... loading ...
روہیل اکبر
آج کل کراچی میں گورنر سندھ کامران ٹیسوری بہت زیادہ متحرک دکھائی دیتے ہیں اور ساتھ میںوہ حکومت کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے وہ گورنر ہائوس میں غریب لوگوں کو راشن بھی تقسیم کروا رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ملک کے باقی صوبوں کے گورنرزکو بھی اسی طرح کام کرنا چاہیے۔ خاص کر پنجاب کے گورنر جو خود ایک سیاسی ورکر اور سوشل آدمی ہیں۔ بلیغ الرحمن جب یہ 8کلب میں بیٹھا کرتے تھے تو ان کے با لکل ساتھ والا کمرہ ہمارے دوست خالد بٹ صاحب(اللہ تعالی جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔آمین) کا ہوا کرتا تھا جہاں ہم سارا سارا دن گپیں لگاتے اور بلیغ الرحمن صاحب سے بھی ملاقات رہتی جو ملنسار ہونے کے ساتھ ساتھ عوامی بھی تھے لیکن جب سے گورنر بنے ہیں تب سے انکا عام لوگوں کے ساتھ ملنا جلنا کم ہو چکا ہے اور دوسری طرف کامران ٹیسوری گورنر بن کر پہلے سے زیادہ متحرک اور عوامی ہو چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں جب کامران ٹیسوری اور خالد مقبول کی ملاقات ہوئی توانکا کہنا تھا کہ گزشتہ پندرہ سال سے کراچی میں صرف کرائم کا راج ہے۔ کراچی کا نوجوان کبھی پولیس تو کبھی ڈاکوؤں کے ہاتھوں بار بار لٹتا ہے جبکہ وفاق سے ہمارے سارے مطالبات ذاتی یا جماعتی نہیں بلکہ سندھ کے شہریوں کیلئے ہیں کیونکہ حکمران تو پچھتر سالوں سے سندھ کے تیسرے بڑے شہر حیدرآباد کو ایک یونیورسٹی تک نہیں دے سکے، ایم کیوایم کے مطالبہ پر حیدرآباد میں یونیورسٹی کی تعمیر شروع ہوئی مگر رفتار انتہائی سست ہے۔ رہی بات گورنر ہائوس کی وہاں بلا تفریق رنگ و نسل راشن تقسیم ہو رہا ہے۔ گورنر ہائوس میں کراچی کے نوجوانوں کیلئے بڑے پیمانے پر تقریبا پانچ لاکھ نوجوانوں کو آئی ٹی کی اعلی تعلیم شروع ہونے جارہی ہے۔ حکمرانوں کی پالیسیوں سے لگتا ہے کہ اس شہر کا دوست کوئی نہیں کیونکہ جس طرح کراچی کے سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ اسی طرح کراچی کے باسیوں کے دل بھی ٹوٹے ہوئے ہیں۔ کراچی میں پینے کا پانی،بجلی گیس اور روزگار تک دستیاب نہیں۔ گورنر سندھ اور خالد مقبول صدیقی کے عوام دوست اقدامات سے یقینا غریب لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب تو نہیں لیکن چند خوشیاں ضرور آئیں گی۔ رہی بات کراچی کی اسکے مسائل کا ذکر ہو چکا ۔
اگر ہم سندھ کی بات کریں تو بھٹو کے نام پر بننے والی کالونیاں جنہیں بھٹو نگر کہا جاتا ہے وہاں بھی کوئی زندگی کی سہولت نہیں۔ پچھلے دنوں سابق صدر آصف علی زرداری لاڑکانہ گئے تو وہاں کا بھٹو نگر چار دن سے بجلی سے محروم تھا ۔یہی صورتحال ملک کے دوسرے بھٹو نگرز کا ہے ۔ بات ہو رہی تھی کراچی کی جو روشنیوں کا شہر تھا جسے اندھیروں میں تبدیل کردیا گیا۔ لوگ غربت ،مہنگائی اور بے روزگاری سے تو تنگ تھے ہی اب چوری ،ڈکیتی اور قتل کی وارداتوں سے بھی گھبرا چکے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ڈکیتی کے دوران کہیں قتل نہ ہوتا ہو، اس حوالے سے پنجاب میں فی الحال بہت سکون ہے۔ اگر سندھ حکومت چاہے تو آئی جی پنجاب کو چند ہفتوں کے لیے سندھ میں تعینات کرکے دیکھ لیں شاید کچھ بہتری آجائے۔ لیکن ان کے ساتھ نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کو بھی جانا پڑے گا۔ کیونکہ انہی کی کاوشوں سے پنجاب میں امن اور سکون ہے ۔جبکہ سندھ میں ڈاکو راج چل رہا ہے۔ کراچی میں بڑھتی ہوئی وارداتوں پر جہاں عام شہری پریشان اور دکھی ہیں، وہیں پر شاکر عمر گجرجو ڈیری اینڈ کیٹل فارمز ایسوسی ایشن پاکستان کے مرکزی صدر ہیں،وہ بھی پریشان ہیں ۔خاص کر مویشی کالونی میں چوری ،ڈکیتی اور راہزنی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے ساتھ اب قتل و غارت بھی شروع ہو چکی ہے اس حوالہ سے انہوں نے ایک خط بھی لکھا ہے جسے متعلقہ حکام تک پہنچانے کے لیے میں اپنے کالم کا حصہ بنا رہا ہوں۔
محترم حسن سردار نیازی
سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس ملیر
موضوع۔ قوانین کو نافذ کرکے امن و امان کو برقرار رکھیں اور یہ کاروباری برادری کے تحفظ کو یقینی بنائیں
پیارے سر
میں آپ کی توجہ چند روز قبل ہونے والی ڈکیتی کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں جس میں مویشی کالونی کے معروف کاروباری شخصیت زاہد قریشی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا اور ان کے رشتہ دار حاجی محمد یوسف برطانوی شہری کو بھی سب مشین گن (SMG) نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ مویشی کالونی میں گزشتہ چند ماہ سے ڈکیتی، چوری اور چھیننے کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے جس میں ہم نے چند کسانوں کی جانیں گنوائی ہیں چونکہ یہ تاجروں کے تحفظ کا معاملہ ہے اس لیے میری آپ سے گزارش ہے کہ اس معاملے کو دیکھیں اور جلد از جلد ضروری کارروائی کریں اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ یہ علاقہ تازہ دودھ اور جانوروں کے گوشت کے کاروبار سے منسلک ہے جو پورے کراچی شہر کو خدمات اور مصنوعات فراہم کرنے کے لیے 24 گھنٹے کام کرتا ہے جس کے لیے پورے دن میں بے شمار نقد لین دین ہوتا ہے ہم متعلقہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ بھینس کالونی اور اس کے مضافات کے لیے سرچ آپریشن کا بندوبست کریں کیونکہ وہاں کئی مشکوک سرگرمیاں دیکھی گئی ہیں ہم آپ سے یہ بھی درخواست کرتے ہیں کہ فارموں کے موجودہ ورکرز کے لیے چیکنگ کا کوئی طریقہ کار متعارف کرایا جائے جیسا کہ انہیں کارڈ جاری کرنا ہے کیونکہ کچھ جرائم پیشہ عناصر باڑوں کے گوالوں کی شناخت میں اپنے آپ کو چھپا رہے ہیں واضح رہے کہ جرائم رپورٹ ہی نہیں ہوتے اور جب بھی کوئی شکایت کنندہ تھانے میں رپورٹ کرتا ہے تو اکثر اوقات ایف آئی آر نہیں ملتی جس سے تاجر پولیس پر سے اعتماد کھو رہے ہیں لہٰذا ان برے واقعات پر قابو پانے کا وقت آگیا ہے کہ ضروری کارروائی کی جائے اور اپنی اور اپنی ٹیم کی گشت کو فعال کریں اس سلسلے میں اگر آپ کے پاس کوئی سوال ہے تو براہ کرم ہم سے بلا جھجھک رابطہ کریں آپ کے ابتدائی جواب کا انتظار رہے گا۔
آپ کا مخلص
محمد شاکر عمر گجر