کے رہنماؤں سے ملنے کو تیار ہیں۔ معیشت کو اسلامی خطوط پر ڈھالنے کے لیے قومی ڈائیلاگ کا آغاز ہونا چاہیے۔ حکمران خدا کا خوف کریں، کیا انہیں پورے ملک سے کوئی ایماندار اور اہل آدمی نہیں ملتا جو معیشت میں بہتری کے لیے آئی ایم ایف کے ایجنٹوں سے باربار رابطہ کیا جارہا ہے۔
سراج الحق نے حکومت کو پیشکش کی تھی کہ اگر حکومت اسلامی نظام معیشت اپناتی ہے، تو جماعت اسلامی ہر طرح سے اس کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہے۔ تعاون کی صورت میں جماعت اسلامی عنقریب پوری دنیا سے اسلامی معیشت کے ماہرین کی کانفرنس پاکستان میں منعقد کر کے سود کے خاتمے کیلئے پورا میکنیزم بنا کر حکومت کو دے گی۔ سود کا خاتمہ ملکی معیشت کی بحالی اور نمو کیلئے ناگزیر ہے۔ بدترین سودی نظام معیشت کے خاتمہ کے بغیر ملک و قوم کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن نہیں کیا جاسکتا۔ملکی بجٹ کا زیادہ تر حصہ سود اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی مد میں خرچ کرنے سے ملک و قوم کی ترقی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔نظام شریعت میں سود کے قطعی حرام ہونے کے بارے میں کوئی شک ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ ذاتِ باری تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورة بقرہ کی متعدد آیات میں سود کی ممانعت فرمائی ہے۔ اس کیلئے ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ اگر تم ایمان والے ہو تو سود کا بقایا بھی چھوڑ دو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اگر تم سود لینا اور دینا ترک نہیں کرتے تو تم اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑنے کیلئے تیار ہو جائو۔ بے شک ذاتِ باری تعالیٰ نے سود کو انسانوں کو ہلاک کرنے والا گناہ قرار دیا ہے۔ متعدد احادیث مبارکہ میں بھی سود سمیت سات بڑے گناہوں کو چھوڑنے کی تلقین کی گئی ہے جو فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق انسانوں کو ہلاک کرنیوالے گناہ ہیں۔ ایک حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ سود کھانے سے توبہ نہ کرنیوالے جہنم میں جائیں گے۔
اس وقت امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا کے 75ممالک ممالک میں اسلامی بینکاری جاری ہے اور حیرت انگیز طور پر غیر مسلم بھی اس سے استفادہ کررہے ہیں۔برطانیہ کے جس بینک نے اسلامی بینکاری کا آغاز کیا تھا اس میں سب سے پہلا اکائونٹ ایک غیر مسلم نے کھلوایااور اب اس بینک کی 14شاخیںقائم ہوچکی ہیں۔ملائشیا کے اسلامی بینکوں میں چالیس فیصد سے زائد کھاتہ دار غیر مسلم ہیں۔دنیا میں ہر جگہ سرمایہ دارانہ نظام معیشت آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ ہمارے ہاں اس پر زیادہ پیش رفت نہ ہونے کی اصل وجہ ملک میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کا معیشت پر کنٹرول ہے۔آئی ایم ایف نے اژدھے کی طرح معیشت کو جکڑ رکھا ہے۔سود پر قرضے دینے والے یہ کیسے پسند کرسکتے ہیں کہ ان کا کاروبار بند ہوجائے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 74سال پہلے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر بلاسود معیشت کا اعلان کیا تھا۔مگر بانی پاکستان کے اس حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے ہم نے پون صدی گزار دی۔دستور پاکستان کی دفعہ ایف 38میں دوٹوک حکم دیا گیا ہے کہ ریاست جتنی جلد ممکن ہو، ربا کو ختم کریگی لیکن چالیس سال سے حکمران دستور کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔
ہماری سیاسی اور مذہبی جماعتوںنے آمریت کے خلاف جدوجہد کی۔ عدلیہ کی بحالی کی تحریک چلائی۔ گو امریکہ گو کے نعرے لگائے’ حکومتیں بنائیں’ آئین میں ترامیم کیں بھی اور کروائیں بھی۔ جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد کی لیکن کسی کو اللہ اور اس کے رسول کا وہ اعلانِ جنگ یاد نہ آیا جو سود کے حامیوں کے خلاف ہے۔ سود کے خلاف یہ جنگ ہم میں سے کسی نے نہیں’ سود خوروں نے نہیں’ بلکہ اللہ نے شروع کی ہے۔عرب میں رواج تھا کہ کوئی کتنی بھی مشکل میں ہو ، قرض سود کے بغیر نہیں دیتے تھے۔ چونکہ یہ بات انسانیت کے خلاف تھی اس لئے ان معاملات کو ختم کرنے کے لئے سود کو حرام قرار دیا گیا۔ سب سے پہلے آپ ۖ نے حجةالوداع کے موقع پر سود کی حرمت کا اعلان کیا اور فرمایا : آج کے دن سود چھوڑ دیا گیا اور سب سے پہلے میں اپنے چچا حضرت عباس کا سود (دس ہزار مشکال سونا) معاف کرتا ہوں ( صحیح مسلم )، چونکہ حضرت عباس سود پر قرض دیا کرتے تھے اس لئے آپ ۖ نے اپنے گھر سے اللہ کے اس حکم کا عمل شروع کیا۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر