... loading ...
ریاض احمدچودھری
کچھ عرصہ پہلے اپالو 10اور 11کے ذریعے ناسانے چاند کی جو تصویر لی تھی اس سے صاف طور پر پتہ چلتاہے کہ زمانہ ماضی میں چاند دو حصوں میں تقسیم ہوا تھا۔یہ تصویر ناسا کی سرکاری ویب سائٹ پر موجود ہے اور تاحال تحقیق کامرکز بنی ہوئی ہے۔ناسا ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچی ہے۔ا س تصویر میں راکی بیلٹ کے مقام پر چاند دوحصوں میں تقسیم ہوا نظر آتاہے۔قرآن نے اس شق قمر کو بطور معجزہ ذکر کیا ہے۔ کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عہد میں اس معجزہ کا ظہور ہوا۔ اسی وجہ سے قرآن نے اس کو ماضی کے صیغہ کے ساتھ بیان کیا۔ بعض لوگ اس معجزہ کا انکار کر کے اس ماضی کے صیغہ کو مستقبل کے مضمون میں قرار دیتے ہیں۔ ”انشقاق قمر” کا واقعہ عہد رسالت میں پیش آیا اور بہت سے جلیل القدر صحابہ جیسے عبد اللہ بن مسعود، جبیر بن مطعم، عبد اللہ بن عباس، انس بن مالک اور حذیفہ بن الیمان وغیرہم نے اس روایت کو بیان کیا ہے۔ موجودہ زمانے کے ماہرین فلکیات اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ تمام اجرام فلکیہ کثیف ہیں اور ان میں خرق والتیام ممکن ہے۔ تمام شہاب ثاقب انہی اجرام علومیہ میں سے ہیں جن کا شکستہ ہونا اور پھر جڑ جانا ہر روز ان ماہرین کے مشاہدہ میں آتا ہے۔
قلم کاروان کی مطالعاتی نشست میں واقعات سیرة النبیۖ ماہ ذوالحجہ کے حوالے سے”معجزہ شق قمر”کے عنوان پر محمدعبدالرزاق نے سورہ قمرکی ابتدائی آیات میں موجودضروری اصطلاحات کی لفظی و معنوی تشریح کی اور قرآن مجیدسے ہی ان کی امثال بھی پیش کیں۔انہوں نے واقعہ کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ حبیب یمنی نامی ایک دانشور،شاعراورحکیم نے اہل مکہ سے کہاکہ اپنے صاحب ۖسے کہوکہ چاندکودوٹکڑے کرکے دکھائے۔اس کی وجہ بھی اس نے یوں بیان کی کہ جادوگروں کافن زمین میں توکارگرہوتاہے لیکن فضااورخلامیں ان کا زورنہیں چل سکتا۔آپ ۖنے اپنی انگشت مبارک کااشارہ کیاتو بحکم ربی چاندکے دوٹکڑے ہوئے۔ ایک پہاڑی کے اس طرف اوردوسرادوسری طرف گرتانظرآیااورپھردونوں آسمان پرجاکرجڑگئے۔فاضل مقررنے اس عمل کو دومعجزوں سے تعبیرکیاایک ٹوٹنااوردوسراجڑنا۔حبیب یمنی مسلمان ہوگیااوراہل ایمان کایقین پختہ ترہوگیاجب کہ کفارمکہ اپنے کفرپراڑے رہے اوراپنے شکوک دورکرنے کے لیے جوارمکہ کے باسیوں اورمسافروں سے اس معجزے کی بابت دریافت کرتے رہے اورسب نے اس کی تصدیق کی،فاضل مقررنے بتایاکہ اس معجزے کوجزیرة العرب،ایران، عراق،یمن،سری لنکااوراورہندوستان تک کے لوگوں نے مشاہدہ کیااوریہ رات ایک تاریخی حوالہ بن گئی۔ اب توعصری سانئس نے بھی اس کامشاہدہ کرلیا ہے۔
جنوبی ہندوستان کی ریاست”کیرالہ”کے راجہ نے شق قمرکامشاہدہ کیا۔ہندوپنڈتوں اورجوتشیوں نے اسے بتایاکہ ہندؤں کی مقدس کتب کے مطابق سرزمین عرب پرآخری نبیۖکے ہاتھوں یہ معجزہ رونماہوناتھا۔راجہ نے ایک وفد مکہ مکرمہ بھیجااور آخری نبی ۖکی تصدیق کے بعدکیرالہ میں ایک مسجدتعمیرکی جو تاریخ اسلام کی سب سے پہلی مسجدہے کیونکہ مسجدقبااس کے بعدتعمیرہوئی تھی۔ہندوستان سے جووفدمکہ گیاتھااس کاایک فرد یمن میں اللہ کوپیاراہوگیا اوراب اس کی قبرپر مزاربناہے جو “ہندوستانی صحابی”کے نام سے موسوم ہے اورلوگ وہاں زیارت کے لیے جاتے ہیں۔آپۖکاسب سے بڑامعجزہ قرآن مجیدہے۔ اندرکی طلب اور توفیق الہی ہی ہدایت کاسبب بن سکتی ہیں لیکن کفارمکہ کے اندرچونکہ طلب ہدایت ہی مفقود تھی اس لیے ان پر ہدایت کے دروازے نہ کھل سکے اوراپنی جیتی جاگتی آنکھوں سے مشاہدہ کے باوجودان کے قلوب کفروشرک پر ہی اڑے رہے۔ حضرت ابوبکر جیسے صاحب ایمان کہیں اورسے سن کر اور بن دیکھے معراج پرایمان لے آئے لیکن کفارمکہ پھربھی مخالفت پر کمربستہ رہے۔
تیسری صدی ہجری کی ابتداء میں کچھ عرب مسلمان کشتی پر سوار جزائر سری لنکا کی طرف جا رہے تھے کہ طوفانوں کی وجہ سے جزائر مالابار کی طرف جا نکلے اور وہاں گدنکلور نامی شہر میں کشتی سے اترے۔ شہر کے حاکم کا نام ”سامری” تھا۔ اس نے مسلمانوں کے بارے میں یہودی اور عیسائی سیاحوں سے کچھ سن رکھا تھا۔ عرب مسلمانوں سے کہنے لگا کہ پیغمبر اسلامۖ کے حالات اور ان کی کچھ علامات بیان کریں۔ ان مسلمانوں نے اسے آنحضرت ۖکے حالات زندگی، اسلام کے اصول و مسائل اور نبی اکرمۖ کے معجزات کے بارے میں بہت سی باتیں بتائیں۔ اسی دوران شق القمر کے تاریخی معجزہ کا ذکر بھی کیا۔ اس پر وہ کہنے لگا کہ ذرا ٹھہرو ہم اسی بات پر تمہاری صداقت کا امتحان لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں دستور ہے کہ جو بھی اہم واقعہ رونما ہو اسے قلمبند کر کے شاہی خزانہ میں تحریر کو محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ اگر تمہارے کہنے کے مطابق محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صداقت کے اظہار کے لیے چاند دو ٹکڑے ہوا تھا تو اسے یہاں کے لوگوں نے بھی دیکھا ہوگا اور اتنا محیر العقول واقعہ ضرور قلمبند کر کے شاہی خزانے میں محفوظ کر لیا ہوگا۔ یہ کہہ کر اس نے پرانے کاغذات طلب کیے، جب اس سال کا رجسٹر کھولا گیا تو اس میں یہ درج تھا کہ آج رات چاند دو ٹکڑے ہو کر پھر جڑ گیا۔ اس پر وہ بادشاہ مسلمان ہوگیا اور بعد میں تخت و تاج چھوڑ کر مسلمانوں کے ساتھ ہی عرب چلا گیا۔
٭٭٭