... loading ...
حمیداللہ بھٹی
پاکستان کی 76سالہ کامیابیوں اورناکامیوں پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو کامیابیوں کے حوالہ سے صورتحال خاصی مایوس کُن دکھائی دیتی ہے نہ صرف اپنے بڑے بازو سے محروم ہوا بلکہ اب توایسی ہولناک معاشی تباہی کا سامنا ہے جس نے جوہری طاقت ہونے کے باوجود عالمی کردار کمزورکردیاہے۔ بلامبالغہ دوست ممالک اور عالمی مالیاتی اِدارے باربار قرض مانگنے سے نالاں ہیں آئی ایم ایف سے قرض لینے والا دنیا کا چوتھابڑاملک پاکستان ہے اوراب تو قرض کی اقساط اور سود کی ادائیگی کے لیے مزید قرضہ لینامجبوری ہے ۔وطن عزیز کا شماردنیا کے مہنگے ترین ممالک میں ہوتا ہے ستم ظریفی یہ ہے کہ مہنگائی اور قرضوں کابوجھ کم کرنے کے لیے معاشی اصلاحات ناگزیر ہیں مگر ابھی تک صرفِ نظر کیا جارہا ہے حالانکہ رائج پالیسیوں کی بدولت ہی ملک معاشی تباہی کی دلدل میں پھنسا ہے۔ کئی عشروں سے حکومتیں تبدیل ہورہی ہیں لیکن احمقانہ پالیسیوں کا تسلسل نہیں ٹوٹ سکا۔ اب تو دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اللہ کرے کوئی حقیقی محبت کرنے والا اقتدارمیں آئے اور ملک کو معاشی دلدل سے نکالے تاکہ بدترین مہنگائی کم اورملک کو قرضوں کے بوجھ سے نجات ملے۔
ہماراملک اچانک معاشی تباہی کا شکار نہیں ہوا بلکہ طویل عرصہ سے اقتدار میں رہنے کے لیے سیاسی اور غیر سیاسی حکمرانوں کی طرف سے عالمی مالیاتی اِداروں کی ایسی شرائط تسلیم کرنا ہیں جن سے قرض ملنے کا سلسلہ تو جاری رہا لیکن زرعی اور صنعتی پیداوار کا عمل سُست ہوتا گیا ، رہی سہی کسر تعمیراتی شعبے کے بے ہنگم پھیلائو نے پوری کردی جس سے نہ صرف زرعی رقبہ خوفناک حدتک کم ہوابلکہ ملک خوراک میں خود کفالت کی صلاحیت سے بھی محروم ہوگیاہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ قرضوں پر انحصار کی موجودہ پالیسی ملک کے لیے نفع بخش نہیں۔ اگر معاشی طورپرمضبوط ہونا ہے تو تعمیراتی شعبے کوحدودوقیود کا پابند بناکرخوراک میں خود کفالت کی منزل دوبارہ حاصل کرنا ہو گی۔ نیز صنعتی پہیہ بھی رواں کرنا ہو گا۔ بدقسمتی سے آج بھی اِس حوالے سے چشم پوشی برتی جا رہی ہے۔ معاشی بحالی کی بجائے سیاست بچانے اور سیاسی کامیابیاں حاصل کرنے پر توجہ مرکوز ہے۔ آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر کا اسٹینڈ بائی قرضہ ملنے پر حکمران اتحاد پھولے نہیں سما رہالیکن سچ یہ ہے کہ قرض کے عوض پیٹرول اوربجلی کے نرخ بڑھانے سے بہبودِ عامہ کے نہ صرف جاری منصوبے متاثر ہوں گے بلکہ مہنگائی کاایسا نیا طوفان آسکتاہے جس سے سیاسی افراتفری جنم لے سکتی ہے۔ قرضہ ملنے کی خوشی میں شاید حکمرانوں کے ذہن سے یہ بھی محو ہو چکا ہے کہ آئندہ چند برسوں میں پاکستان نے بھاری بھرکم ادائیگیاں کرنی ہیں جس کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ لامحالہ ادائیگیوںکے لیے مزید قرض لینا پڑے گا اور عالمی مالیاتی اِداروں کی عوامی مفاد سے متصادم ایسی شرائط تسلیم کرنا بھی مجبوری ، جو عوام کو ناگواراور ناپسند ہوں اِس میں شائبہ نہیں کہ ڈاکٹر،محبوب الحق اورشوکت عزیز جیسے عالمی مالیاتی اِداروں کے مفادات کے نگہبان حضرات کو وزارتِ خزانہ جیسامنصب سونپ کرہم نے اپنے ہاتھوں ملک کی معاشی طورپر کھوکھلاکیاہے۔ مذکورہ نام نہادمعاشی ماہرین نے پاکستان کی بجائے اپنے سرپرست اِداروں کے مفاد کا تحفظ کرنے کوترجیح دی اب تو اسٹیٹ بینک کو بھی خود مختار کرنے کے ساتھ گورنرکی تعیناتی بھی عالمی مالیاتی اِداروں کی منظور
ی سے مشروط کردی گئی ہے اِس طرح کے فیصلوں سے معاشی بحالی ممکن نہیںجانے اِس حقیقت کی حکمرانوں کو کیوں سمجھ نہیں آرہی؟
آج صورتحال یہ ہے کہ ملک کی صنعتی وزرعی پیداواری صورتحال خراب ہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ وقت ضائع کیے بغیر فوری طورپر ایسی اصلاحات کی جائیں جس سے پیداواری عمل بہتر اور برآمدات میں اضافہ ہوحکمرانوں کے لیے سمجھنے والی بات یہ ہے کہ زرعی وصنعتی پہیہ رواں ہونے سے ہی مہنگائی اور بے روزگاری میں کمی اور سیاسی کامیابیوں کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔پاکستان کے پاس معاشی ماہرین کی کمی نہیں اصل میں مہارت وصلاحیت کی بجائے سیاسی مفاد کو مدِ نظر رکھ کر تعیناتیاں کی جاتی ہیں ایسے ہی غیر زمہ دارانہ طرزِعمل سے معاشی بنیادیں کھوکھلی ہوئیں۔ اسحاق ڈارکی وزیرِ اعظم سے قریبی عزیز داری ہے ممکن ہے وہ خلوصِ نیت سے کام بھی کررہے ہوں مگر یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ حساب کتاب کے ماہرتوہوسکتے ہیں مگرمعاشی بحالی کابوجھ اُٹھانااُن کے بس کی بات نہیں اگر ملک کو مضبوط معاشی بنیادوں پر کھڑا کرنا ہے تو ایسے معاشی ماہرین سے کام لینا ہو گا جنھیں اپنے شعبوں میں مہارت ہونیز مستقل درآمدات پر انحصار کی بجائے بجلی کے نرخ کم اور ایسی ہُنر مند افرادی قوت تیار کرنا ہوگی جو درآمدی اشیا مقامی سطح پرہی کم لاگت میںتیار سکے یہ وقت گزار پالیسی کا نتیجہ ہے کہ چاردفعہ حکومت ملنے کے باوجودن لیگ آج بھی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ عوام نے اگلی دفعہ موقع دیا تو ملک کو معاشی طورپرخودکفیل اورخوشحال بنا دیں گے حالانکہ موجودہ ناقص معاشی پالیسیاں تباہ کُن ثابت ہو چکیں۔ علاوہ ازیں قرض لیکر امورِ مملکت چلانے کی حکمتِ عملی ناقص ہونے میں بھی کوئی شائبہ نہیں رہا۔ اِس لیے اِن میں تبدیلی لائے بغیر خود کفالت اور خوشحالی کی منزل حاصل نہیں ہو سکتی۔ قرضوں سے چھٹکارے اور خود کفالت کی پالیسی سے ہی ملک معاشی طورپر مستحکم ہو سکتا ہے۔
ہندوستان کی خوش قسمتی ہے کہ اُسے من موہن سنگھ جیسا معاشی ماہر ملا جس نے عالمی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری پر راغب کرنے کے ساتھ ایسی پالیسیاں بنائیں جن سے درآمدی بوجھ کم ہوکر خود کفالت کی طرف بڑھنے کا تیزترسفرشروع ہوا ج۔اسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ آج اُس کا آئی ٹی کا بجٹ ہی پاکستان کے کُل بجٹ سے زائدہے حالانکہ بدترین مزہبی ،لسانی اور علاقائی تفریق نیز درجنوں علیحدگی کی تحریکوں کی وجہ سے اکثر پیداواری عمل متاثر رہتاہے پھربھی برآمدات میں اضافہ جبکہ مہنگائی اور بے روزگاری میں کمی ہورہی ہے ضروریات کے مطابق پانی جمع کرنے کے ذخائر بناکر ڈیڑھ ارب کی آبادی کو خوراک مہیاکرنے میں خود کفیل ہے خطے میں امریکی مفاد کا نگہبان ہونے کے باوجودوہ ڈالر کے ساتھ روپے میں بھی تجارت کررہا ہے علاوہ ازیںعالمی پابندیوں کے ایام میں بھی روس سے سستا تیل خرید کر دیگر ممالک کو بیچ کرمنافع کمارہاہے کیاہم ایسانہیں کرسکتے ؟ضرور کر سکتے ہیںحکمران اگر سیاسی و عالمی کی بجائے ملکی مفاد کو ترجیح دیں تو ایسا ممکن ہے اللہ نے ہر نعمت سے نواز رکھا ہے معدنیات کے ذخائرہیں بہترین کھیت ہیں افسوس پانی کے ذخائر کی تعمیر میں بھی سیاسی قیادت نااتفاقی کا شکار ہے نوجوان افرادی قوت الگ ناکارہ بوجھ ہے کیونکہ ہمارا نظام تعلیم آج بھی محض اچھے کلرک پیدا کرنے تک محدود ہے ذہن نشین کرلیں جب تک معاشی اصلاحات کی بجائے قرضوں پر انحصاررہے گاتب تک معاشی طورپر مضبوط ،خوشحال اور ہر میدان میں خودکفیل پاکستان کی منزل حاصل ہونا محال ہے۔
٭٭٭