... loading ...
حمیداللہ بھٹی
24جون کو لائن آف کنٹرول کے ستوال سیکٹرمیں بھارتی فوج نے بلا اشتعال اندھادھند فائرنگ کرتے ہوئے دوکشمیریوں کو شہید اور ایک کو زخمی کر دیا ۔ اِس افسوسناک واقعہ کے حوالے سے پاک فوج کے ترجمان کاکہنا ہے کہ نہتے اور معصوم کشمیریوں کی جانیں لیکر دراصل بھارت اپنے جھوٹے بیانیے اور من گھڑت الزامات کو سچ ثابت کرنا اور خطے پر اجارہ داری قائم کرناچاہتا ہے۔ دشمن سپاہ کی بزدلانہ کارروائی کاموثر جواب دینے کے حق کی بات کرتے ہوئے بھارت سے بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ پاکستان نے واقعہ پر بھارتی ناظم الامور کو دفترِخارجہ طلب کرکے ا حتجاجی مراسلہ تھماتے ہوئے واقعہ کی وضاحت طلب کی ہے ۔بھارت کے امن دشمن حالیہ اقدامات اور جارحانہ رویہ اِس جانب اشارہ کرتاہے کہ وہ ہماری امن کی خواہش کوکمزوری سمجھ کر خطے پر تسلط جمانے کے احمقانہ خواب دیکھنے لگا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ وقت ضائع کیے بغیر نہ صرف سفارتی ذرائع سے بھارتی اشتعال انگیزیاں اُجاگر کی جائیں بلکہ رسمی احتجاجی مراسلے تھمانے کے علاوہ جارحیت کی مرتکب ریاست کو دندان شکن جواب دیا جائے تا کہ آئندہ اُسے انسانی جانوں سے کھیلنے کی کبھی ہمت نہ ہو ۔
عالمی سطح پر بڑھتے چینی اثرورسوخ کو محدودکرنے کے لیے بھارت امریکہ کی ضرورت ہے 23 جون جمعہ کے روز وائٹ ہائوس میں ہونے والی مودی بائیڈن ملاقات ثابت کرتی ہے کہ امریکہ نے چین کو محدودکرنے کاکلیدی کرداربھارت کو سونپ دیاہے۔ اسی بنا پرمودی جیسے جنونی کو مشترکہ اعلامیے میں ایسے نکات شامل کرانے میںکامیابی ہوئی جن میں پاکستان سے ایسی تنظیموں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا جو پُرامن جدوجہد کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کے باشندوں کو حق ِخوداِرادیت دلانے کے لیے سرگرم ہیں اگر کسی ایک آدھ تنظیم پر مسلح کارروائیوں کا الزام ہے تواُسے ملک میں قانونی بندشوں کا سامنا ہے جس کی بنا پر مودی ،بائیڈن مشترکہ اعلامیے کو دنیا بھر کے امن پسند حلقے غیر ضروری اوربے وقت کی راگنی قرار دیتے ہیں پاکستان کا امریکی ڈپٹی چیف کو دفترخارجہ بلا نا اور مشترکہ اعلامیے پرشدید احتجاج کرنااوریہ کہناکہ یکطرفہ غیرضروری بیان پر مایوسی ہوئی نیزاعتمادپر مبنی ماحول پاک امریکہ تعلقات مستحکم کرنے کے لیے ناگزیرہے۔ درست سہی، دوٹوک کرنے والی بات یہ ہے کہ کشمیر تقسیم ِ ِہندکا دیرینہ مسئلہ ہے جو خطے کے دوبڑے ممالک میں طویل عرصہ سے کشیدگی کا باعث ہے جس کے حل کے لیے اقوامِ متحدہ نے ایک سے زائد قراردادیں پاس کررکھی ہیں مگر خطے پر تسلط جمانے کے احمقانہ خواب دیکھنے والا جارح بھارت اپنے وعدوں سے منحرف ہو کر مقبوضہ کشمیر کوحاصل خصوصی درجہ ختم کرتے ہوئے نہ صرف یکطرفہ طورپرضم کر چکا ہے بلکہ سواکروڑ سے زائد مسلمان آبادی کو عملی طور پر قید ی بنارکھا ہے۔ ریاست میں مذہبی اور انسانی حقوق عملاً معطل ہیں انسانی حقوق کے علمبردار امریکہ کی حالات سے چشم پوشی ثابت کرتی ہے کہ اُس کے قول وفعل میں تضاد ہے اورضرورت پڑنے پروہ جارح ملک کی سرپرستی معیوب تصور نہیں کرتا۔
دوجوہری ممالک میں ٹکرائو بنی نوع انسان کے لیے کسی طور سود مند نہیں ہوسکتا لیکن جنونی ہندو اکھنڈ بھارت کے لیے ہر انتہا تک جا نے کوتیار ہیں۔ خطے کا امن دائو پر لگتا دیکھ کر بھی امریکہ خاموش ہے۔ جہاں تک چین سے مقابلے کی بات ہے 1962 سے لیکر اب تک وسیع یا محدود ہونے والی تمام جھڑپوں میں ہمیشہ بھارت کوہزیمت ہوئی ہے۔ اسی لیے فوجی حوالے سے چین کا مقابل قیاس کرناہی غلط ہے۔ علاوہ ازیں تجارتی و معاشی حوالے سے بھی ایسے کسی قیاس کی تائید نہیں ہوتی۔ ماہرین اِس پر متفق ہیں کہ بھارت کی طرف سے خریدے اسلحہ کے ڈھیر پاکستان کے خلاف استعما ل ہو سکتے ہیںپھربھی روایتی اور جوہری ہتھیاردیکرخطے کا امن تہہ بالا کرنے میں امریکہ کا حصہ داربنناناقابلِ فہم ہے۔ کیاوہ نہیں جانتا پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بھاری نقصان اُٹھایا ہے؟ علاوہ ازیں بھارت کے طول و عرض میں مسلمان ، سکھ ،عیسائی ،دلت اور بدھ مت نہ صرف بنیادی انسانی حقوق سے محروم بلکہ ہندواکثریت کے ظلم و ستم کا شکار ہیں؟ظاہرہے اُسے تمام حالات کا بخوبی علم ہے اور ضرورت کی وجہ سے چشم پوشی پر مجبور ہے۔ ہر بار میدانِ حرب میں منہ کی کھا کر فرار ہونے والی بھارتی افواج مستقبل میں بھی چین کو نقصان نہیں پہنچا سکتیں کیونکہ اندرونِ ملک دودرجن سے زائد علیحدگی کی تحریکیں زوروں پر اور سات ریاستوں میں حکومتی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اِ ن حالات میں نقصان سے دوچار کرناتودرکنارمقابلے کی توقع رکھناہی احمقانہ خیال ہے۔ اپنے ملک میںجوسپاہ حکومتی رٹ بحال کرنے سے قاصرہے ،وہ کسی مضبوط فوج کا خاک مقابلہ کر سکتی ہے؟
خطے کے حالات 1971سے یکسرمختلف ہیں۔ عوامی سطح پر انتشارو افرتفری کا فائدہ اُٹھا تے ہوئے علیحدگی کے بیج بونے میں اب کسی صورت بھارت کامیاب نہیں ہو سکتا۔ مضبوط اور تربیت یافتہ پاک فوج ہرقسم کی بیرونی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی پوزیشن میں ہے۔ دہشت گردی کے خلاف طویل عرصہ سے سرگرمی نے اُسے کُندن بن دیا ہے۔ روایتی اورجوہری ہتھیاروں سے لیس یہ دلیر فوج ہر قسم کی مُہم جوئی کا سامنا کرنے کے قابل اور ہرمیدان میںغیر متوقع نتائج دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اِس کا تجربہ فروری2019 میں بھارت کوہوچکا جب اُس کے طیاروں نے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی توابتدامیں پاکستان نے احتجاج کرتے ہوئے نہ صرف اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو واقعہ کے نتائج واثرت سے آگاہ کیا بلکہ بھارت سے اشتعال انگیزکارروائی پر جواب طلبی کی۔ ایک دن انتظار کے باوجود جب بھارت نے معذرت نہ کی تو غم وغصے سے تلملاتی قوم کو صبروتحمل کادرس دیتے ہوئے عمران خان نے بطوروزیر اعظم واشگاف الفاظ میں جوابی کارروائی کاانتباہ دیا پھربھی بھارتی رویہ تبدیل نہ ہواتو چشم فلک نے دیکھا کہ پاک فضائیہ کے جانبازوں نے سرعت سے نہ صرف بھارت کے دوطیارے مارگرائے بلکہ اپنی حدودمیں گرنے والے طیارے کے پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کرلیا۔تمام ترتیاری اور صلاحیت کے باوجود دوست ممالک اور یواین او کی مداخلت پرپاکستان نے محدود جواب پر اکتفاکرتے ہوئے بعدازاں حملہ آورہوابازابھی نندن کوبھی رہا کردیا۔
ہر ملک کواپنی آزادی و خودمختاری کا تحفظ کرنے کاحق حاصل ہے، جسے کوئی عالمی طاقت سلب نہیں کر سکتی۔ آزادکشمیر میں آنے جانے کے ایسے علاقے جہاں آمدورفت کا سلسلہ کچھ عرصہ سے مکمل طور پر منقطع ہے ۔بھارت کی اشتعال انگیزی اور خبردار کیے بغیر چرواہوں کو نشانہ بنانا ثابت کرتا ہے کہ اُس کے توسیع پسندانہ عزائم امریکی تائیدحاصل ہوتے ہی واضح ہو چکے ہیں جن کاادراک نہ کرنا جان بوجھ کرنقصان اُٹھانے کے مترادف ہوگا۔ ایک بات طے ہے کہ بھارت امن کی زبان نہیں سمجھتا اگر سمجھتا ہوتا تو ابھی نندن کی رہائی سے ضرور سبق حاصل کرتا ۔امریکہ ،روس ،اسرائیل اور یورپ سے وسیع پیمانے پر اسلحہ خرید ناثابت کرتا ہے کہ اُس کے عزائم خطرناک ہیں اور وہ خطے پر تسلط جمانے کے اپنے دیرینہ خواب کو تعبیر دینے میں مصروف ہے جس کے لیے ہنگامی بنیادوں پر تیاری لازم ہے یادرکھیں اگر تیاری ہو تو یا تو جنگ نہیں ہوتی اور اگر جنگ ہو توکبھی شکست نہیں ہوتی۔
٭٭٭