... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
وزیر اعظم امریکہ میں بہت بولے اور واپس آنے کے بعد بھی بے تکان بول رہے ہیں۔ وہ ہر موضوع پر اظہار خیال فرماتے ہیں لیکن اگر نہیں بولتے تو منی پور پر جہاں تشددتقریباً دو ماہ پرانا ہونے والا ہے ۔ اس بیچ راہل گاندھی منی پور کے دورے پر پہنچ گئے تو بھارتیہ جنتا پارٹی کو مرچی لگ گئی ۔ بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا نے راہل گاندھی کے مذکورہ دورے کو غیر ذمہ دارانہ قرار دے دیا اورالزام لگایا کہ کانگریس لیڈر کی ضد کے سبب تشدد سے متاثرہ ریاست میں مبینہ طور پر ایک شخص کی جان چلی گئی۔یہ سراسر جھوٹ ہے کیونکہ جو ہلاکت ہوئی اس کا راہل کے دورے سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ۔ راہل اگر نہیں بھی جاتے تب بھی وہ سانحہ ہوجاتا کیونکہ بی جے پی کی ڈبل انجن سرکار پوری طرح ناکام ہوچکی ہے ۔ منی پور کا نگراں بی جے پی نے سمبت پاترا جیسے جھوٹے کو بنا رکھا ہے تو بھلا وہاں امن کیسے قائم ہوگا۔ وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ کے ساتھ پاترا کی بھی پہلی فرصت میں چھٹی کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ریاست میں امن و امان بحال ہوسکے ۔
سمبت پترا نے اپنی کذب گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پریس کانفرنس میں ببانگ دہل کہا کہ مقامی انتظامیہ نے ریاست میں موجودہ کشیدگی کے پیش نظر راہل گاندھی کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے چوراچند پور جانے کو کہا تھا، لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور سڑک کے راستے دورہ کرنے چلے گئے ۔ یہ سفید جھوٹ ہے ۔ انتظامیہ نے پہلے راہل گاندھی کو روکا انہوں نے جانے پر اصرار کیا تو ان کی خاطر ہیلی کاپٹر کا بندوبست کیا گیا اور وہ اس کے ذریعہ چورا چند پور پہنچایا۔ پاترا کا دوسرا جھوٹ یہ ہے کہ کانگریس لیڈر کے دورہ کی خبر کے بعد منی پور اسٹوڈنٹس یونین سمیت کئی سول سوسائٹی تنظیمیں گزشتہ دو تین دنوں سے احتجاج کر نے لگیں حالانکہ وہ مظاہرہ تو امن کی بحالی میں ناکامی کے خلاف ہے ۔ سرکار اگر تشدد ختم کرنے میں کامیاب ہوجاتی تو احتجاج کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔پاترا نے راہل گاندھی پر تنقید کرتے ہوئے کہا، راہل کو ہیلی کاپٹر کے راستے سے جانے کے لیے کہا گیا کیونکہ لوگ سڑک کے کنارے مظاہرہ کر رہے تھے ، راہل مانتے نہیں ہیں’’۔ سوال یہ ہے کہ وہ ایسی نااہل سرکار کی بات کیوں مانیں جو نہ تولوگوں کی سنتی ہے اور ان کے مسائل حل کرتی ہے ۔ پاترا کے مطابق راہل گاندھی کو‘‘ محبت کی دکان کھولنے کی جلدی ہے ’’۔ وزیر اعظم منی پور جانے کے بجائے اگر مدھیہ پردیش میں جاکر نفرت کا کارخانہ کھول دیں تو ایسے میں تشدد زدہ علاقہ میں جاکر ‘‘محبت کی دوکان کھولنے میں کیا غلط ہے ؟ سمبت پاترانے راہل گاندھی کے رویہ کو انتہائی غیر ذمہ دارانہ قرار دیا لیکن انہیں بتانا چاہیے کہ منی پور کے نگراں کی حیثیت سے انہوں اپنی ذمہ داری کس حد تک ادا کی۔ جب صوبے کا وزیر اعلیٰ اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتا اور اس کے خلاف بی جے پی کے آٹھ ارکان دہلی جاکر شکایت کرتے ہیں مگر وزیر اعظم اس پر کان نہیں دھرتے تو حزب اختلاف کیا کرے ؟ کیا وہ بھی منہ میں دہی جماکر بیٹھ جائے ۔پاترا کے مطابق ‘‘ راہل اور ذمہ داری کبھی ساتھ ساتھ نہیں چلتے ’’مگر بی جے پی کا انجن تو سرے چلتا ہی نہیں۔ سمبت پاترا کے مطابق کشیدہ حالات میں اگر تشدد زدہ علاقہ کا دورہ کرناغلط ہے تو وہ بتائیں کہ ٹھیک ایک ماہ قبل امورِ داخلہ اور امدادِ باہمی کے مرکزی وزیر امیت شاہ نے منی پور کا سہ روزہ دورہ کیوں کیا تھا ۔وہ موریھ اور کانگ پوکپی کے کیمپوں میں کیوں گئے تھے ؟ وہاں کی سیول سوسائٹی تنظیموں کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ وزیر داخلہ نے بڑے طمطراق سے ایک ماہ قبل جلداز جلد امن بحال کرنے اور کیمپوں میں موجود لوگوں کی ان کے گھروں میں واپسی کو یقینی بنانے کا عہد تو کیا مگر اس کو نبھانے میں پوری طرح ناکام ہوگئے ۔ کشمیر میں امن قائم کرنے کا دعویٰ کرنے والے شاہ جی اگر اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے تو راہل گاندھی کو دورہ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی؟
مرکزی وزیر داخلہ نے امپھال میں سرکردہ افسران کے ساتھ سلامتی جائزہ میٹنگ میں فوری طور پر حالات کو معمول پر لانے اورتشدد روکنے کے لیے ، مسلح غیر سماجی عناصر کے خلاف جلد از جلد سخت کاروائی کرنے ، اور لوٹے گئے ہتھیار برآمد کرنے کی ہدایت جاری کی تھی لیکن ایک ماہ بعد بھی صرف ایک چوتھائی اسلحہ واپس لایاجاسکا۔حکومت کی اس ناکامی کے سبب تشدد رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔ اس ناکامی کا اعتراف کرنے کے بجائے سمبت پاترا تشدد کی ذمہ داری راہل کے سر منڈھنے میں مصروف ہیں۔ راہل گاندھی کے قافلے کو بشنو پور میں روکا گیا ۔ اس کے بعد انہیں ہیلی کاپٹر سے چورچنداپور کے راحتی کیمپ میں لے جایا گیاجبکہ تشدد کی واردات کانگ پوکپی ضلع کے ہیروتھل گاؤں میں ہوئی۔ وہاں پرنامعلوم فسادیوں نے بلااشتعال گولی چلا دی اور تین لوگ ہلاک ہوگئے ۔ اس کا بھلا راہل کے دورے سے کیا تعلق؟ لیکن سمبت پاترا جیسے لوگوں کے اس سے کیا غرض؟
بی جے پی کے اندر ہمت نہیں ہے کہ راہل گاندھی کو روکے ۔ ان کی جگہ کوئی للو پنجو ہوتا تو اسے دہلی میں روک دیا جاتا ۔ امپھال ہوائی اڈے سے باہر نکلنے نہیں دیا جاتا لیکن راہل کا قافلہ بشنو پور تک پہنچ گیا۔ وہاں پر پولیس تشدد کے اندیشے کی وجہ سے روک کر سمجھایا بجھایا اور ہوائی اڈے پر لے آئی پھر ہیلی کاپٹر کے ذریعہ ضلع چوراچند پور پہنچایا گیا۔ راہل گاندھی اب رکن پارلیمان نہیں ہیں لیکن یہ ہے دبدبہ جس کے آگے مغرور بی جے پی کو جھکنا پڑا ۔ راہل گاندھی جب مصیبت زدگان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے ریلیف کیمپوں میں پہنچے تو تشدد سے بے خانماں لوگ ان سے لپٹ کر رونے لگے ۔ اس سے قبل امیت شاہ کے دورے کی بے شمار تصاویر انٹر نیٹ پر موجود ہیں لیکن کوئی ایک بھی ایسی تصویر نہیں ہے ۔ ایک تصویر میں امیت شاہ بچے کے سر پر ہاتھ رکھے کھڑے تو ہیں لیکن نہ ان کی آنکھوں میں ہمدردی ہے اورنہ متاثرین کے چہرے پر امید کی کوئی کرن دکھائی دیتی ہے ۔ محبت اور نفرت کے سوداگر کا فرق راہل اور امیت شاہ کے دورے کی تصاویر میں صاف نظر آتا ہے ۔
