وجود

... loading ...

وجود

سیاست کو سیاست سے شکست دیں!

منگل 27 جون 2023 سیاست کو سیاست سے شکست دیں!

عطا محمد تبسم
۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک طرف تو آئی ایم ایف کی شرائط کو مان کر بجٹ میں 215 ارب روپے کے مزید ٹیکس لگادیے ہیں، تو دوسری جانب وزیر خزانہ نے فرمایا ہے کہ”پارلیمنٹ کے ارکان کے لیے خصوصی حج فلائٹ کا انتظام کیا ہے ، ارکان اسمبلی حج پر جائیں اور ملک کے لیے دعائیں کریں”۔ 52 ارکان پارلیمان کا یہ حج قافلہ جس میں صدر مملکت عارف علوی بھی شامل ہے ، خصوصی پرواز سے گیا ہے ، اور یہ سارے اخراجات اس ملک کے غریب عوام ہی کو بھگتنے پڑیں گے ، یہ ملک دعاؤں کے سہارے ہی چل رہا ہے ۔ ورنہ حکمرانوں نے تو اسے ڈبونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔ملک کے سب سے بڑے ایوان کی بجٹ سے دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ فنانس بل کی منظوری کے عمل کے دوران اراکین کی اکثریت ایوان سے غائب تھی، وزیرا عظم سمیت اہم پارلیمانی لیڈر بلاول بھٹو، آصف زرداری، راجہ یونس، اختر مینگل، امیر ہوتی سب غیر حاضر تھے ، صر ف 70 حکومتی اور 2 اپوزیشن ارکان کی شرکت سے یہ بھاری ٹیکسوں کا فنانس بل منظور کرلیا گیا ہے ۔
اللہ اور اس کے رسول ۖ نے سود حرام قرار دیا ہے ، وفاقی شرعی عدالت سود کے خاتمے کا فیصلہ دے چکی ہے ، لیکن حکومت اس سودی نظام کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ جماعت اسلامی کے اکلوتے رکن اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے اس پر آواز اٹھائی اور فنانس بل کو سودی نظام پر مبنی قرار دیتے ہوئے ، اسے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کا مطالبہ کیا، لیکن اس نقار خانے میں ان کی آواز کون سنتا ہے ۔
ملک میں الیکشن کے بارے میں کوئی آواز اٹھتی ہوئی نظر نہیں آتی ، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ، دونوں تیاریوں میں مصروف ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک دوسرے سے خائف اور برسر پیکار بھی ہیں، پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب اور مسلم لیگ ن کے قلعوں میں شگاف ڈال رہی ہے ، اور اس پر مسلم لیگ شور بھی مچا رہی ہے ۔ لیکن مسلم لیگ ن زرداری کی سیاست کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ، عیاری اور چالاکی ، اور وقت سے فائدہ اٹھانے میں زرداری کو اولیت حاصل ہے ، نواز شریف اب شائد ہی پاکستان آئیں، اس لیے بھاری دل کے ساتھ انھوں نے مسلم لیگ ن کی صدارت کی پگھ اب شہباز شریف کے سر پر رکھ دی ہے ، مسلم لیگ میں بھی توڑ پھوڑ جاری ہے ، مفتاح اسماعیل اور شاہد خاقان عباسی نے اپنے راستے جدا کر لیے ہیں، حکومت میں پیپلز پارٹی نہ صرف اپنے حصے کا شیئر لے رہی ہے ، بلکہ حکومت کو بلیک میل بھی کر رہی ہے ، سوات میں بلاول بھٹو کی تقریر میں بجٹ پر تنقید بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی، بلاول نے واضح کیا تھا کہ سیلاب زدگان کے لیے مناسب فنڈ نہیں رکھے تو بجٹ کو ووٹ نہیں دیں گے ۔ بعد میں ان کو لائن شیئر کے طور پر سیلاب زدگان کے نام پر فنڈز مہیا کر دیے گئے ۔ سارا عالم جانتا ہے کہ سیلاب میں پیپلز پارٹی نے سندھ میں کیا امدادی کام کیا تھا، یہ الخدمت اور دیگر فلاحی تنظیم تھیں، جنہوں نے سندھ اور جنوبی پنجاب میں شاندار خدمات انجام دی تھی۔گزشتہ دنوں طلال چوہدری نے ، پیپلز پارٹی سے کہا تھا کہ “ہم بھی انتخابات کے لیے تیار ہیں لیکن یہ آزاد کشمیر اور مئیر کراچی جیسے نہیں ہونے چاہئیں۔ انھوں نے پیپلز پارٹی کو یہ احسان بھی جتایا کہ کراچی مئیر کے انتخاب میں مسلم لیگ ن نے بھی پیپلزپارٹی کو ووٹ دیے تھے ۔
