... loading ...
معصوم مرادآبادی
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یکساں سول کوڈ کے جس غبارے میں کافی عرصے سے ہوا بھری جارہی ہے ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ جلد ہی پھوٹنے والا ہے ۔ حکومت نے ملک کو درپیش تمام سلگتے ہوئے موضوعات کو پس پشت ڈال کر ایک بار پھر یکساں سول کوڈ کا راگ بھیروی چھیڑ دیا ہے ۔اس کام کے لیے ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر لاء کمیشن کو متحرک کیا گیا ہے ،جوکسی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے دوبارہ اس موضوع پر لوگوں کی رائے طلب کررہا ہے ۔حالانکہ یہ وہی کمیشن ہے جو 2018میں وسیع پیمانے پر کی گئی مشاورت کے بعد یکساں سول کوڈ کو غیر ضروری اور ناقابل عمل قرار دے چکا ہے ۔ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مسلم حلقوں کی طرف سے یکساں سول کوڈکے خلاف سب سے زیادہ آوازیں بلند کی جارہی ہیں۔ پہلا بیان آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی طرف سے آیا ہے ، جس میں یکساں سول کوڈ کوملک کے لیے غیرضروری، ناقابل عمل اور انتہائی نقصان دہ قرار دیا گیا ہے ۔دیگر سطحوں پر بھی لاء کمیشن کی اس پہل پر سوالیہ نشان کھڑے کئے جارہے ہیں۔درحقیقت اس حکومت نے اپنے انتخابی منشور میں جو چاربنیادی وعدے کئے تھے ، ان میں سے وہ تین پورے کرچکی ہے ۔اب اس نے چوتھے وعدے یعنی یکساں سول کوڈ کی طرف پیش قدمی کی ہے اوراس کام کے لیے ایک بار پھرلاء کمیشن کو متحرک کیاگیا ہے ۔
حکمراں بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد ترجیحی بنیادوں پر چارکام انجام دے گی،یعنی رام مندرکی تعمیر، دفعہ 370کا خاتمہ، یکساں سول کوڈ کا نفاذ اور تین طلاق کا خاتمہ۔ حکومت ان میں سے تین وعدے پورے کرچکی ہے ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کا کام زور وشور سے جاری ہے اور عام انتخابات سے پہلے وزیراعظم اس کا افتتاح کریں گے ۔ ریاست جموں وکشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے دستور کی دفعہ370ختم کردی گئی ہے ، حالانکہ یہ سوال اب بھی منہ پھاڑے کھڑا ہے کہ جن مقاصد کے تحت اسے ختم کیا گیا تھا، وہ کس حد تک پورے ہوئے ہیں چونکہ نہ تو کشمیر میں علاحدگی پسندی کا خاتمہ ہوا ہے اور نہ ہی دہشت گردی پر لگام کسی جاسکی ہے ۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کی شدید مخالفت کے باوجود طلاق ثلاثہ کو قانونی طور پرجرم قرار دے دیا گیا ہے ۔ اس کا مقصد مسلم معاشرے میں تین طلاق کے رواج کو ختم کرنا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ تمام تر قانونی بندشوں اور سخت سزاؤں کے باوجود طلاق کا سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔اب حکومت نے اپنے چوتھے اور آخری وعدے کی تکمیل کی طرف قدم بڑھایا ہے ۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ یکساں سول کوڈ کا موضوع ہندوستانی آئین کی تشکیل کے وقت سے ہی حساس رہا ہے ۔ دستور ساز اسمبلی میں یہ امیدظاہر کی گئی تھی کہ شاید کوئی دن ایسا آئے گا، جب ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ ہوجائے گا۔دستور کی تشکیل کے وقت جہاں کچھ لوگ یکساں سول کوڈ کو سختی کے ساتھ نافذ کرنے کے طرفدار تھے تو وہیں زیادہ تر قائدین نے اس موضوع پر تحمل سے کام لینے کی وکالت کی تھی۔ ایسے ہی ایک ممبر مسٹر بی پوکر صاحب نے کہا تھا کہ میں کونسل سے اپیل کروں گا کہ وہ اس ترمیم پر صرف مسلم فرقہ کے نقطہ نظر سے ہی نہیں بلکہ اس ملک میں رہنے والی مختلف برادریوں کے نقطہ نظر سے غور کریں جو وراثت، شادی وطلاق، ہدیہ اور دیگر موضوعات پر مختلف قوانین کومانتی ہیں۔انھوں نے مزید کہا تھا کہ کونسل کو دھیان ہوگا کہ انگریز اس ملک پر فتح حاصل کرنے کے بعد یہاں ڈیڑھ سوسال تک اپنی حکومت چلانے میں اس لیے کامیاب ہوئے کہ انھوں نے اس ملک میں مختلف برادریوں کو اپنے نجی قوانین پر عمل کرنے کی آزادی دی تھی۔ یہ کامیابی کی کنجی تھی اور انصاف کے نظام کی بنیاد تھی، جس پر غیرملکی راج کا انحصار تھا۔اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ دستورساز اسمبلی میں جہاں پہلے پہل یکساں سول کوڈ کا موضوع زیربحث آیا تھا،شدید اختلافات تھے ، اس لیے اس موضوع کو یونہی چھوڑ دیا گیا تھا، لیکن موجودہ حکومت ووٹ بینک کی سیاست کے لیے ایک بار پھر انتشار پیدا کرنے والے اس موضوع کو ابھارنا چاہتی ہے ۔حالانکہ یہ کوئی ایسا موضوع نہیں ہے جس کی ملک کو فوری ضرورت ہو۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ کی طرف سے یکساں سول کوڈ کی مخالفت میں جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یکساں سول کوڈ کا مجوزہ خاکہ بہت سے امور میں شریعت کے عائلی قانون سے متصادم ہوگاجو دینی نقطہ نظر سے مسلمانوں کے لیے قطعی ناقابل قبول ہے ۔ ہمارا ملک ایک کثیر مذہبی، کثیر ثقافتی اور کثیر لسانی ملک ہے اور یہی تنوع اس کی خاص پہچان ہے ۔ملک کے دستور سازوں نے اس نزاکت اور خصوصیت کا خیال رکھتے ہوئے مذہبی اور ثقافتی آزادی کو بنیادی حقوق کی حیثیت دے کر اسے تحفظ فراہم کیا ہے ۔ اس سلسلے میں دستور کی متعلقہ دفعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہشمال مشرقی ریاستوں میں قبائل کو یہ ضمانت دی گئی ہے کہ پارلیمنٹ کوئی ایسا قانون وضع نہیں کرے گی جو ان کو ان کے فیملی لاز سے محروم کردے ۔بورڈ نے اپنے تحریری بیان میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ قانون شریعت قرآن وسنت سے ماخوذ ہے جس میں مسلمان کسی بھی تبدیلی کے مجاز نہیں ہیں۔اسی طرح دوسرے مذہبی وثقافتی گروہ بھی اپنی روایتی وتہذیبی قدروں کو عزیز رکھتے ہیں،لہٰذا حکومت یا کسی بیرونی ذریعہ سے پرسنل لاز میں کوئی بھی تبدیلی سماج میں انتشار اور بدامنی کا باعث ہوگی اور کسی بھی معقول حکومت سے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ حکومت نے یکساں سول کوڈ پر بحث ومباحثے کا دروازہ ایک ایسے وقت میں کھولا ہے جب ملک کے شمال مشرقی خطے کی ریاست منی پور شعلے اگل رہی ہے ۔ دوقبائل کے درمیان جاری خونریز تصادم میں اب تک سو سے زیادہ بے گناہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ایسے میں حکومت وہاں امن قایم کرنے اور باہمی اعتماد کو فروغ دینے کی بجائے سماجی انتشار پھیلانے والے موضوعات کو ہوا دے رہی ہے ۔ اس کا واحد مقصد حکومت کی ناکامیوں کی پردہ پوشی کرنا ہے ، جس کی طرف اپوزیشن جماعتوں نے بھی عوام کی توجہ مبذول کرائی ہے ۔ کانگریس، جنتا دل (یو)ترنمول کانگریس وغیرہ نے یکساں سول کوڈ کو بے وقت کی راگنی قرار دیا ہے ۔ترنمول کانگریس کے لیڈر ڈیرک اوبرائن نے کہا ہے حکومت بے روزگاری، مہنگائی اور سماجی انتشار پر قابو پانے کی بجائے شعلوں کوہوا دے رہی ہے ۔
جیسے جیسے عام انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے حکومت ایسے موضوعات کو ہوا دے رہی ہے جن سے سماجی ہم آہنگی متاثر ہواور ووٹوں کی فرقہ وارانہ صف بندی کی راہ آسان ہو۔ حکمراں جماعت کے لیے یکساں سول کوڈ ایسا ہی ایک موضوع ہے جس کے ذریعے وہ ووٹوں کی صف بندی کرکے ان کی فصل اگا سکتی ہے ۔اسے اس بات کا بخوبی علم ہے کہ یکساں سول کوڈ ایک ایسا حساس موضوع ہے جس پر مسلمان سب سے زیادہ بدکتے ہیں۔ کیوں نہ عام انتخابات میں اسے ایک بنیادی موضوع کے طورپر محور میں لایا جائے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو اس معاملے میں مشتعل نہ ہونے کی صلاح دی جارہی ہے ۔حالانکہ یکساں سول کوڈ کی زد مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دوسرے طبقوں پر بھی پڑے گی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم تنظیمیں اور گروپ اس معاملے میں بیان بازی کرنے کی بجائے یکساں سول کوڈ سے متاثر ہونے والی دیگر اقلیتوں اور قبائل کے لیڈران سے رابطہ قایم کرکے ایک مشترکہ محاذ بنائیں تاکہ یکساں سول کوڈ کو خالص مسلمانوں کا مسئلہ بنانے کی حکمراں جماعت کی کوششوں کو ناکام کیا جاسکے ۔ دوراندیشی کا تقاضہ یہی ہے ۔
٭٭٭