3؍مئی کے بعد سے منی پور میں جاری تشدد ابھی تک 131 لوگوں کو لقمۂ اجل بنا چکا ہے ۔اس کے علاوہ 419 لوگوں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے ۔ اس تشدد نے 65,000 سے زیادہ لوگوں کو بے گھر کردیا۔ ابھی تک 5 ہزار سے زیادہ آگزنی کے واردات ہوئے ۔ چورا چند پور کے سرحدی علاقہ میں واقع ایک مشنری اسکول کو اس کے احسان فراموش میتئی طلباء نے پھونک ڈالا اور انتظامیہ دیکھتا رہ گیا ۔ سیکڑوں گرجاگھروں کو نذرِ آتش کیا جاچکا ہے تشدد کے ان ۶؍ہزار سے زیادہ واقعات میں صرف 144 لوگوں کی گرفتاری عمل میں آئی ۔ مہینے کے آخر تک انٹر نیٹ پر پابندی ہے اور وہ بھی اٹھے گی یا نہیں یہ کوئی نہیں جانتا۔ر اہل گاندھی مصیبت زدگان سمیت سول سوسائٹی کی تنظیموں، دانشوروں اور دیگر کے نمائندوں سے بھی بات چیت کرنے پہنچے تو آسام کے منہ زور وزیر اعلیٰ ہیمنا بسوا سرما نے کہا کہ اگر ان کے پاس مسئلہ کا حل نہیں ہے تو وہ اس سے دور رہیں۔ مرکزی اور ریاستی حکومت حالات پر قابو پانے کی کوشش کررہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ایک ہمسایہ صوبے کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے وہ خود کیا کررہے ہیں ؟انتخابی مہم میں بکواس کرنے کے لیے تو بنگلورو تک پہنچ جاتے ہیں مگر مصیبت کے وقت پڑوس میں نہیں جاتے ۔ کیا یہ بزدلی اور بے حسی نہیں ہے ؟
راہل گاندھی کا دورہ ابھی جاری تھا کہ وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ نے ایک نیا ڈرامہ کردیا۔ پہلے تو یہ خبر آئی کہ وہ استعفیٰ دینے کے لیے گورنر سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ یہ کانگریس کا پرانا مطالبہ ہے ۔ اس کے بعد ہزاروں مردو خواتین ان کے گھر پر جمع ہوگئے اور ان سے استعفیٰ نہیں دینے کی گہار لگانے لگے ۔ منی پور میں فی الحال انٹر نیٹ بند ہے دفع 144لگی ہوئی ہے ۔ ایسے میں ان ہزاروں لوگوں کو اطلاع کا ملنا اور ان کا جمع ہوجانا بتاتا ہے کہ یہ نوٹنکی تھی۔ اب وہ کہہ رہے کہ عوام کے اصرار پر استعفیٰ نہیں دیں گے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ یہ سب پہلے سے طے تھا میڈیا میں بیرین سنگھ کا پھٹا ہوا استعفیٰ بھی گردش کررہا ہے ؟ سوال یہ ہے کہ وہ کس نے پہنچایا؟ ایک زمانے میں مودی جی کا نعرہ تھا ‘‘نہ کھاوں گا اور نہ کھانے دوں گا’’ لیکن ان نو سالوں میں اتنا کھایا کہ بی جے پی دنیا کی سب سے دولت مند پارٹی بن گئی اور اتنا کھلایا کہ گوتم اڈانی کو عالمی سطح پر دوسرا امیر ترین سرمایہ دار بنا دیا ۔ اس لیے اب نئے نعرے کی ضرورت پیش آگئی کیونکہ ہنڈن برگ نے اڈانی کی ہوا نکال دی اور باہر کا راستہ دکھا دیا۔ مودی جی اس کو بچانے لگے تو عوام نے انہیں اقتدار سے ہٹا کر گھر بھیجنے کا ارادہ کیا اس لیے اب نیا نعرہ ہے ‘‘ نہ جاوں گا نہ جانے دوں گا’’ اس پر لوگ سوال کرتے ہیں یا صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں تو وزیر اعظم کہتے ہیں ‘‘ نہ بولوں گا نہ بولنے دوں گا’’۔ منی پور میں وزیراعظم کی پراسرار خاموشی اسی نعرے کی مصداق ہے ۔
٭٭٭