کراچی میں جس ڈھٹائی اور بے شرمی سے پیپلز پارٹی میئر شپ پر قابض ہوئی ہے ، وہ سب نے دیکھ لیا ۔ جماعت اسلامی اس انتخاب کو چیلنج کر رہی ہے ، لیکن جب تک سہولت کار پیپلز پارٹی کو سہارا دے رہے ہیں، وہ کراچی پر قبضہ رکھے گی ۔ جماعت اسلامی کو شکست نہیں ہوئی، اس کی یہ فتح ہے کہ اس نے پیپلز پارٹی کی فسطائیت کو بے نقاب کیا ہے ، جماعت اسلامی کو کراچی میں نو ٹاؤن چیئرمین ملے ہیں، اسے اب ان پر فوکس کرکے اپنے تنظیمی اور دعوتی کام پر توجہ کرنی چاہئے ۔مسلسل احتجاجی سیاست ، مظاہرے ، ریلی ، جلسے جلوس سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ جماعت اسلامی ایک مضبوط اپوزیشن سے بلدیہ میں پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے ۔ اس بات کو پیپلز پارٹی بھی جانتی ہے کہ پیپلز پارٹی نے کامیابی کیسے حاصل کی ہے ۔ اس لیے پیپلز پارٹی کو بھی عوام کی خدمت کرکے بدنامی کا یہ داغ مٹانا چاہئے ۔ کراچی کے بہت سے حلقے جن میں چاروں وارڈ جماعت اسلامی کے کونسلر جیت چکے تھے اس کے باوجود چیئرمین اور وائس چیئر مین کو جتوایا گیا جس پولنگ بوتھ سے جنرل الیکشن میں چار ووٹ پڑے وہاں اسی بوتھ میں دس ووٹ کو دو سفر کے اضافے کے ساتھ ہزار ووٹوں میں تبدیل کردیا گیا ۔ اگلے مرحلے میں کیا ہوگا، اس کی ایک جھلک الیکشن کے بعد جماعت اسلامی کے کارکنوں پر پیپلز پارٹی اور پولیس اور رینجرز کے مشترکہ آپریشن سے سب دیکھ چکے ہیں۔ یعنی طاقت کے مقابلے میں طاقت کا مظاہرہ کریں گے تو اپنے قیمتی کارکنان کا نقصان کریں گے ۔ حافظ نعیم کی قیادت ، ہمت ، نیک نامی ، کی سب تعریف کرتے ہیں۔ وہ ہارے نہیں ہیں، بلکہ ہرائے گئے ہیں۔ عوام یہ سب جانتی ہے ، آدھے سے زیادہ شہر ان کے قبضے میں ہے ، ضلع وسطی کورنگی گلشن اقبال شاہ فیصل کالونی جیسے اہم مقامات میں ، اب مقابلہ کام کا ہونا چاہئے جس سے شہریوں کا بھلا ہوگا ۔ عام انتخابات قریب ہیں جماعت اپنے ٹاونز میں ترقی لاتی ہے تو مزید ووٹ لے سکے گی۔ سندھ میں جماعت اسلامی کو کام کرنا ہے ، تو جھگڑے کی سیاست سے باہر نکلنا ہوگا۔ جہاں شہری علاقوں میں ناانصافی ہے ، وہاں سندھ کے گاؤں دیہاتوں میں بھی ناانصافی اور ظلم ہے ، اس پر آواز اٹھانی چاہئے ۔ یہ سیاسی معاملہ ہے ۔ جسے سیاسی انداز ہی نمٹنا چاہئے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
اقوام متحدہ فلسطین و کشمیر کے مسئلہ میں ناکام وجود جمعه 01 نومبر 2024
اقوام متحدہ فلسطین و کشمیر کے مسئلہ میں ناکام

آپ سے بڑھ کر کون جانتا ہوگا؟ وجود جمعرات 31 اکتوبر 2024
آپ سے بڑھ کر کون جانتا ہوگا؟

ایرانی میزائل پروگرام: تاریخ، ترقی اور موجودہ چیلنجز وجود جمعرات 31 اکتوبر 2024
ایرانی میزائل پروگرام: تاریخ، ترقی اور موجودہ چیلنجز

مودی حکومت کی تخریب کاری کی عالمی کارروائیاں وجود جمعرات 31 اکتوبر 2024
مودی حکومت کی تخریب کاری کی عالمی کارروائیاں

یہ جنگ اسرائیل کو مہنگی پڑے گی! وجود بدھ 30 اکتوبر 2024
یہ جنگ اسرائیل کو مہنگی پڑے گی!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر