... loading ...
ریاض احمدچودھری
پاکستان میں پہلی دھاندلی 1965 ء کے صدارتی انتخاب میں فوج، بیوروکریسی ، پیروں اور وڈیروں کے گٹھ جوڑ سے ہوئی جس کے بعد حق سچ کا ساتھ دینے والے کتنے ہی لوگ جنہوں نے پاکستان کیلئے سب کچھ قربان کر دیا تھا، غدار کہلائے او رکیسے کیسے لوگ معتبر بن بیٹھے۔ یہ دھاندلی خود فیلڈ مارشل ایوب خاں نے کی جو پہلے الیکشن بالغ رائے دہی کی بنیاد پر کرانے کا اعلان کر کے مکر گئے۔ یہ پاکستان کی پہلی پری پول دھاندلی تھی۔ متحدہ اپوزیشن کی جانب سے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو جنرل ایوب خاں کے مقابلے میں صدارتی امیدوار بنایا گیا تو راقم الحروف بھی ان کی حمایت میں سرگرم رہا۔ میں نے لائل پور کی ایک یونین کونسل سے مادر ملت کی جیت یقینی بنائی اور بعد ازاں اس یونین کونسل کا چیئرمین منتخب ہوا۔ اس طرح میں مادر ملت کا سپورٹر اور ووٹر بن گیا۔ مغربی پاکستان میں ، میں یونین کونسل کا واحد چیئرمین تھا جس نے کھلے بندوں مادر ملت کی حمایت کی ۔
راقم الحروف نے تین قومی اخبارات روزنامہ امروز، روزنامہ کوہستان اور روزنامہ نوائے وقت کے تمام ایڈیشنوں میں مادر ملت کے حق میں ایک تہائی صفحے کا اشتہار دیاتھا۔ میں نے بحیثیت چیئرمین اپنی جیب سے پیسے خرچ کیے۔یہ اشتہار ابھی بھی میرے پاس موجود ہے۔ الیکشن مہم کے سلسلے میں میں ملتان سے لاہور تک محترمہ کے ساتھ رہا۔حبیب جالب بھی میرے ساتھ تھے۔
جنرل ایوب خان نے مادر ملت کو شکست دینے کیلئے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کیا۔ خفیہ ایجنسیوں نے بھی محترمہ کے خلاف پروپیگنڈہ کیا۔ انتخابی فضا کو اپنے حق میں کرنے کیلئے ایوب خاں نے ایسے ایسے طریقے اپنائے جو صرف ایک آمر ہی کر سکتا ہے۔ ایوب خاں نے انتخابات سے قبل سڑکوں پر فوج کا گشت کرایا۔ یہ ایک نفسیاتی حربہ تھا ۔ محترمہ فاطمہ جناح کے رفقا نے ان حکومتی ہتھکنڈوں کو بے اثر کرنے کیلئے جتنا بھی ممکن ہو سکا ، کام کیا۔ ایوب خان کا ارادہ تھا کہ اگر محترمہ فاطمہ جناح جیت بھی گئیں تو ان کو اقتدار منتقل نہیں کیا جائے گا۔ اسی ضمن میں نوا ب زادہ نصراللہ خان کی مشاورت سے سابق وزیر اعظم چودھری محمد علی کے ذریعے ملتان میں منعقدہ جلسے میں ایک قرار داد منظور کرائی کہ اگر ایوب خاں نے کرسی نہ چھوڑی تو انہیں گھسیٹ کر کرسی سے اتارا جائے گا۔ سندھ کے تمام جاگیردار گھرانے ایوب خان کے ساتھ ہوگئے تھے۔ بھٹو خاندان، جتوئی خاندان، محمد خان جونیجو خاندان، ٹھٹھہ کے شیرازی، خان گڑھ کے نواب، نواب شاہ کے سادات، بھرچونڈی ، رانی پور، بالا کے اکثر پیران کرام ایوب خاں کے ساتھ تھے۔ اس طرح کی دھونس دھاندلی عام رہی۔ اس الیکشن میں محترمہ فاطمہ جناح نہیں ہاری بلکہ جمہوریت ہار گئی۔ پاکستان ہار گیا۔ جو محب وطن اور جان نثار تھے ، غدار ٹھہرے اور اسمبلیوں اور ایوانوں سے ان کا خاتمہ ہوگیا۔ ابن الوقت اور چاپلوسی کرنے والے معتبر ٹھہرے اور آ ج بھی اسمبلیوں میں انہی کی اولادیں موجود ہیں۔
جماعت اسلامی کے مولانا سید ابوالاعلی مودودی ، سندھ سے جی ایم سید اور صوبہ سرحد سے خان عبدالغفار خان نے جبکہ مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب نے کھل کر محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی۔ پنجاب کے تمام سجادہ نشینوں نے ماسوائے پیر آف مکھنڈ پیر صفی الدین کے ان کے خلاف فتویٰ دیا۔ کراچی میں گہری جڑیں رکھنے والی جماعت اسلامی ، اندرون سندھ کے جی ایم سید ، حیدر آباد کے تالپور برادران ، بدین کے فاضل راہو اور رسول بخش پلیجو محترمہ فاطمہ جناح کے حامی تھے۔ یہی لوگ بعد میں پاکستان کے غداربھی ٹھہرائے گئے۔پورا مشرقی پاکستان غدار ٹھہرا کہ وہ سب محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ تھے۔محترمہ فاطمہ جناح کی خاطر شیخ مجیب الرحمن نے ڈھاکہ میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا ئے۔ مشرقی پاکستان سے محترمہ کی جیت پر جشن منائے گئے۔ صدارتی الیکشن میں گورنر ملک امیر محمد خان جن چند لوگوں سے پریشان تھے۔ جن میں سر فہرست سید ابوالاعلیٰ مودودی ، سردار شوکت حیات، خواجہ محمدصفدر والد خواجہ آصف، چودھری محمد احسن والد اعتزاز احسن ، خواجہ رفیق شہیدوالد خواجہ سعد رفیق، کرنل عابد امام والد محترمہ عابدہ حسین اورمیر علی احمد تالپور شامل تھے۔ یہ لوگ آخری وقت تک محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ رہے ۔
ایوب خاں نے محترمہ فاطمہ جناح کے بارے میں بڑی نازیبا گفتگو کی۔ ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے ایوب خاں نے کہا کہ مادر ملت محب وطن نہیں بلکہ انہیں وطن دشمن قرار دیا۔ایوب خاں کے منہ بولے بیٹے ذوالفقار علی بھٹو نے محترمہ فاطمہ جناح کو بڑھیا اور ضدی کے القابات سے نوازا۔ صدارتی الیکشن کے دوران فاطمہ جناح پر پاکستان توڑنے کا الزام بھی لگا۔ یہ الزام زیڈ اے سلہری نے ایک رپورٹ میں لگایا جس میںمحترمہ جنااح کی بھارتی سفیر سے ملاقات کا حوالہ دیا گیا تھا۔ یہ بیان دیا گیا کہ قائد اعظم تقسیم کے خلاف تھے۔ یہ وہی تقسیم تھی جس کا پھل کھانے کیلئے آج سب اکٹھے ہوئے تھے۔
پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ جیسی نظم لکھنے ولے اصغر سودائی ایوب خان کے قصیدے پڑھ رہے تھے۔ اوکاڑہ کے شاعرظفر اقبال نے چاپلوسی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ دوسری طرف حبیب جالب، ابراہیم جلیس، میاں بشیر احمد، محترمہ فاطمہ جناح کے جلسوں کے شاعر تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح سے میری متعدد ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ ایک عظیم خاتون تھیں۔ مولانا مودودی کے بقول ان میں کوئی خامی نہیں تھی سوائے اس کے کہ وہ ایک عورت تھیں اور ایوب خاں میں کوئی خوبی نہیں تھی سوائے اس کے کہ وہ ایک مردتھے۔ محترمہ فاطمہ جناح جنہیں قوم کی ماں ہونے کا شرف حاصل تھا ان کو صرف اس لئے ہرایا گیا کہ وہ عوام کے جمہوری حقوق کی بحالی اور ملک کو جمہوری راستے پر گامزن کرنا چاہتی تھیں۔ انہوں نے اپنے بھائی کی شب و روز محنت کے نتیجے میں قائم ہونے والے ملک کو ایک آمر سے نجات دلانے کی کوشش کی۔
محترمہ فاطمہ جناح نے موچی گیٹ اور باغ جناح لاہور میں انتخابی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا۔ ”عوام اپنے حقوق کی بحالی کے لیے متحد ہوکر راستے کی تمام رکاوٹیں دور کردیں۔ عوام پھر ایک نازک صورت حال سے دوچار ہیں۔ عوام کو اہم فیصلہ کرنا ہے اور ایسے حالات پیدا کرنے ہیں کہ جن سے ان مقاصد اور نظریات کی تکمیل ہوسکے، جن کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا تھا۔” ”پاکستان معاشی انصاف اور مساوات کے لیے معرض وجود میں آیا ہے عوام بلاخوف و خطر جمہوریت کی جدوجہد میں شریک ہوں ، کوئی قوت جمہوریت کی بحالی میں رکاوٹ نہیں بن سکتی”۔ انھوں نے حکمرانوں سے کہا ”اگر مجھے شکست دینا اتنا ہی آسان ہے، تو حکمران پریشان کیوں ہیں؟”
مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کوجب محسوس ہواکہ پاکستان میں جمہوری عمل کو خطرہ لا حق ہے تو وہ ایک بار پھر میدان عمل میں نکلیں اور انہوں نے ملک بھر میں جلسے کرکے آمر کو للکارا۔ پوری قوم ایک بار پھر محترمہ کی آواز پر لبیک کرتے ہوئے جوق در جوق اْن کے قافلے میں شامل ہونے لگی۔سازشی عناصر نے محترمہ فاطمہ جناح کو الیکشن میں تو کامیاب نہ ہونے دیا لیکن عوام کے دل سے مادر ملت کی محبت کو نہ نکال سکے۔یہی وجہ ہے کہ 9 جولائی 1967ء کو جیسے ہی محترمہ کے انتقال کی خبر جنگل کی آگ کی تیزی سے پھیلی عوام دھاڑے مارتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ ہر آنکھ اشک بار تھی اور ہر دل غمزدہ۔ عوام کی والہانہ عقیدت کے مدنظر محترمہ فاطمہ جناح کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے ان کی تدفین اْن کے بھائی قائد اعظم کے پہلو میں کی ۔مادرِ ملت کے نام سے جانی جانے والی،محترمہ فاطمہ جناح کا شمار پاکستان کی تحریک آزادی کے اہم رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ان سے محبت اور عقیدت کا بڑا سبب یہی ہے کہ وہ اپنے بھائی قائدِ اعظم محمد علی جناح کی پرجوش حامی تھیں، لیکن محترمہ کی اپنی شخصیت بھی کچھ کم اہم نہیں۔
محترمہ فاطمہ جناح، 1893 میں پیدا ہوئیں۔ 1901 میں والد کی وفات کے بعد وہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ رہنے لگیں۔ بھائی کی ہی حوصلہ افزائی پر انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی اور ڈاکٹر احمد ڈینٹل کالج میں حصولِ تعلیم کے دوران وہ ہاسٹل میں مقیم رہیں۔ 1923 کے دنوں میں جب یہ سوچنا بھی محال تھا کہ مسلم خاندان کی لڑکیاں کوئی پیشہ اختیار کریں، اس وقت فاطمہ جناح نے کلکتہ میں اپنا ڈینٹل کلینک کھولا۔ قائدِ اعظم کی اہلیہ، رتی جناح کا انتقال ہوا تو وہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی ترک کر کے اپنے بھائی کے ساتھ جا کر رہنے لگیں اور اْن کے گھر اور کم سن بھتیجی کی دیکھ بھال کرنے لگیں۔محترمہ فا طمہ جناح بانیء پاکستان قائد اعظم کی وہ عظیم بہن جن کے بارے میں قائدا عظم نے خود فرمایا تھا:”اگر فا طمہ تحریک پاکستان میں میرا ساتھ نہ دیتی تو میں کبھی کامیاب نہ ہوتا”اللہ قوم کے محسن دونوں بہن بھائی پر کروڑں رحمتیں نازل فرمائے آمین۔
مادر ملت کے ارشادات آج بھی عوام کے لیے اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے اجالا ہیں۔ ہم مادر ملت کے افکار کی روشنی میں آج بھی یکجا ہوسکتے ہیں۔ اپنے ذہن و دل شفاف آئینہ بناسکتے ہیںہمارے نوجوانوں کو تحریک پاکستان کا لازمی مطالعہ کرنا چاہیے تا کہ ان تمام مصائب اور قربانیوں کے بارے میں آگہی حاصل ہو سکے جو اس مملکت پاکستان کی خاطر ہمارے بزرگوں نے دی ہیں۔ مادرملت محترمہ فاطمہ جناح سراپا جمہوریت تھیں اور انہوں نے جمہوری اقدار کے فروغ کیلئے بے شمار قربانیاں دیں۔ہمیں ان کے کردار اور افکار سے بہت کچھ سیکھنا چاہئے۔ پاکستان میں اسلامی روایات و اقدار کی مکمل پیروی ہونی چاہئے۔ محترمہ فاطمہ جناح وہ عظیم خاتون تھیں جنہوں نے جمہوری اصولوں کی نہ صرف خود پاسداری کی بلکہ دوسروں کو بھی یہ روش اپنانے کی تلقین کی۔
٭٭٭