وجود

... loading ...

وجود

الیکشن کی آمد، انتخابی نشانات کس طرح انتخابی مہم پر اثرانداز ہوتے ہیں؟

پیر 03 جولائی 2023 الیکشن کی آمد، انتخابی نشانات کس طرح انتخابی مہم پر اثرانداز ہوتے ہیں؟

٭الیکشن کمیشن نے پارٹی نشانات کے لیے درخواستیں طلب کرلیں، انتخابی تاریخ میں انتخابی نشانات کے حصول کی کوششیں سیاسی جماعتوں کے درمیان کشیدگی کا باعث بھی بنی رہیں
٭بلے سے پٹائی، تیروں کی بوچھاڑ اور شیروں کی چیر پھاڑ جیسے جملوں سمیت یہ انتخابی نشان دوسروں پر تنقید اور مخالفین کی کردار کشی کے لیے بھی پاکستان میں استعمال کیے جاتے ہیں
٭مسلم لیگ نون کے امیدوار شیر کے انتخابی نشان کو بہادری، دلیری اور جوانمردی کے جذبات کا استعارہ بنا کر پنجاب کے طاقت پسند عوام کا دل جیتنے کی کوشش کرتے ہیں
٭انتخابی نشانات مذہبی جذبات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا ذریعہ بھی رہے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے نام (ذوالفقار) کی مناسبت سے انتخابی نشان تلوار کا انتخاب کیا
٭برا انتخابی نشان امیدواروں کی مشکلات میں اضافے کا باعث بھی بنتا ہے،سائیکل کے نشان پر 2008 اور 2013 کے انتخابات میں شکست کھانے والی ق لیگ کو پنکچر کے طعنے ملے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک دفعہ پھر الیکشن کی آمد آمد ہے اور اس کے ساتھ انتخابی نشانات کے لئے بھی ابھی سے بھاگ دوڑ شروع ہوگئی ہے۔الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کیلئے پارٹی نشان کی درخواستیں انیس جولائی تک طلب کرلی ہیں۔پاکستان کی انتخابی تاریخ میں انتخابی نشانات کے حصول کی کوششیں مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان کشیدگی کا باعث بھی بنی رہی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف دنیا میں انصاف کی علامت ترازو کو جماعت اسلامی سے ہتھیانے کی کوششیں کرتی رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق رہنما ناہید خان کی قیادت میں الگ ہونے والا پارٹی کا ایک حصہ تلوار اور پی ٹی آئی کی الگ ہو جانے والی رہنما عائشہ گلا لئی بلے کا نشان حاصل کرنے کے لیے ابھی تک کوشیں کر رہی ہیں۔بلے سے پٹائی، تیروں کی بوچھاڑ اور شیروں کی چیر پھاڑ جیسے جملوں سمیت یہ انتخابی نشان دوسروں پر تنقید اور مخالفین کی کردار کشی کے لیے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔اسی طرح مسلم لیگ نون کے امیدوار شیر کے انتخابی نشان کو بہادری، دلیری اور جوانمردی کے جذبات کا استعارہ بنا کر پنجاب کے طاقت پسند عوام کا دل جیتنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان کی نوجوان نسل میں موجود کرکٹ کے جنون سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے اور بطور کرکٹر عمران خان کی عظیم کارکردگی کو ان کے سیاسی کیریئر سے جوڑنے کے لیے تحریک انصاف بلے کے انتخابی نشان کو اہمیت دیتی ہے۔انتخابی نشانات مذہبی جذبات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا ذریعہ بھی رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے نام (ذوالفقار) کی مناسبت سے انتخابی نشان تلوار کا انتخاب کیا۔ ان کے جلسوں میں مقررین اس تلوار کا تعلق اسلامی تاریخ سے جوڑتے رہے۔ اسی طرح متحدہ مجلس عمل کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے انتخابی نشان کتاب کو کتاب مقدس سے جوڑ کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس طرح اچھا انتخابی نشان کامیابی کے امکانات کو بڑھا دیتا ہے اسی طرح ایک برا انتخابی نشان امیدواروں کی مشکلات میں اضافے کا باعث بھی بنتا ہے۔ سائیکل کے نشان پر 2008 اور 2013 کے انتخابات میں شکست کھانے والی مسلم لیگ قاف نے سائیکل کے پنکچر ہونے کے طعنوں سے تنگ آ کراگلی مرتبہ ٹریکٹر کا انتخابی نشان حاصل کیا۔ اسی طرح بلدیاتی انتخابات میں سوات میں مرغی کے انتخابی نشان کے ساتھ الیکشن لڑنے والے ایک امیدوار کو اس وقت بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑا جب انتخابی مہم کے دوران ووٹروں سے ووٹ مانگتے تو انہیں ووٹرز کی طرف سے یہی جواب ملتا ”لالہ مرغی کھلاؤ گے تو مرغی پر مہر لگائیں گے“
فرض کیجیے آپ پاکستان میں کسی ایسی سیاسی جماعت کی طرف سے انتخاب لڑ رہے ہوں، جس کا انتخابی نشان چمچہ ہو تو شاید آپ اس بات کا اندازہ ہی نہیں کر سکتے کہ آپ کی انتخابی مہم لوگوں کو تفریح کا کیسا کیسا سامان مہیا کرے گی۔اگر آپ کا نام خالد ہے اور ایک آزاد امیدوار کے طور پر آپ کو پلگ کا نشان الاٹ ہوا ہے تو اس بات کے امکانات کافی زیادہ ہیں کہ آپ کو اس الیکشن کے بعد خالد پلگ کے نام سے ہی لکھا اور پکارا جائے۔ اسی طرح اگر کسی امیدوار کو الیکشن کمیشن کی طرف سے ڈرل مشین، نیل کٹر، گدھا گاڑی یا جوتے کا انتخابی نشان مل جائے تو اس امیدوار کے ساتھ پاکستان کا جگت پسند معاشرہ اور سوشل میڈیا کیا سلوک کرے گا، اس کا اندازہ لگانے کے لیے آدمی کا بقراط ہونا ضروری نہیں۔آپ کے لیے یہ بات شاید حیرت کا باعث ہو کہ امن کے بیانیے کو فروغ دینے والے پاکستان کے انتخابی نشانات میں بندوق اور ہتھوڑا بھی شامل ہے۔ انتخابی نشانات کی فہرست میں لیپ ٹاپ، موبائل فون اور موبائل چارجر جیسی جدید اشیاء بھی شامل کی گئی ہیں لیکن آڈیو کیسٹ اب بھی انتخابی نشانات کی فہرست میں موجود ہے حالانکہ پاکستان میں آڈیو ٹیپ کو متروک ہوئے مدتیں گزر چکی ہیں۔شہری آبادیوں کے بہت سارے نوجوان ووٹروں نے ممکن ہے کہ کنواں کبھی دیکھا بھی نہ ہو لیکن یہ بھی انتخابی نشانات کی فہرست میں شامل ہے۔ لوڈ شیڈنگ کے شکار اس ملک میں انتخابی نشانات کی فہرست میں جنریٹر، ایمرجینسی لائٹ، لالٹین، سورج اور گیس سیلنڈر بھی شامل ہیں۔
ماہرین کے مطابق ماضی میں سیاسی جماعت کی رجسٹریشن کا عمل بہت آسان تھا اور اس لیے بہت سے غیر سنجیدہ افراد نے اپنی نام نہاد سیاسی جماعتوں کو رجسٹرڈ کروا لیا،اس لیے الیکشن کمیشن کو ادھر ادھر سے انتخابی نشانات پورے کرنا پڑے انتخابی نشانات کی افادیت یہ بھی ہے کہ دیہی علاقوں میں بسنے والے بہت سے ناخواندہ ووٹرز بھی ان نشانات کی مدد سے اپنی پسندیدہ جماعت کے حق میں اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکتے ہیں۔سماجی حلقوں کا موقف یہ ہے کہ اصل بات یہ نہیں کہ ووٹر اپنے امیدوار کو پہچان سکے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ووٹرکو شعور اور تعلیم دی جائے تاکہ وہ سوچ سمجھ کر ملکی بہتری کے لیے اپنے ووٹ کا بہترین استعمال کر سکے۔ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ انتخابی نشانات کو مزید بہتر اور موثر بنانے اور انہیں پاکستان کے زمینی حقائق سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کام کرے اور اس ضمن میں اگر ضرورت ہو تو ماہرین کی خدمات حاصل کرے۔سیاسی تجزیہ نگار یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ کہنا تو درست نہیں ہے کہ انتخابی نشانات کی معنویت کی کوئی اہمیت نہیں ہے
لیکن بعض اوقات مقبول قیادت اور مقبول پارٹی کے سامنے انتخابی نشانات کی اہمیت زیادہ نہیں رہتی۔اپنے مخالف امیدوار کے ووٹ کم کرنے کا ایک حربہ یہ بھی رہا ہے کہ اس کے خلاف ایک گمنام امیدوار اس کے انتخابی نشان سے ملتے جلتے انتخابی نشان کے ساتھ کھڑا کر دیا جاتا رہا ہے، جیسے بے نظیر دور میں کئی امیدواروں کو پینسل کا انتخابی نشان دیا گیا جو کہ تیر سے ملتا جلتا تھا، اسی طرح مسلم لیگ نون کے بعض سادہ لوح ووٹرز بھی بلی اور گائے کو شیر سمجھ کر اس پر ٹھپے لگاتے رہے۔ بعدازاں مماثلت رکھنے والے ایسے کئی نشانات کو ختم کر دیا گیا۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر